آزاد کشمیر الیکشن کارکردگی کی جیت

وزیر اعظم نواذ شریف نے کشمیر الیکشن کے بعد اپنے مخالفین کو جتلادیا ہے کہ الیکشن میں کامیابی دھرنے دینے یا گانے بجانے سے نہیں ملتی ہے بلکہ کامیابی کے لیے عوامی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ کشمیر میں پچھلی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی جنہوں نے مرکز کی طرح کشمیر میں بھی بدعنوانی کرپشن اور نااہلی کے ایسے مظاہرے کیے ہیں

منگل 26 جولائی 2016

Azad Kashmir Election
عتیق انور راجہ:
وزیر اعظم نواذ شریف نے کشمیر الیکشن کے بعد اپنے مخالفین کو جتلادیا ہے کہ الیکشن میں کامیابی دھرنے دینے یا گانے بجانے سے نہیں ملتی ہے بلکہ کامیابی کے لیے عوامی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ کشمیر میں پچھلی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی جنہوں نے مرکز کی طرح کشمیر میں بھی بدعنوانی کرپشن اور نااہلی کے ایسے مظاہرے کیے ہیں کہ ان کی جماعت کو ان انتخابات میں بہت بری طرح ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں اپنی ہار کے بعد پیپلز پارٹی اپنا امیج بچانے کے لیے دھاندلی کا کمزور سا نعرہ لگا کر اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش میں لگ رہی ہے۔ جبکہ کشمیر الیکشن کے نتائج کو کپتان نے کھلے دل سے ہار تسلیم کیا ہے اب انہیں سمجھ آجانا چاہیے کہ محض الزام تراشی اور سیاسی کردارکشی سے عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

سیاسی جلسوں میں گالی گلوچ اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے سے وقتی طور پر کچھ منچلے تو شائد خوش ہو جائیں مگر سلجھے ہوئے لوگ ایسی زبان ہر گز برداشت نہیں کرتے۔ دوسری طرف مرکزمیں مسلم لیگ کو تین سال پہلے جب اقتدار ملا تو اس وقت ملک آگ و خون کا میداں بنا ہواتھا۔ آئے روز بم دھماکے ہو رہے تھے۔ قتل وغارت کا بازار گرم تھا۔ مگر سلام ہے اس حکومت کو جنہوں نے اپنے عسکری اداروں کو مکمل اختیارات دے کر بہت کم عرصے میں ملک کو دوبارہ امن و امان کا مرکز بنانا شروع کیا ہوا ہے۔

اگرہمارے یہاں انتخابی نتائج کھلے دل سے تسلیم کرنے کی روایت ہوتی تو اب تک بہت سے فلاحی منصوبے تکمیل پا چکے ہوتے۔اگر خان صاحب قومی انتخابات کے وقت بھی اپنی ہار تسلیم کرکے مستقبل میں الیکشن کے بہتر انعقاد کے لیے کوششیں شروع کردیتے تو آج انکا سیاسی قد بہت اوپر ہونا تھا۔اور ملک بھی ترقی کی راہوں پر مسلسل گامزن رہتا۔ پچھلے دنوں چوہدری نثار علی خاں نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے الزامات کا جواب دینے کے لیے پرویز رشید ہی کافی ہے۔

مگر آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابات نے واضع کردیا کہ پرویز رشید تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔ آزاد کشمیر انتخابات میں پرویز رشیدصاحب نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔کشمیر کے انتخابات میں انہوں نے بہت احسن طریقے سے اپنی جماعت کی نمائندگی کی ہے۔دراصل وہ جو بات کرتے ہیں اس کے پیچھے نواز حکومت کی کارکردگی بولتی ہے۔

