عام انتخابات اور سیاسی اتحاد

عام انتخابات 2018 کی متوقع آمد کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انتخابات گزشتہ انتخابات سے مختلف ہونگے۔

منگل 12 دسمبر 2017

Aam Intakhabat Aur Siyasi Itehad
عام انتخابات 2018 کی متوقع آمد کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انتخابات گزشتہ انتخابات سے مختلف ہونگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی چونکہ بائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی تھی لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ رہنے سے اب لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ بائیں بازو کی جماعت ہے یا دائیں بازو کی یا پھر ”درمیانی“ قسم کی کوئی نئی نظریاتی جماعت ہے۔

مسلم لیگ ن ملک کی مقبول جماعت جو معرض وجود میں آنے سے ہی دائیں بازو کی جماعت تھی لیکن وہاں بھی مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام اور محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی کے اتحاد سے وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ اور محمود اچکزئی کے نظریات کب ہم آہنگ رہے ہیں لیکن قائد ن لیگ کوئٹہ کے جلسہ عام میں محمود اچکزئی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک ہی نظریہ کی گردان میں لگے رہے۔

(جاری ہے)

قائد مسلم لیگ ن کو عبدالصمد اچکزئی اور محمود خان اچکزئی کے نظریات کا مطالعہ کر لینا چاہئے کہ وہ کون تھے اور کیا ہیں؟ موجود احتسابی عمل میں اگرچہ عام انتخابات کا انعقاد مشکوک نظر آتا ہے صرف انتخابی عمل سے ہی نہیں بلکہ ابھی انتخابی اصلاحات کا بل سینٹ میں زیر التوا ہے، حلقہ بندیوں کا عمل پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ جاتا اور پھر ووٹر لسٹوں کی از سرِ نو تیاری از حد ضروری ہے کیونکہ حالیہ ووٹر لسٹوں میں لگ بھگ تیس لاکھ فوت شدگان کے نام بھی شامل ہے۔

اتنی قلیل مدت میں سارے معاملات طے کرنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔آج ہم بات کر رہے ہیں ممکنہ عام انتخابات میں سیاسی اتحادیوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور خاموش اتحادوں کے بارے میں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عام انتخابات اور وہ بھی وقت سے پہلے کا مطالبہ صرف تحریک انصاف کر رہی ہے کیونکہ یہ جماعت سمجھتی ہے کہ قبل از وقت انتخابات نہ تو خلاف آئین اور نہ ہی جمہوریت کے خلاف کوئی سازش! اگر فوری انتخابات ہو جائیں تو اس کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔

اور یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ اگر احتساب کے متوقع عمل میں تاخیر ہوئی تو پھر تحریک انصاف کیلئے شاید بہت دیر ہو جائے ۔ یہ جماعت کسی سیاسی اتحاد کا سہارا لینا بھی پسند نہیں کرتی اور تن تنہا انتخابات میں جا کر حیران کن نتائج دکھانے کی توقع رکھتی ہے۔عام انتخابات میں مسلم لیگ ن انتخابی اتحاد بنائے گی جو ہر صوبے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں ہو سکتی ہے لیکن شاید مسلم لیگ ن ” وہ کام“ نہ کر سکے جو تقریباً ہر انتخاب میں کر کے دو تہائی اکثریت حاصل کر لینے کی قدرت رکھتی تھی۔

اس بار مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل تشکیل کے عمل میں ہے اصولی طور پر فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سربراہان کا اجلاس ہو چکا ہے مختلف کمیٹیوں میں دستور و منشور اور دیگر معاملات طے کئے جا رہے ہیں جس کے بعد سربراہی اجلاس منعقد ہو گا جس میں ایم ایم اے کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ ایم ایم کا تجربہ کوئی نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور ملک بھر سے کافی ووٹ سمیٹے۔

اس سیاسی اتحاد کے روح رواں جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن ہیں جن کا اپنا اور جماعت اسلامی کا ووٹ بنک صوبہ خیبر پختون خواہ‘ بلوچستان اور فاٹا میں موجود ہے اور مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے یہ اتحاد مسلم لیگ ن کیلئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں یہ اتحاد شایدکوئی سیٹ بھی حاصل نہ کرسکے کیونکہ صوبہ پنجاب اور سندھ میں ایم ایم اے کا ووٹ کسی کو کامیاب کر انے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے شاید اسی حکمت عملی کی وجہ سے مسلم لیگ ن کیلئے سہولت کاری کا فریضہ سرانجام دے سکے گا لیکن یہ اتحاد تشکیل پانے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا جب جمعیت علماء اسلام (س) نے تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان کردیا جس سے ایم ایم اے میں مایوسی پھیل گئی۔

