90 کی دہائی کی سیاست پیپلزپارٹی کا نیا جنم

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے حالیہ بیان پر پیپلزپارٹی کے ورکروں میں جو مایوسی چھائی ہوئی تھی اس میں قدرے تبدیلی ضرور ہوئی ہے جس میں آصف علی زرداری نے اپنے سابق بیان اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے

منگل 8 ستمبر 2015

90 Ki Dehai Ki Siasat
احمد کمال نظامی:
پیپلز پارٹی فیصل آباد کے ضلعی صدر اور بلدیاتی بورڈ کے چیئرمین چوہدری طارق محمود باجوہ سابق ایم این اے پیپلزپارٹی نے ورکروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ پیپلزپارٹی میدان میں نہیں۔ آج بھی بدترین صورت حال کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلہ میں پیپلزپارٹی واحد قومی اور عوامی پارٹی ہے جس کی پاکستان کے چاروں صوبوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان تک اپنا وجود رکھتی ہے اور پیپلزپارٹی یکساں طور پر چترال سے لے کر کراچی اور گوادر سے لے کر گلگت بلتستان تک اپنی عوامی قوت کا پرچم سربلند رکھے ہوئے ہے جبکہ خود بڑی سیاسی پارٹیاں ہونے کی دعویدار مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف سمیت باقی تمام پارٹیاں یا تو صوبائی پارٹیاں ہیں یا ان کی حیثیت علاقائی جماعتوں سے زیادہ کچھ نہیں۔

(جاری ہے)

طارق محمود باجوہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہر انتخابی مرحلہ میں بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ کارکن بلدیاتی انتخابات کی بھرپور تیاریاں کریں۔ پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات کا میدان مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور باقی پارٹیوں کے ساتھ کھلا نہیں چھوڑے گی اور تاریخ ساز کامیابی حاصل کرے گی۔ طارق محمود باجوہ، میاں ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو کے دورہ پنجاب سے ایک بار پھر وہی منظر پیدا ہو گا اور نظر آئے گا جو 1970ء میں تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی جلاوطنی ترک کرتے ہوئے پاکستان آمد پر فلک نے دیکھا تھا جبکہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے حالیہ بیان پر پیپلزپارٹی کے ورکروں میں جو مایوسی چھائی ہوئی تھی اس میں قدرے تبدیلی ضرور ہوئی ہے جس میں آصف علی زرداری نے اپنے سابق بیان اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے سے رجوع کرتے ہوئے بلکہ معافی طلب کرتے ہوئے اپنا ٹارگٹ اور ہدف وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو بنایا ہے اور کہا ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے 1990ء کی سیاست شروع کر دی ہے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور کہا ہے کہ حقیقی دشمن(بھارت) کو چیلنج کرنے کی بجائے پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی مخالفین(ایم کیو ایم) کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

میاں محمد نوازشریف طالبان اور دہشت گردوں کو بچانے کے لئے قوم کو تقسیم کر رہے ہیں (یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد حکومت میں سکھ حریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کی فہرست بھارتی حکومت کے حوالے کی گئی تھی اور اس سے قبل بھی بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے پنجاب میں سکھوں کا نہ صرف قتل عام کیاتھا بلکہ دربار صاحب پر فوج کشی بھی کی تھی) آصف علی زرداری نے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کو ایف آئی اے اور نیب ہراساں کر رہی ہے اور وزیراعظم کے حکم پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے بیان میں سانپ کی طرح جو پلٹا کھایا ہے اس پر آٹھ بازاروں کے شہر کے سیاسی حلقے شدید حیرت کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اگر ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سے ہفتہ عشرہ قبل اپنا یہ پالیسی بیان جاری کرتے تو اس کی کوئی سیاسی اہمیت بھی ہوتی۔

لیکن ڈاکٹر عاصم حسین جنہیں کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور انہوں نے 82افراد کی ایک فہرست بھی تفتیشی افسران کے سپرد کر دی اور کرپشن کی تمام کڑیاں آصف علی زرداری سے ملتی ہیں لہٰذا یہ بیان سیاسی نہیں بلکہ ذاتی ہے۔ بندریا کے پاوٴں جب جلنے لگتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو پاوٴں تلے لے لیتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ آصف علی زرداری کا ہے اور ان کا پانچ سالہ صدارتی عہد پاکستان میں ہونے والی کرپشن کا بدترین دور ہے۔

