امریکی خارجہ پالیسی تاریخی ناکامی کا شکار

پاک افغان امن حکمت عملی پر وائٹ ہاؤس تقسیم! امریکی ادارے‘ سینٹ ‘قیادت اور عوام ابہام میں مبتلا ہوگئے

منگل 22 اگست 2017

Amriki Kharja Policy Tareekhi Nakami Ka Shikar
امتیاز الحق:
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں حکمت عملی تیار کرنا مشکل کام ہے اتنا آسان نہیں۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں جنگ جیتنا چاہتی ہے اور نئی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے لیکن پاکستان کے رویہ پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے پاکستان پر زور ڈالا جارہا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی ٹیم کیساتھ تعاون کرے۔

اگرچہ اس مقصد کیلئے وائٹ ہاؤس میں تین اجلاس ہوچکے ہیں، وزارت خارجہ، وزارت دفاع ، انٹیلی جنس ادارے اور کانگرس سے رائے طلب کی گئی ہے تاکہ ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی تیار ہوسکے امریکی انتظامیہ کے مختلف حلقوں میں اختلاف رائے موجود ہے تاہم ان کے پاس قابل عمل اور موثر منصوبہ موجود نہیں ہے۔

(جاری ہے)

امریکی حکام جانتے ہیں کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا اس کے لئے وہ تنبیہہ ، تعاون اور دباؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس پالیسی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔امریکی قومی سلامتی کے مشیر مک ماسٹر ایک انٹرویو میں واضح کرچکے ہیں کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرے لیکن اس ضمن میں پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرتا ہے یا نہیں کیونکہ وہ اپنے سٹریٹیجک مفادات پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور کیا امریکہ اپنے تجویز کردہ طریقہ پر پاکستان کو آمادہ کر سکے گا۔

اس حوالے سے امریکی حکومت ہر پہلو اور طریقوں پر غور کررہی ہے اس کیلئے انٹیلی جنس معلومات فوجی منصوبہ بندی اور سفارتی پہلوؤں پر غوروخوض کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے بارے کہاگیا تھا کہ گزشتہ ماہ پاک افغان پالیسی طے کی جائے گی لیکن اب اس مدت کو بڑھا کر ستمبر تک لیجا یا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس مدت تک حکمت عملی طے کرلی جائے گی۔

سینٹ کی آر مڈکمیٹی کے چیئر مین جان مکین نے کہا کہ اگر اس وقت حکومت امریکہ کسی نتیجہ پر پہنچتی ہے تو سینٹ میں بجٹ تجاویز پر غور کرتے ہوئے اپنی تجاویز اور سفارشات پیش کریں گے۔ افغانستان مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے امریکی حکومت پاکستان کی اہمیت اور تعلقات کو زیر بحث لاتے ہوئے نئی سمتوں کا تعین کرے گی امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان روس چین کے کیمپ میں شامل ہو اور اس پر اتنا دباؤ نہ ڈالا جائے کہ وہ مکمل طور پر امریکہ سے اپنے تعلقات ختم کرکے روس چین گروپ میں شامل ہوجائے۔

امریکی حکومت اپنے آپ کو بھارت کے ساتھ جوڑ کر افغانستان میں پاکستان کو علیحدہ کرچکی ہے جس کا فائدہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کراکر اٹھا رہا ہے۔ امریکہ اب بھی بھارت کو بحر ہنداور چین کی اسٹریٹیجک حیثیت کے باعث جوہری تعاون اور دفاعی ضروریات پوری کررہا ہے۔ جبکہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے امریکہ پر اتنا ہی زور دیتا چلا آرہا ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کو اہمیت دینے کی بجائے کشمیر میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرے لیکن امریکہ پاکستان کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا۔

امریکی وپاکستانی مجبوریاں ایک دوسرے کے علم میں ہیں جو ایک ڈیڈ لاک کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ خطہ میں 17 ویں سال میں داخل ہونے والی جنگ سے پیدا شدہ صورتحال کو ابھی تک امریکی پالیسی سازوں نے منفی ہتھکنڈے استعمال کرکے پاکستان اور خطے کے ممالک کی پریشانیوں میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں سیکھا بلکہ امریکی مجموعی طور پر امریکی خارجہ پالیسی حکمت عملی اسکے ہر دور کے ماہرین اور حکومتوں کیلئے ناکافی بحران اور کشیدگی لیکر آتے رہے ہیں۔

