بجٹ 2017-18ء ،غریب عوام کو کیا ملا؟

تنخواہوں میں 10 مہنگائی میں 50 فیصد اضافہ! 5 سو ارب روپے کے لگائے گئے نئے ٹیکسز سے قرضوں کی ادائیگی ممکن ہوپائے گی۔

ہفتہ 10 جون 2017

Budget 2017-18 Ghareeb Awam Ko Kia Mila
محبوب احمد:
غربت ،مہنگائی،بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی یہ وہ مسائل ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔قدرتی دولت سے مالا مال ملک پاکستان کو حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور بیرونی مداخلت نے معاشی بدحالی کا شکار کردیا ہے۔پاکستانی حکمرانوں نے ہر دور میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بلند وبانگ دعوے کئے لیکن ان پر کوئی عمل نہ ہوسکا،یہی وجہ ہے کہ آج غریب عوام مہنگائی اور بے روز گاری کے باعث اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔

بجٹ اعدادشمار کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو عام آدمی کو کبھی سمجھ نہیں آیا او ر نہ ہی ایسا ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔قومی بجٹ چاہے کوئی بھی پیش کرے،ہرن سال اس میں معمولی ردوبدل اور الفاظ کی جادوگری کے سوا کوئی نئی بات نظر نہیں آتی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کو کس طرح زیادہ سے زیادہ نوازا جائے اور عوام کی اکثریت پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا کتنا مزید بوجھ ڈالا جائے۔

(جاری ہے)

حکومت ہر بجٹ کو عوام دوستی کہتی ہے چاہے اس میں عوام پر کتنی ہی کاری ضرب کیوں نہ پڑی ہو۔وفاقی بجٹ پر ان دنوں تبصروں کا سلسلہ جاری ہے،حکومت نواز اقتصادی ماہرین جہاں حالیہ پیش کئے گئے بجٹ کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف ہیں وہیں دوسری طرف حکومت مخالف اپوزیشن اس بجٹ کو غریب عوام کیلئے زہر قاتل قرار دے رہی ہے۔کیا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قوم اسمبلی اور سینیٹ میں بجٹ پر دھواں دھار تقریر سے غریب عوام کو ریلیف میسر ہوسکے گا؟،کیا عوام پر ٹیکسوں کر شرح میں ردوبدل کے نتیجے میں جو بوجھ پڑناتھا اس میں کوئی کمی ہوگی؟،کیا وزیر خزانہ زبانی کلامی دکھائی گئی لچک پر عملدرآمد کریں گے؟،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن موجودہ حالات میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں جہاں حکومت کی طرف سے تنخواہوں میں 10 فیصداضافہ ہوا ہے وہیں مہنگائی میں 50 فیصد اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔


پاکستانی عوام برسہابرس سے مہنگائی اور بے روزگاری کی بے رحم اور سفاک موجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں،عوام کے پاس بس آنسو ہیں،ہر طرف بے بسی کا عالم ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ہر جمہوری خواب کی تعبیر الٹ ہی نکلی ہے پاکستان میں ایک اعدادوشمار کے مطابق 70 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی،82 فیصد کو جدید علاج کی سہولتیں میسر نہیں،قوم کے 3 کروڑ بچوں کے لئے سکولوں کے دروازے بند ہیں۔

رمضان المبارک سے ایک روز قبل 47 کھرب 57 ارب کا جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے۔اس میں تعلیم کے لئے 90 ارب جبکہ صحت کے لئے جو 12 ارب مختص کئے گئے ہیں،اس سے بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ دونوں شعبے تاحال اہل اقتدار کی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہوسکے ہیں ،حالانکہ حکومت دعویدار تھی کہ تعلیم و صحت کو وہ اپنی ترجیحات میں شامل کرے گی مگر بجٹ گواہ ہے کہ کس طرح ان دونوں شعبوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔

پاکستان اکنامک واچ کی رپورٹ کے مطابق ہر دوسرا پاکستانی نوجوان بے روزگار ہے۔ 50 فیصد نوجوانوں کے لئے پڑھے لکھے ہونے کے باوجودکوئی روزگار نہیں اور ہر نئے برس ان کی تعداد میں 10 لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مہنگائی ،بے روزگاری،ذخیرہ اندوزی اور کساد بازاری کے ہاتھ یرغمال ملک میں بڑے ترقیاتی منصوبے پر کھربوں روپے لگانا ہر گز درست سمت میں قدم نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ صحت اور تعلیم پر توجہ دئیے بغیرن کوئی بھی ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا یہ ایک ٹل حقیقت ہے کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہمیشہ سے ہی جغرافیائی تبدیلی کا باعث بنی ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے اضافی بجٹ مختص کیا جاتا ہے تاکہ ان علاقوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرکے غربت اور پسماندگی کی خاتمہ کیا جاسکے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں 70 برس سے ”الٹی گنگا“ہی بہہ رہی ہے سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ غربت،تنگدستی اور بے روزگاری کے باعث خود کشیوں پر مجبور ہیں لیکن دوسری طرف ہوشربا ٹیکسوں کے نفاذ سے ان کا جینا مزید دوبھرکیا جارہاہے۔

دنیا بھر میں براہ راست ٹیکسز کا نفاذ ہوتا ہے۔اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح بھی بہت قلیل ہوتی ہے۔معاشی اصطلاح میں”بالواسطہ“ٹیکسوں کو معاشی چالاکی کا نام دیا گیا ہے اور یہ ٹیکس ان غریب صارفین سے وصول کیا جاتا ہے جوٹیکس دہندگان کے زمرے میں ہی نہیں آتے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ بیان کہ”یقینا غریب عوام کے زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ اس بیان سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ انہیں قطعاََ اس چیز کا علم نہیں ہے کہ کسی غریب کے گھر کا بجٹ کیسے بنتا ہے؟۔