ایف آئی اے، نیب اور رینجرز کرپشن کے خلاف جو آپریشن کر رہی ہے یہ کسی سیاسی پارٹی کے خلاف نہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کرپشن اور بدامنی کے خلاف جاری مشن کا ابتدائی حصہ ہے جس کی منظوری میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے۔ کرپٹ عناصر کی مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی اور بلاامتیاز سیاسی وابستگی ہوں گی۔ آصف علی زرداری نے اپنا پتہ پھینکا ہے کہ ماضی کی طرح کرپٹ سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان میں ملوث افراد کے خلاف یہ آپریشن بھی کسی مصلحت اور سیاست کے باعث کمپرومائز کر کے بیچ میں ہی چھوڑ دیا جائے۔

ایسا اب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سیاسی حلقے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کو براہ راست آصف علی زرداری کی کرپشن کے خلاف اقدام قرار دیئے ہیں۔ کل کلاں مسلم لیگ(ن) سے وابستہ افراد آپریشن کی زد میں آتے ہیں تو وہ کس کے خلاف چارج شیٹ جاری کریں گے۔ پنجاب کے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کا ردعمل دراصل اپنی ریکارڈ توڑ کرپشن پر پردہ ڈالنے کی ناکام سعی و کاوش ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے میثاق جمہوریت کے نام پر ”مک مکا“ کیا۔ اب ایکشن پر زرداری کو تکلیف ہو رہی ہے۔ زرداری صحیح کہتا ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے سمجھوتہ کی پاسداری نہیں کی۔ اس وقت پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کے تمام لیڈر اس امر پر یک زبان ہیں کہ کرپٹ عناصر اور قومی دولت لوٹنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور جس نے جرم کیا ہے اسے اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے۔

یہی جمہوریت ہے اور اس سے جمہوریت فروغ پائے گی لیکن سب سے دلچسپ اور حقیقت آموز بیان پیپلزپارٹی کے رہنما صفدر عباسی کا ہے جو آصف زرداری کے عہد حکومت میں زیرعتاب رہے۔ صفدر عباسی کا کہنا ہے کہ اب لاشوں کی سیاست کا وقت گزر گیا۔ شہید بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی لٹیا زرداری نے ڈبوئی ہے اور رہی سہی کسر اب پوری کر دی ہے۔

بلاول زرداری کو اپنا وجود تسلیم کرانے کے لئے کام کرنا ہو گا جو محترمہ بینظیر بھٹو نے کر کے دکھایا تھا۔ آج دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کی جنگ میں واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی بلا کی کرپشن اور برسوں سے جاری بے قابو دہشت گردی میں کتنا گہرا تعلق رہا ہے۔ پیپلزپارٹی والے لاکھ کہیں کہ ہم پر دہشت گردی کا الزام سیاسی انتقام ہے لیکن اس کی نفی میں اسے ثبوت دینا ہوں گے۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جن پر بڑی عدالت نے 45لاکھ روپے رشوت لینے کا الزام عائد کیا اور یوسف رضا گیلانی وکٹری کا یوں نشان بنا رہے تھے جسے سکندراعظم وہی ہیں۔ ہاں کرپشن کے سکندراعظم کوئی ہے تو وہ آصف علی زرداری ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویزمشرف اور ڈاکٹر عاصم حسین پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ پاکستان میں اگر حقیقی جمہوریت کو عوام میں متعارف کرانا ہے تو کرپشن اور دہشت گردی کا کڑے سے کڑا احتساب ہونا چاہیے۔

سیاست دانوں کو اگر جمہوریت عزیز ہے تو کرپشن کے خلاف احتساب پر واویلا کرنے کی بجائے نعرہ بلند کرنا چاہیے کہ احتساب سب کا کرو اور اب ایسے محسوس ہوتا ہے اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو کہ احتساب ہو گا بلاامتیاز ہو گا اور جو بھی زد میں آئے گا اپنے منطقی انجام سے دوچار ہو گا۔ رہی انتخابات کا میدان کھلا نہ چھوڑنے والی بات تو پیپلزپارٹی کس میدان میں کھڑی ہو گی؟ کیونکہ پیپلزپارٹی کا جو حشر ہونا تھا بقول صفدرعباسی ہو گیا اب پیپلزپارٹی تو کہیں نظر نہیں آتی البتہ زرداری کی سیاہ کرپشن ضرور نظر آتی ہے!! گویا اب ان تلوں میں تیل نہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

90 Ki Dehai Ki Siasat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 September 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.