اب تو صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ امریکی اداروں میں اب تک امریکی صدر کی انتخابی مہم کے وعدوں کے خلاف ہی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے فوج واپس بلانا چاہتے ہیں تو دوسرا گروپ فوج بڑھانے کیلئے صدر کو راضی کر لیتا ہے۔ صدر جب تفصیلات کیلئے مشیروں، ماہروں ،متعلقہ دفاعی وانٹیلی جنس اداروں کی رپورٹیں ملاحضے کرتے ہیں تو مشیروں کے سامنے کوئی جواب نہیں ہوتا اور اجلاس میں لڑائی جھگڑے اور الزام تراشی کی وجہ سے صدر مایوسی کا شکار ہو کر اجلاس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خود امریکہ کے اندر مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ صدر ٹرمپ تاریخ میں وہ امریکی صدر اور رہنما ہیں جن کی اپنی گفتگو عمل اور پروگرام میں تضاد ہے۔ ایک بات وہ جو کہتے ہیں اسکے برعکس عمل کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر شام میں جنگ بند ی اور امن بارے اپنے انتخابی وعدے سے پیچھے ہٹے اور روس کے ساتھ باہمی طور پر مل جل کر امن قائم کرنے کی بات سے پیچھے ہوگئے اور روس کے صدر پیوٹن سے دوستی اور لچکدار رویہ رکھنے کے باعث دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے روس کے خلاف امریکی پابندیوں کے بارے اپنی ہی پالیسی خیال تصور اور احساس تبدیل کرلیا اور جونہی جوابی طور پر روس نے خلائی راکٹ کے انجن اور یورپ کو گیس بند کرنے کی دھمکی دی تو دوبارہ روس کیساتھ شام امن اور مخالف گروپوں کو اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کی بات کہہ کر خودہی تنقید کے بھنور میں پھنس گئے۔

سعودی عرب کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کی حمایت کرکے وہ بھول گئے تھے کہ امریکہ اہم اڈا قطر میں بھی موجود ہے جوابی طور پر قطر کے ساتھ جنگی جہازوں کی فراہمی کا معاہدہ کرلیا گیا اس ضمن میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ افغانستان بارے امریکی پالیسی اور حکمت عملی میں بحران اور مسائل درحقیقت امریکی کمزور ہوتے نظام ہی کا عکس ہے امریکی قیادت دنیا بارے امریکی حکمت عملی کی ناکامی کا شکار نظر آتی ہے۔

قیادت کو خوف ہے کہ اسکے نتائج خود امریکہ کیلئے تو اچھے نہیں ہونگے لیکن عقل سے عاری ماہرین اور ادارے اپنی ذمہ داریوں کی غلطیوں کا ملبہ وہ پاکستان کے علاوہ کہیں باقی دنیا میں حالات کو مزید بگاڑنے کے شکار نہ ہو جائیں اور عالمی سطح طاقت کی پسپاہی ایک خطرہ کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ پاکستان کو بوکھلائی امریکی قیادت کی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں چوکنا رہنا ہوگا اور اپنے آپ کوداری پوری کرتے ہوئے علاقائی ممالک کے اتحاد کو مزید تقویت دینے کیلئے فوری طور پر ایک امن کا بیانیہ تیار کرنا چاہیے اس سلسلے میں روس چین وسط ایشیائی ریاستوں کی ایک سٹریٹجک کا نفرنس کا انعقاد ضروری ہوگیا ہے اس کانفرنس کے ذریعہ عالمی سطح پر ایک ایسا پیغام دینے کا وقت آگیا ہے جس میں امن و ترقی کے خدوخال بیان کئے جائیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی ترقی میں نئے تعلقات کی ابتدا کی جائے جو دنیا کے عوام کویہ حوصلہ دے کہ مجموعی طور پر دنیا کی 50 فیصد آبادی پر مشتمل یہ ممالک اپنی ترقی وخوشحالی اور امن کیساتھ وہ باقی دنیا کیلئے بھی مثبت پالیسی و حکمت عملی رکھتے ہیں۔

علاقائی کانفرنس کے بعد ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جو باہمی تعاون سے عالمی سطح پر استحکام اور امن کا بیانیہ دیکر اربوں انسانوں کو تکلیف واذیت سے نجات دلائے۔ آج اس کا وقت آن پہنچا ہے افغانستان، شام،عراق کی صورتحال نے تمام عالم کو ایک بات سکھادی ہے کہ دہشت گردی ان سے کا مسئلہ ہے اور یہ بات انہوں نے نہیں بلکہ ان ممالک اور اسکے چودھری امریکہ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے پیدا شدہ دہشت گردوں نے سکھائی ہے کہ وہ اب سب ملکر تعاون دوستی بھارئی چارے کے ذریعے اپنے اپنے ملکوں کے عوام کی حالت کو بہت بہتربناسکتے ہیں، جوزمانے سے نہیں سیکھتا زمانہ اسے سیکھا دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amriki Kharja Policy Tareekhi Nakami Ka Shikar is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.