بلوچستان میں قیام امن کے دعوے سوالیہ نشان؟

صوبائی حکومت کی کارکردگی کا پول کھل کرسامنے آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ بی این پی ، عوامی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے مابین سہ فریقی اتحاد تشکیل

پیر 11 دسمبر 2017

Blochistan Me Qyam Aman K Dawy Swaliya Nishan
عدن جی:
کیا بلوچستان میں سیاست کے تیور بدل رہے ہیں؟ یہ سوال بلوچستان کے حالیہ ضمنی الیکشن حلقہ این اے 260 کوئٹہ چاغی کے نتائج کے حوالے سے سامنے آیا۔ جس میں پشونخواہ میپ خالی کردہ نشت جمیعت علماء اسلام نے جیت لی۔ یہ بلوچستان کا سب سے بڑا حلقہ ہے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق جمیت العمائے اسلام کے امیدوار حاجی میر عثمان بارینی نے 43 ہزار ایک سو 91 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔

اس نشست پر تین سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا میں میں پشتونخواہ میپ کے ساتھ بی این پی اور جمعیت العلمائے اسلام(ف) شامل ہیں۔ اس ضمنی انتخاب کی ایک اور اہمیت یہ بھی تھی کہ تمام سیاسی جماعتیں اس انتخاب کے حوالے سے نئے سیاسی اتحاد بنائیں گی اور چونکہ بلوچستان میں تو انتخابی گہما گہمی اس انداز سے شروع ہوچکی ہے تو قومی انتخابات کا اعلان گویا جلد ہونے کو ہے۔

(جاری ہے)

سیاسی رابطے مذاکرات جوڑ توڑ عروج پر ہے، لہٰذا یہاں جیتنے والے 43 ہزارووٹوں کے مقابلے میں بی این پی مینگل کے مقابلے میں37 ہزار ووٹ حاصل کئے اور دوسرے نمبر پر رہے جبکہ پیپلز پارٹی جس نے اس انتخاب سے بہت زیادہ توقعات قائم کررکھی تھیں صرف 15 ہزار413 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پررہے اور پشتونخواہ میپ نے 19010 ووٹ حاصل کرلئے جبکہ گزشتہ الیکشن پشتونخواہ میپ نے 30 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے، اب اگر اس امر کا تجزیہ کیا جائے کہ پشتونخواہ میپ صوبائی حکومت میں شامل ہونے کے باوجود کیوں اپنی نشت کا دفاع نہیں کرسکی۔

اور تیسرے نمبر پر رہی تو سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ پشتونخواہ میپ کی ایک پوری کھیپ صوبائی اسمبلی میں موجود پارٹی کے چیئرمین کے رشتہ دار ہیں مگر عوام کی خدمت کے نام پر ان کی کارکردگی کا ایک حالیہ ثبوت عبدلمجید اچکزئی کا ٹریفک کانسٹیبل کو گاڑی مار کر ہلاک کردینا ہے جو کسی بھی مہذب ملک کے تصور میں بھی نہیں ہوسکتا کہ اتنے واقعہ پر ندامت معافی تو دور کی بات ہے بلکہ یہ جملہ سنائی دیا کہ کیا ہوا اگر ایک پنجابی مرگیا اور پولیس کے ساتھ جاتے ہوئے میڈیا کو دیکھ کر برابھلا کہنا، مزے سے آبائی علاقے میں عید منانا پروٹوکول کا جیل میں ہونا جھوٹے صلح نامے یہ سب چیزیں ووٹرز کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہیں جلد دیکھنا یہ بھی ہے کہ اب سیٹ پکی ہونے کی بات پرانی ہوگئی ۔

بنیادی چیز کارکردگی ہے کہ عوام کے مسائل کتنے حل ہوئے بہر طور یہ انتخاب بنیادری طور پر آئندہ الیکشن کا ٹیسٹ کیس سمجھا جارہا ہے اس وجہ سے بھی اس حلقہ کے انتخاب کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی کا الزام انتظامیہ نے یہ کہہ کررد کر دیا کہ ہر ہارنے والا ایسے الزام لگاتا ہے لہٰذا ان کا احتجاجی مظاہرہ کوئی اثر نہیں رکھ سکا۔