آج کل عوام بڑے بڑے جلسوں ,پر جوش تقریروں اور سیاسی نعرے بازی کو نہیں دیکھتے ہیں۔ بلکہ کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے جنہوں نے اقتدار کے دنوں میں عوام کی خدمت کی ہوتی ہے۔ جو پارٹیاں اقتدار کے دنوں میں صرف اپنے آپ کو اور اپنے اقربا کو نوازتی رہتی ہیں الیکشن میں عوام انہیں مسترد کردیتے ہیں۔ آزاد جموں وکشمیر کے موجودہ انتخابات میں یہی ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں کشمیر میں کچھ کام کیا ہوتا تو ا نہیں یہ عبرت ناک شکست کبھی نہ ملتی۔وہ سمجھتے رہے کہ بلاول کی جوشیلی تقاریر سے ایک بار پھر بھٹو کارڈ استعمال کرکے جیت جائیں گے مگر بدترین ہار پی پی قائدین کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بلاول بھٹو اگر وہی پرانے گھسے پٹے الزامات لگانے کی بجائے اپنے ورکرز کو آنے والے دنوں میں کچھ بہتر کر دکھانے کی آس دلاتے تو پیپلز پارٹی کو شائد اتنی بری مات نہ ہوتی۔

مگر یہ واضع نظر آرہا تھا کہ بلاول نے صرف سیاسی مخالفین کے خلاف ہی محاذ گرم کیے رکھا اور اپنی جماعت کے کارکنوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکے۔محترم عمران خان صاحب کو ملک کے عوام نے کچھ زیادہ ہی محبت دینی شروع کی ہوئی تھی۔ان کے جلسوں میں نوجوان بہت جوش وخروش سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ تیز میوزک ا ن کے جلسوں کو بہت پر رونق بنا دیتا ہے ۔ ملک کا ایک خاص طبقہ ان کی سحر انگیز شخصیت کا دیوانہ بناہواہے۔

2013کے الیکشن ہارنے کے بعد اگر وہ کھلے دل سے اپنی ہار تسلیم کرلیتے تو ا ن کے پاس اگلے الیکشن کی تیاری کے لیے بہت وقت ہوتا ۔مگر افسوس الیکٹرانک میڈیا نے پی ٹی آئی کے جلسے پانچ پانچ گھنٹے لائیو دکھاکر خان صاحب کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اب وہ وزیراعظم سے کم کوئی عہدہ اپنے لیے مناسب ہی نہیں سمجھتے ہیں۔اگر آج بھی وہ اپنی آنکھیں کھول لیں تو انہیں سمجھ آجائے گی کہ ابھی تک تحریک انصاف صرف بڑے شہروں تک ہی محددوہے۔

چھوٹے شہروں اور دیہات میں ان کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔سات اگست کو خان صاحب نے پھر سے سڑکوں پر آکر حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔اگر خان صاحب خطے میں بدلتی صورتحال کا ادراک کرلیں تو سات تاریخ کو سڑکوں پر دھرنوں کی بجائے مستقبل میں مسلسل عوامی رابطہ مہم شروع کر دیں اپنی پارٹی کو مضبوط کریں۔تو بہت امید ہے کہ اگلے الیکشن میں ان کی جماعت کا نیٹ ورک سارے ملک میں پھیل جائیگا۔


موجودہ انتخابات میں نون لیگ کو دو تہائی اکثریت مل گئی ہے۔ اب وہ بنا کسی سہارے کے اپنی حکومت بنا سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہیں۔ اس لیے نون لیگ کے قائدین کو کشمیری عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے پہلے سے بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آج کل بھارت کے ظلم وستم روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

تحریک آزادی کے لیے کشمیری قوم مکمل متحرک نظر آرہی ہے۔ مگر یہ منزل تبھی آسان ہو گی جب ہم دنیا کے سامنے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرتے رہیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مولانافضل الرحمن کی بجائے کسی ایسے بندے کو بنائے جو کشمیری مظلوموں کی آواز ساری دنیا تک پہنچا سکے۔ مولانا صاحب نے آج تک کسی عالمی فورم پر کشمیر کے لیے آواز بلند نہیں کی ہے۔

وہ ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر ہر حکومت کے ساتھ رہے ہیں۔ حکومت انہیں کوئی اور پر کشش وزارت دے دے۔ مگر کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کسی متحرک شخص کو بنانا دے۔اس وقت کشمیری مسلمانوں کو اخلاقی سفارتی مدد کی بہت ضرورت ہے۔ جو فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اللہ پاک جلد کشمیری مسلمانوں کو قابض بھارتی فوج سے آزادی دلائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Azad Kashmir Election is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 July 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.