مولانا سمیع الحق کے جانے بعد صوبہ خیبرپختون، فاٹا اور بلوچستان میں ایم ایم اے کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ نے انتخابی اتحاد کی داغ بیل ڈالی تو وہ اتحاد بھی انتشار کا شکار ہو گیا۔ اس اتحاد میں دو درجن سے زائد سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں جو اپنے نام تک محدود تھیں اور چند دیگر جماعتوں نے سرے سے اس اتحاد سے ہی لاتعلقی کا اعلان کردیا۔

یوں یہ اتحاد تشکیل سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر گیا۔ علماء و مشائخ پر مشتمل چند شخصیات نے سنی جماعتوں کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی تجویز دی ہے اس پر مشاورتی اجلاس جاری ہیں جلد ہی اپنی حمایت کا اعلان کریں گے لیکن وہ اتحاد کیا شکل اختیار کرتا ہے آنے والے دنوں میں صورت حال واضح ہو جائیگی۔ممکنہ عام انتخابات میں ایک نیا اتحاد حالیہ فیض آباد (اسلام آباد) میں بائیس روزہ دھرنا دینے والے مولاناخادم حسین رضوی اور ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی ہیں جن کے ساتھ سنی تحریک اوردیگر مذہبی گروپ شامل ہیں۔

لبیک پاکستان کے نام سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیکر عام آدمی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور اب عام انتخابات میں بھی حصہ لینے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ لاہور کے ضمنی انتخابات میں ایک نئی جماعت ملّی مسلم لیگ نے بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور بہت پرانی جماعتوں سے بہت بہتر کارکردگی دکھائی۔ ملّی مسلم لیگ آگے عام انتخابات میں کس سے سیاسی اتحاد کا اعلان کرتی ہے یہ کہنا بھی قبل از وقت ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ مسلم لیگ ن کیلئے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کا اتحاد یا جماعتی شکل میں حصہ لینا کبھی بھی سود مند نہیں ہو گا۔مقامی سطح پر مسلم لیگ ن کے لغاری اتحاد میں شامل سید عبدالعلیم شاہ کی ہمدریاں حافظ عبدالکریم وفاقی وزیر مواصلات کے ساتھ تھیں۔ لغاری سرداروں کے ساتھ دوریاں بڑھ چکی تھیں لیکن سردار جمال خان لغاری کی سید عبدالعلیم شاہ ایم پی اے کے گھر آمد جب وہ گھر پر موجود نہیں تھے وہ حافظ عبدالکریم کیلئے غلط فہمیاں پیدا کرنے کیلئے تو ہو سکتی ہیں لیکن عام انتخابات میں سید عبدالعلیم شاہ، وفاقی وزیر مواصلات کے ساتھ ہی ہونگے۔

اگرچہ وفاقی وزیر مواصلات ڈاکٹر عبدالکریم کے خلاف ان کی تعلیمی یونیورسٹی میں ڈگریوں اور اپنے اقامہ کا مسئلہ اخباروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ سعودی عرب سے واپسی پر پشاور میں اتر گئے تاکہ صحافیوں سے ڈرائیور کے اقامہ پر سوالات سے بچ سکیں ۔ ایک نیا اور حیران کن انتخابی اتحاد شہر کی اہم سیاسی شخصیت سردار حبیب الرحمٰن لغاری( جو لغاری سرداروں کے بہت قریب ہیں) کا مستقبل میں کھوسہ گروپ سے ہونے جا رہا ہے، سردار دوست محمد خان کھوسہ سے ان کے رابطے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔

سردار حبیب الرحمٰن لغاری اس پر سوچ رہے ہیں دوستوں سے مشاورت جاری ہے۔ یہ اتحاد شہر ڈیرہ غازیخان کیلئے سود مند ہو گا۔ اس اتحاد کو سردار مقصود خان لغاری کی حمایت بھی حاصل ہو گی جو پہلے ہی عوامی رابطہ میں مصروف ہیں اور دن رات سرگرم عمل ہیں۔ شہر کی حد تک تو یہ فطری اتحاد ہے کیونکہ سردار حبیب الرحمٰن اور موجودہ ایم پی اے سید عبدالعلیم شاہ پہلے ہی ایک دوسرے کے سیاسی مخالف ہیں اسی طرح یہ اتحاد شہری سیاست میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aam Intakhabat Aur Siyasi Itehad is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.