بھی این پی مینگل عوامی نیشنل پارٹی ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے درمیان جو سہ فریقی اتحاد تشکیل پایا ہے اس نے بی این پی مینگل کے امیدوار کو دوسرے پر کھڑا کیا ہے اور سیاسی حلقوں کو امید ہے کہ یہ انخلا آئندہ الیکشن میں بھی چلے گا اور دوسراپہلو یہ بھی کہ بی این پی نے یہ ثابت کر دیا کہ اس کی جڑیں عوام میں موودہی تاہم پی پی پی اور سہ فریقی اتحاد نے اس انتخاب کو مسترد کردیا اور یہ الزام عائد کیا کہ حکومت نے مداخلت کی اور دھاندلی کروائی۔

پی پی پی کے بعض کارکنوں نے اس فیصلے کے خلاف الیکشن آفس کے سامنے مظاہرہ بھی کیا جس کو لاٹھی چارج سے منتشر کیا گیا ، اب بات ہے جے یوآئی(ف) کی کامیابی کی تو اس میں نیشنل پارٹی اور دالبندین سے منتخب ایم پی اے سخی میراامان اللہ نو تیزئی کا بڑا اہم کردار رہا جنہوں نے نہ صرف جے یو آئی کو سپورٹ کیا بلکہ بھر پور تعاون کیا اور ان کی وجہ سے جمیعت کے ووٹ بنک میں 10 ہزار ووٹوں کا اضافہ ہوا ۔

دوسرے جمیعت العلمائے اسلام اس نشست کے لئے خاصی دیر سے ہوم ورک کررہی تھی ، لہٰذا وہاں کی قبائلی شخصیات جو پشتونخواہ میپ کی کارکردگی سے ناراض تھیں انہوں نے جمیعت کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، اب اس الیکشن کے نتائج کے اثرات سینٹ کے اور عام انتخابات پر پڑیں گے، سیاسی طور پردیکھا جائے تو ہارنے والوں کا حکومت پر دھاندلی کا الزام یکسر غلط ہے کیونکہ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت صوبائی مخلوط حکومت سب شامل جماعتیں مسلم لیگ، پشتونخواہ میپ اور نیشل پارٹی ہیں جبکہ جے یو آئی، اے این پی، بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی اپوزیشن میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے حکومت میں شامل جماعت پشتونخواہ میپ کی حمایت کرے تاہم اپوزیشن میں آنے والی دراڑ اور جے یو آئی کی کامیابی نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی کہ انتخابات میں کسی بھی وقت کوئی بھی جیت سکتا ہے۔

اب جہاں تک صوبے کے امن وامان کا تعلق ہے تو اس بارے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اب جو چینی جوڑے کو اغوا کررکے ان کے قتل کی ویڈیو منظر عام پر آئی اور ایک آپریشن کے دوران مستونگ کے پہاڑوں سے دہشت گردوں کو پکڑا گیا بھاری اسلحہ برآمد ہوا تو یہ کہا گیا کہ اب دہشت گردی پر قابو پالیا یا ہے۔ مگر اس کے بعد پے درپے واقعات کوئی نئی کہانی سنارہے ہیں۔

ہزارہ کمیونٹی کے 4 افراد کو جن میں خاتون بھی شامل ہے کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے مستونگ کے قریب موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جے یوآئی کے دو افراد کو کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کو تومعمول کے گشت کے دوران یوں نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے وہ انسان نہیں جبکہ دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ ایک بار کوئٹہ وزٹ کرتے ہیں تو جگہ جگہ چیکنگ ایف سی کے ناکے پولیس کے گشت سے یوں لگتا ہے ہیاں کرفیو لگا ہے، پھر اتنی سکیورٹی کے بعد مجرم واردات بھی کرلیتے ہیں اور بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں آخر کیسے؟ کوئٹہ کے ہوٹل والے تو سخت پریشان ہیں کہ ہمیشہ اچھے دنوں میں جب کوئٹہ کا امن وامان مثالی تھا سیاحوں کی بہت بڑی تعداد گرمیوں میں کوئٹہ کا رخ کرتی تھی جس کی وجہ سے چھٹیوں میں ہوٹلوں کا سیزن پیک پرہوتا تھا اور بازاروں میں بھی گرم علاقوں سے آنے والوں کا رش ہوتا تھا، اب تو سب ختم ہوگیا اور کوئٹہ کا موسم بھی گرم ہوگیا۔

کوئٹہ کے امن کو نظر لگ گئی ہے یہاں سیاست چمک رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Blochistan Me Qyam Aman K Dawy Swaliya Nishan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.