دو سالہ عبوری حکومت کا خواب

جے آئی ٹی 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروانے کو ہے جس کے بعد پانامہ کیس کا فائنل راوٴنڈ شروع ہو گا۔ ملک کا سیاسی ماحول خاصا گرم ہو چکا ہے۔ نوازشریف مخالف قوتیں انہیں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل ہوتا دیکھ رہی ہیں جبکہ سیاسی مخالفت کو دشمنی کی حد میں لے جانے والے دعوے کر رہے ہیں

ہفتہ 8 جولائی 2017

2 Saala Uboori Hakomat Ka Khawab
فرخ سعید خواجہ:
جے آئی ٹی 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروانے کو ہے جس کے بعد پانامہ کیس کا فائنل راوٴنڈ شروع ہو گا۔ ملک کا سیاسی ماحول خاصا گرم ہو چکا ہے۔ نوازشریف مخالف قوتیں انہیں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل ہوتا دیکھ رہی ہیں جبکہ سیاسی مخالفت کو دشمنی کی حد میں لے جانے والے دعوے کر رہے ہیں کہ نوازشریف کے نااہل ہوتے ہی شریف فیملی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی۔

مسلم لیگ (ن) بھی تقسیم ہو جائے گی حتیٰ کہ ان کے بعض بدخواہ انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ رہے ہیں۔ دو سال کا عبوری دور حکومت ان کا خواب ہے جس میں مسلم لیگ (ن) والوں کا حشر نشر کر دیا جائے۔اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ ایک بات حتمی ہے کہ شریف فیملی کے بٹنے کا خواب دیکھنے والوں کو مایوسی ہو گی‘ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔

(جاری ہے)

جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے بلاشبہ اسے میاں نوازشریف نے کبھی اہمیت نہیں دی۔

پارٹی کے اہم تنظیمی عہدے خالی رکھے حتیٰ کہ کئی مرتبہ توجہ دلانے کے باوجود پارٹی کے سیکرٹری جنرل سمیت صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری لگانے میں غفلت برتی‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاسوں میں مشاورت کا عمل اگر ختم نہیں کیا تو اس میں اتنا زیادہ وقفہ ڈالا کہ ممبران اسمبلی کو گلہ پیدا ہوا جس کا وہ نجی مجلسوں میں اظہار کرتے رہے۔

پبلک افیئرز یونٹ بنا کر مرکز اور صوبوں میں ممبران اسمبلی کے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی لیکن ممبران اسمبلی ایک طرف رہے وفاقی اور صوبائی وزراء فواد احمد فواد اور عطا اللہ تارڑ سے شاکی نظر آئے۔ پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی اور صوبائی کونسلوں کے اجلاس بھی نہیں بلائے جاتے رہے۔ بلدیاتی اداروں کی اپنی سیاسی فوج کو بھی اختیارات سے محروم رکھا گیا جس سے ان لوگوں کے شکوے عام ہوئے لیکن باوجود اس سب کے یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور پارٹی عہدیداران اپنی قیادت کے وفادار ہیں۔

میاں نوازشریف کے خلاف کیا فیصلہ آئے گا یہ خدا جانتا ہے یا جج حضرات لیکن ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نہ صرف اتفاق رائے سے اپنے فیصلے کرے گی بلکہ اپنی حکومت کی میعاد بھی پوری کرے گی۔
جہاں تک نوازشریف سمیت ان کی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کا تعلق ہے اگر ایسا ہو تو اس کے جو خوفناک نتائج پیدا ہوں گے انہیں جاننے کے لئے علم نجوم پر دسترس ہونا ضروری نہیں۔

یہ ممکن ہے کہ ابتدا میں لوگوں کو سانپ سونگھ جائے لیکن بہت جلد ایسا ری ایکشن ہو گا جس سے نظام کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ روایت سے ہٹ کرکسی طرز حکومت کے بارے میں کچھ کہنا تو ایک الگ بات ہے مگر کوئی بھی متبادل حکومت اس قابل نہیں ہو گا کہ وہ مخالفانہ ردعمل کو روک سکے۔ خطے کی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ملک میں افراتفری اور انتشار پاکستان کے لئے زہر قاتل ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ ہمارے نزدیک عدالتی فیصلے آئین کے مطابق ہونے چاہئیں۔ شریف فیملی کو گلہ ہے کہ ان سے سوالات تو ضرور پوچھے جا رہے ہیں لیکن جے آئی ٹی سے جب ہم پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے تو جے آئی ٹی لاجواب ہو جاتی ہے۔ ہم سے ایسے سوالات پوچھے جا رہے ہیں جن کا تعلق ساٹھ اور ستر کی دہائی میں میاں محمد شریف مرحوم کے کاروبار سے ہے، جب میاں نوازشریف کا زمانہ طالب علمی تھا اور ان کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔

کیا خوب ہے کہ جے آئی ٹی فلیٹس کی منی ٹریل جاننے نکلی تھی اور ماضی میں کھو گئی۔
شریف فیملی کا گلہ اپنی جگہ بجا لیکن ہماری رائے ہے کہ سپریم کورٹ آئین کے مطابق جو فیصلہ کرے اسے سب کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ الیکشن 2018ء مقررہ وقت پر ہونا چاہئے اور الیکشن سے پہلے پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات کا کام مکمل کر لینا چاہئے۔ جن لوگوں کو نوازشریف کی شکل اور پالیسیاں پسند نہیں وہ ان کی پارٹی کو الیکشن میں شکست دلوانے کے لئے ایک ہو جائیں اور مسلم لیگ (ن) کے ہر امیدوار کے مقابلے پر جیتنے کی اہلیت رکھنے والا متفقہ امیدوار لے آئیں۔

یوں ووٹ کے ذریعے حکومت تبدیل کریں۔ اس پر نہ کسی کو اعتراض ہو گا اور نہ ہی ملک و قوم کا نقصان ہو گا۔پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اہم سیاسی جماعتیں ہیں ان کی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ان کے مستقبل کے لئے بہت مفید ثابت ہو گی۔ سو حکومتی میعاد پوری ہونے سے پہلے اپنی صفیں درست کریں اور آئندہ الیکشن کی تیاری کریں۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا اپنا سیاسی ہوم ورک کرنا چاہئے تاکہ سیاسی میدان لگے تو وہ اس میں سرخرو ہو سکیں۔

2008ء اور 2013ء کے الیکشن کے بعد 2018ء کے الیکشن بھی ہو گئے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل تابناک ہو جائے گا اور آئندہ بھی ووٹ کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کی رسم پڑجائے گی۔ جہاں تک عمران خان کے خلاف الیکشن کمشن میں چلنے والے مقدمات کا تعلق ہے وہ بھی آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ عمران خان ہوں یا نوازشریف اس کی 2018ء کے الیکشن میں سیاسی معرکہ آرائی سے پہلے عدالت میں زورآزمائی جاری رہے گی ۔ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کیلئے بھی یہ امتحان ہے کہ وہ اس مشکل صورت حال سے کس طرح سرخرو ہو کر نکلتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

2 Saala Uboori Hakomat Ka Khawab is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.