حالیہ بجٹ کی خوبی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ تنخواہ میں 10 فیصد اور مہنگائی میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے،مزید یہ کہ مزدور کی تنخواہ میں جہاں ایک ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے وہیں صدر مملکت کی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔کیا بجٹ میں جو پانچ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں ان سے بیرونی قرضوں کی ادئیگی یقینی ہوپائے گی۔

توانائی بحران سے چھٹکارے کیلئے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔لیکن پاکستان میں آج تک کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ دینا گوارہ نہ کیا،موجودہ اور سابقہ حکومت نے بھی توانائی منصوبوں پر قوم کا کھربوں روپے خرچ کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔پاکستان میں ان دنوں پانی و بجلی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے لیکن اس بحران پر کنٹرول کرنے کیلئے تاحال حکومتی سطح پر محض زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔

ڈیموں کی تعمیر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور موجودہ حالات میں تو ان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جارہی ہیں۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ کام 1953ء میں شروع ہوا تھا،اس ڈیم کی خصوصیات یہ ہے کہ اس ڈیم کے بارے میں دریائے سندھ کے علاوہ دریائے کابل ،دریائے کنٹر،دریائے سوات،دریائے دیر اوردریائے سوان،کا پانی بھی جمع ہو سکتا ہے کیونکہ کالا باغ کا علاقہ ہی وہ مناسب جگہ ہے جہاں ان دریاؤں کا اتصال ہوتا ہے۔

اس ڈیم کی بالائی سطح کی اونچائی سطح سمندر سے 925 فٹ رکھی گئی تھی۔1991 میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوئے تھے اور کالا باغ ڈیم کے لئے گرین سگنل دے دیا گیا تھا لیکن پھر اس منصوبے کے ساتھ کیا ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔توانائی بحران کے باعث ملک آج بھی تاریکی میں ڈوبا ہواہے،یہ بھی ایک بہت برا لمحہ فکریہ ہے کہ حالیہ پیش کئے گئے بجٹ میں کالاباغ ڈیم کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی حالانکہ قبل ازیں کالا باغ ڈیم کا نام زندہ رکھنے کیلئے بجٹ میں 10 لاکھ روپے رکھے جاتے تھے۔

یہ ایک دلچسپ امرہے کہ توانائی بحران اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کے شکار پاکستان میں صرف 18 ڈیم ہیں اور پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ء کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا۔جو دنیا بھر کے 10 لاکھ ڈیمز کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں جبکہ اس کے برعکس بھارت کے پاس 1947ء میں صرف 300 ڈیمز تھے جن کی اس وقت تعداد 4 ہزار تک پہنچ گئی ہے اور ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8ن ہزارمربع کلومیٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37 ہزار 367 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے 36 پاور سٹیشن کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد 10 لاکھ ہے،جبکہ عالمی سطح پر دنیاکے کل ڈیموں کا 59.7 فیصد ایشیاء میں،21.1 فیصد شمالی امریکہ،12.6 فیصد یورپ،3.3 فیصد افریقہ،2 فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3 فیصد آسٹریلیا میں ہیں۔حکومت نے موجود بجٹ میں کس منصوبے کیلئے کتنی رقم مختص کی یہ ایشو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن بظاہراگر دیکھا جائے تو موجودہ صورتحال میں حکومت کو اپوزیشن کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ اپوزیشن کا موجودہ بجٹ کو غریب دشمن قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ حکومت کوئی بھی ٹارگٹ پورا نہیں کرسکی ہے۔

حکومت نے ماضی میں بھی کئی منصوبوں کے اعلانات تو کئے لیکن ان پر کوئی کام شروع نہ ہوسکا۔عوام کے ساتھ ساتھ کسان بھی حکومت سے ناراض ہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے تو پارٹی رہنماؤں اور اراکین و قومی اسمبلی جو اس بجٹ کے خلاف آواز اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کی بھر مار ہے۔موجودہ حکومت نے 3 برس میں ریکارڈ قرضے لئے ہیں،برآمدات30ارب ڈالر سے کم ہو کراس سال 25ارب ڈالر رہ گئی،ملک بیرونی قرضوں کے اندر جکڑا جا چکا ہے ،گزشتہ 30 برس میں سب سے کم سرمایہ کاری اس سال ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوا ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 30 برس میں سب سے کم سرمایہ کاری ان 3 برس کے دوران ہوئی ہے۔دنیا بھر میں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔لیکن پاکستان میں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے اور حالیہ تنخواہوں میں اضافہ بھی”اونٹ کے منہ میں زیرہ“دینے کے مترادف ہے۔


مہنگائی میں گزشتہ 3 سال میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔لہٰذبجٹ میں تنخواہیں30فیصد سے 3 سو فیصد تک بڑھنی چاہیے تھی لیکن ایسا کسی بھی دور حکومت میں نہیں ہوا کیونکہ ایوانوں میں فرینڈلی اپوزیشن ہورہی ہے،6 ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے نعرے لگانے والے 9 برس میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیں کر سکے۔بجٹ میں آدمی کو ریلیف دینے،غربت اور مہنگائی میں کمی اور تعلیم ،صحت اور روزگار کے شعبوں میں بہتری جیسے اہم مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور سعودی نظام سے نجات کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں دی گئی۔کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والوں نے مزیدقرض نہ لینے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔عوام کو توقعات تھیں کہ حکومت جاتے جاتے ان کے لئے خصوصی ریلیف کا سامان کرتے ہوئے پانی،بجلی،گیس،پٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کرے گی لیکن حکومت اپنے آخری بجٹ میں بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Budget 2017-18 Ghareeb Awam Ko Kia Mila is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.