بھارت کی آبی جارحیت اور پاکستانی دریاوٴں کی حالت

جب شدید بارشوں کے نتیجہ میں بھارتی ڈیموں پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش سے زیادہ ہوتا تو وہ پانی چھوڑ دیتا جس سے پاکستان میں سیلابی صورتحال پید ہو جاتی جس سے نہ صرف فصلوں بلکہ جان و مال کا بھی نقصان ہوتا۔

ہفتہ 13 جنوری 2018

Bharat Ki Aabi Jarhiat Aur Pakistani Daryaon Ki Haalat
خالد یزدانی:
پانی اور ہوا کے بغیر زمین پر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں، پانی ایک قدرت کی ایسی نعمت ہے جس کی جتنی ضرورت اس کرہ ارض پر انسان کو زندہ رہنے کیلئے ہے تو زمین کیلئے بھی اسکی اہمیت اتنی ہی ہے کہ پانی سے ہی زمین میں پھل پھول کھلتے ہی۔ اسی لئے دنیا بھر میں پانی کی اہمیت سے آگاہی کیلئے ہر سال ”ورلڈ واٹر ڈے“ بھی منایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں بسنے والوں کو اسکی اہمیت معلوم ہو کہ پانی جتنا انسان کیلئے ضروری ہے تو فصلوں کی نشوونما بھی اسی سے ممکن ہے کیونکہ جس زمین پر پانی نہ ہو تو وہ ”بنجر“ بن جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج پانی کی اہمیت سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سب ممالک آشنا ہیں اور زمین کو سرسبز رکھنے کیلئے اقدامات بھی کر رہے ہیں کہ جہاں سال بھر میں پانی میں کمی ہو سکتی ہے ،جس سے قحط سالی کا خطرہ ہو سکتا ہے تو وہاں ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا جانے لگا کیونکہ یہ پانی ہی ہے جو انسان اور حیوان کی زندگی کے ساتھ زراعت کے لئے بھی لازم ہے۔

(جاری ہے)

پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ آئندہ اگر کوئی بڑی جنگ ہوئی تو وہ پانی کے مسئلہ پر ہی ہو گی اسی لئے کہ پانی ہر ملک کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ ”پانی کی قلت“ ہے۔ 2013ء میں میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق اگر آج پانی کو ضائع ہونے سے نہ بچایا اور اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والی نسلیں زیادہ مصائب کا شکار ہوسکتی ہیں۔

لہذا جو قبل از وقت اس سے عہدہ برا ہوں گے وہی آنے والے دنوں میں خوشحال اور زندہ رہ سکتے ہیں۔اس وقت دیکھا جائے تو پاکستان وہ سر سبز خطہ ہے جس کو قدرت نے ہر قسم کے موسموں سے نوازاوہی آج پانی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے۔اس میں قیام پاکستان کے بعد آنے والے حکمرانوں کے فیصلوں کا بھی دخل ہے اور آج یہ صورتحال ہے کہ صاف پینے کے پانی سے پاکستان کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی محروم ہے اور ناقص مضر صحت پانی پینے کی وجہ سے عوام مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جن میں ہیپا ٹائٹس اور کینسر جیسے موذی مرض شامل ہیں جبکہ پاکستان کے دریاؤں کا پانی جو مقبوضہ کشمیر اور بھارت سے آتا تھا پر بھارت نے چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر ہمارے دریاؤں کو خشک کر دیا ہے۔

کبھی ہمارے پانچ دریاؤں راوی، چناب ، ستلج، سندھ اور جہلم میں سارا سال پانی رواں دواں رہتا تھا ،جس سے ہمارے علاقے سیراب ہوا کرتے تھے، ساٹھ کی دہائی میں جب ایوب خان پاکستان کے صدر تھے بھارت کے ساتھ ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا گیا۔ اس دور میں ہمارے ہاں ڈیم بھی بنے مگر بعد میں جو حکمران آئے انہوں نے کسی بڑے ڈیم کو بنانے کی طرف سنجیدگی سے کوشش نہ کی اور جو ڈیم کالاباغ کے نام سے بنانے کا فیصلہ بھی کیا وہ بھی دو صوبوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا اور آج تک کوئی قابل ذکر پیشرفت نہ ہو سکی جبکہ بھارت نے اس دوران معاہدے کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے دریائے چناب اور جہلم پر بھی ڈیم بنا لئے اور یوں ہمارے دریا خشک ہونے لگے۔

اب جیسے جیسے پاکستان میں پانی کی ضرورت بڑھی مگر پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی صلاحیت بھی بڑھنے کی بجائے” سلٹ “ کی وجہ سے کم سے کم ہونے لگی اور ڈیموں سے زمین کی سیرابی بھی متاثر ہوئی اور ساتھ ہی بجلی کی مانگ میں پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہونے لگی اور ملک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے لگا اور بجلی کے دیگر ذرائع سے یونٹ لگانے سے اسکی لاگت میں اضافہ ہوا اور یوں آج پانی کی وجہ سے ہی ملک مختلف مسائل کا شکار ہے۔

پانی آج پاکستان کی سرزمین کیلئے جتنی اہمیت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب سے بھارت سے آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستانی علاقے میں آنے والے پانی کو روکا گیا اس نے ہماری زراعت کو بھی بری طرح متاثر کیا اور جب شدید بارشوں کے نتیجہ میں بھارتی ڈیموں پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش سے زیادہ ہوتا تو وہ پانی چھوڑ دیتا جس سے پاکستان میں سیلابی صورتحال پید ہو جاتی جس سے نہ صرف فصلوں بلکہ جان و مال کا بھی نقصان ہوتا۔

پاکستان نے بھارت کی آبی جارحیت پر عالمی عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے اور دنیا کو اس بارے میں آگاہی کیلئے وطن عزیز میں سیمینار کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔ ہمارے ہاں اب مختلف ڈیموں پر کام ہو رہا ہے ، ضرورت ایک ایسے کالاباغ ڈیم کی طرح کے بڑے ڈیم کی ہے جس سے ہماری معیشت بھی ترقی کر سکے اور ہماری انرجی کے مسائل بھی حل ہو جائیں۔ کیونکہ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے ویسے ویسے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔تاکہ ملک ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے آگے بڑھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Ki Aabi Jarhiat Aur Pakistani Daryaon Ki Haalat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 January 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.