افغانستان میں امن کی نئی کوشش ،برف پگھلنے لگی؟

پاکستان کا براہ راست مذاکرات پر اصرار․․․․․․․․ افغان صدر نے مذاکرات کو چین کی ضمانت سے مشروط کردیا

بدھ 5 جولائی 2017

Afghanistan Main Aman Ki Nayi Koshish Baraf Pighalnay Lagi
محمد رضوان خان:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں نے کابل کا دورہ کیا تو افغان صدر اشرف غنی نے اپنے بھارتی آقاؤں کی تقلید میں پاکستان سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کردیا،اس انکار میں وہی مماثلت تھی جو بمبئی پردہشت گرد حملے کے بعد مذاکرات کے حوالے سے بھارت نے اپنائی تھی۔

البتہ اس معاملے میں تھوڑا سا فرق یہ تھا کہ اشرف غنی نے مذاکرات کو چین کی ضمانت سے مشروط کردیا۔
افغان حکومت نے یہ شرط بہت سوچ سمجھ کر رکھی تھی کیونکہ افغان جانتے ہیں کہ چین ہی وہ دوست ملک ہے جو پاکستان پر بڑی حد تک اثر انداز ہوسکتا ہے۔افغانستان کی اس شرط پر چین،پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت کرانے کیلئے میدان عمل میں آگیا ہے،اس سلسلے میں چینی وزیر خارجہ عیدالفطر سے قبل اسلام آباد پہنچے اور پاکستانی عہدیداروں سے ملا قاتیں کیں،ان ملاقاتوں کے بعد وہ کابل گئے اور وہاں کے حکام سے بات چیت کی ،اس بات چیت کے دوران بظاہر کوئی بڑا بریک تھرونو نہیں ہوا لیکن برف اس قدر پگھل گئی کہ بعض انہونی گرفتاریاں بھی ہوگئیں،یہ گرفتاریاں اس موقع پر محض اتفاق تھیں یا اعتماد سازی کی جانب ایک قدم؟اس سوال کے بارے میں باخبر حلقوں میں چپ مگوئیاں جاری ہیں اور بحث بھی ہورہی ہے کہ کیا چین نے پاکستان کو بالآخر اس قدام پر راضی کر لیا جس کا پاکستان سے تقاضا کیا جارہا تھا۔

(جاری ہے)

یہ تقاضا پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں تو اتر کے ساتھ امریکہ کر رہا تھا جبکہ افغانستان کی بھی سوئی اسی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں مبینہ طور پر موجود حقانی نیٹ ورک کے جنگجوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائے۔
پاکستان سے جوڈومور کا مطالبہ کیا جاتا تھا وہ بھی حقانی نیٹ ورک سے ہی متعلق تھا۔امریکہ اور افغانستان دونوں ہی حقانی نیٹ ورک کی رٹ لگائے ہوئے ہیں،اس اعتبار سے چین کے وزیر خارجہ سے بھی افغانوں کا مطالبہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔

چینی حکام نے اس بابت لب سی رکھے ہیں اس دورے پر جانے سے قبل چینی وزیر خارجہ نے محض یہ کہا کہ دورے کا مقصد افغانستان میں امن واستحکام لانا ہے“یار رہے کہ پاکستان ،افغانستان اور چین کے درمیان حال ہی میں جو رابطے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر دہشتگردی کو کچلنے کیلئے مشترکہ کرائسز مینجمنٹ مکنیزم بنائیں گے،یہ تجویز اس سات نکاتی ایجنڈے کا حصہ ہے جو چین کی مداخلت کی وجہ سے ممکن ہوا۔


پاکستان کے سفارتی حلقوں میں اس پیش رفت کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ ایک ماہ قبل کابل کے سفارتی علاقے میں ایک بم دھماکے میں کم از کم 150 افراد ہلاک اور الگ بھگ 400 زخمی ہوگئے تھے اس دھماکے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات نہایت تیزی سے بگڑے تھے،اس دھماکے کے بعد افغان انٹیلی جنس ایجنسی نے اس کا الزام افغان طالبان کے گروپ حقانی نیٹ ورک پر عائد کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔

پاکستان نے اس کے جواب میں ہندوستان سے ثبوت بھی مانگا تاکہ متعلقہ ملزمان کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن افغانستان کی طرف سے ابھی تک اس ضمن میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اس بابت کوئی پیش رفت بھی ہوسکی لیکن چین کی انٹری کی وجہ سے اب وہ کج روی ماند پڑگئی ہے۔
پاکستان نے اس سے قبل کابل دھماکے کے بعد جس انداز سے افغانستان کی طرف سے پاکستان مخالف مہم شروع کی گئی تھی اس کے جواب میں پاکستان کی خاص کر عسکری اور سول قیادتوں کی طرف سے نہ صرف ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا گیا تھا بلکہ ایسے بیانات بھی سامنے آئے جس میں افغانستان سے کہا گیا تھا کہ الزام تراشی مسائل کا حل نہیں ہے اور اس سے اجتناب کرتے ہوئے دوطرفہ تعاون سے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔


پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے دوران ہی جب آپریشن نے طوالت اختیار کی تھی تو اس نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان نے اپنی حدود میں تو دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے لیکن اس عمل کے دوران جو دہشت گرد بھاگ کر افغانستان چلے جاتے ہیں اُن کا پاکستان کے پاس کوئی قانونی توڑ نہیں۔پاکستان کا مطالبہ اس قدر تھا کہ وہ جس وقت سرحدی پٹی پر اپنے علاقے میں کاروائی کرے تو سرحد کے اس پار صرف افغان یا نیٹو امریکی فوج افغان حدود میں بھاگنے والے دہشت گردوں کیخلاف کروائی کرے۔


پاکستان کی طرف سے یہ تقاضاََ اس وقت مزید بڑھ گیا جب سرحد پار سے یہ انوکھے الزامات لگنے لگے کہ پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اپنی حدود میں تو امن قائم کر لیا لیکن افغانستان کا امن مزید ابتر ہوگیا،اس قسم کی باتوں پر پاکستان نے ڈومور کا تقاضا کیا تو پورا نہیں کی گیااسی وجہ سے اب کافی خرابی کے بعد افغانستان نے مشترکہ مکنیزم کی تجویز کو قبول کیا،تاہم ابھی دیکھنا یہ ہے کہ کیا افغانستان اس پر پوری طرح عمل بھی کرتا ہے کہ نہیں؟یاد رہے کہ اس قسم کا ایک معاہدہ پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے درمیان بھی طے پایا تھا۔

جس کے تحت سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے اطلاعات کے تبادلے پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن مئی 2015 ء میں ہونے والے اس معاہدے کی روشنائی ابھی خشک بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ سابق افغان صدرحامد کرزئی نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
انہوں نے نئی دہلی میں اپنے آقاؤں کو خوش کرنے اس یا داشت کی ایسی درگت بنائی کہ اشرف غنی جو اس وقت اقتدار میں نئے تھے اور آزادانہ سوچ کے تحت پاکستان سے دوستانہ مراسم بڑھا رہے تھے پر کرزئی کے پروپیگنڈے کا اس قدر اثر ہوا کہ یہ یاداشت یا داشت سے آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان کی مشرقی اور پاکستان کے مغربی سرحد حالات نارمل ہوجائیں اس لئے اس کے گماشتوں نے امن کی طرف جانے والے اس راستے کو ہی مشکوک بنادیا اوریہ یاداشت جو امن لاسکتی تھی وہ افغانستان کے کوچہ اقتدار میں کسی ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔


افغانستان میں اس قسم کی ذہینت خود افغان مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسی کی وجہ سے جنگ سے تباہ حال اس ملک میں حالات امن کی طرف نہیں جارہے لیکن جس طرح بھارت میں یہ فیشن ہے کہ وہ اپنے داخلی امور سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر بے جا الزامات لگاتا ہے،بالکل وہی سبق افغانوں کو بھی پڑھادیا گیا ہے۔
جو اپنے نقائص کو دور کرنے کے بجائے الٹا پاکستان کو کوسنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی بینادی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ کام انتہائی آسان لگتا ہے اور ساتھ ہی ہر پاکستان مخالف بیان داغنے پرواشنگٹن اور نئی دہلی سے داد بھی ملتی ہے،دوسری طرف پاکستان تواتر کے ساتھ ایک بات کہہ رہا ہے کہ ایک پر امن افغانستان ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے جس کیلئے وہ اہنے فائدے کی غرض سے بھی زیادہ دلجمعی سے کوششیں کر رہا ہے تاہم پاکستان کی ہر کوشش کو افغانی بھارتی عینک لگا کر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ ماسکو اور ترکی وغیرہ میں ہونے والے مذاکرات ہیں ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں افغانستان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن اب اس نئی مثلث سے اس کا پیچھے ہٹنا محال ہے جس میں اگر پاکستان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بھارت کو امن بات چیت سے باہر رکھا گیا ہے تو دوسری طرف 4 ملکی امن کمیٹی میں شامل امریکہ بھی باہر ہوکر دلچسپی کے ساتھ اس عمل کو دیکھ رہا ہے۔

امریکہ کی اس خاموشی کے پیچھے چین کا تین ٹریلین ڈالر کا قرضہ کار فرما ہے یا دیگر عوامل ہیں بہر حال واقفان حال اس صورتحال کو بہتر قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس مثلث میں بڑی طاقت چین ہے جس کے افغانستان میں اپنے اقتصادی مفادات بہت زیادہ ہیں۔
چین ون بیلٹ ون روڈ سی پیک کے حوالے سے چاہتا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو اور اس کیلئے وہ اپنا ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

افغان جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی میں بندھا چین تینوں ممالک کے درمیان جو بھی طے ہوگا اس پر عملدرآمد کرائے گا،دوسری طرف افغانستان جس نے خود ہی پاکستان سے امن مذاکرات کیلئے چین کی ضمانت مانگی تھی اس کیلئے بھی اب پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا،ان حالات کو متعلقہ ماہرین بھی خوش آئند قراردے رہے ہیں۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا اس بابت کا کہنا ہے کہ ”ان مذاکرات میں چین کا کردار بہت اہم ہے،اس کو کچھ استحکام مل جائے تو امید ہے کہ اس کے ذریعے امریکہ ،افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے راستے بھی نکل سکتے ہیں“رستم شاہ کی یہ بات بڑی اہم ہے کیونکہ واقعی اگر بات آگے بڑھتی ہے تو عین ممکن ہے کہ کوئی موقع ایسا بھی ہاتھ آجائے کہ مری کی طرح مستقبل میں کسی مقام پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بھی بات چیت ہو جائے ،ایسا ہونا ممکن بھی ہے لیکن اس کیلئے یہ امرنا گزیر ہوگا کہ امریکہ اور بھارت کو ان معاملات سے باہر رکھا جائے اور افغانستان انہیں دیکھنے کے بجائے خالصتاََ اپنے مفادات سامنے رکھ کر کام کرے گا تو حالات بدل سکتے ہیں۔


پاکستان کیلئے یہ مذاکرات مفیدثابت ہورہے ہیں کیونکہ پاکستان نے بھی سرحد پر باڑلگانے کے اپنے ارادے عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ہے۔پاکستان افغانستان سے ملحقہ اپنی الگ بھگ 2600 کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام مرحلہ وار کرے گا۔افغانستان کی طرف سے ہمیشہ اس قسم کے پاکستانی اقدامات کی نفی کی جاتی تھی۔
بلکہ افغان جب سرحد پر باڑ یا جب سابق صدر پرویز مشرف نے سرحد پر دیوار ایستا دہ کرنے کی بات کی تھی تو بدک گئے تھے اور سر حد پار آسمان اٹھا لیا گیاتھا اس کے علاوہ جب بھی باڑلگانے کی بات ہوتی تو افغانستان سے شدید ردعمل سامنے آتا یہ احتجاج اس بار بھی کیا گیا اور خدشات بھی حسب سابق ظاہر کئے گئے لیکن مخالفت کولیول وہ نہیں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا عین ممکن ہے افغانوں کو بھی اب اس بات کا احساس ہوگیا ہوکہ سرحد پر باڑ لگنے سے دراندازی کو باآسانی روکا نہیں تو کئی گنا کم ضرور کیا جاسکتا ہے جبکہ افغانستان کے پاس خصوصاََ اور پاکستان کے پاس بھی اس قدر مالی وانسانی وسائل موجود نہیں کہ ساری کی ساری سرحد پر چوکیاں بنائی جا سکیں،واضح ہوکہ اب تک پاک افغان سرحد پر پاکستان نے لگ بھگ ساڑھے بارہ سو فوجی چوکیاں بنائی ہیں جبکہ افغانستان میں سرحد پر صرف اڑھائی سو چوکیاں بنائی جاسکیں،ان اعدادوشمار سے دراندازی کو روکنے اور قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششیں عیاں ہیں۔


پاکستان اب بھی باڑلگانے کے کام کو قیام امن کے حوالے سے ہی بڑھا رہا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں قبائلی علاقوں باجوڑ ،مہمند اور خیبر ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی جا رہی ہے،ان علاقوں میں دشوار گزار استوں کی وجہ سے شدت پسندوں کی آمدورفت کے امکانات زیادہ ہیں اس بناء پر پہلے ان کا انتخاب کیا گیا ہے،تاہم دوسرے مرحلے میں دوطرفہ سرحد کے بقیہ حصے بشمول بلوچستان میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں باڑ لگائی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghanistan Main Aman Ki Nayi Koshish Baraf Pighalnay Lagi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.