زہریلی دھند

امریکہ کے خلائی ادارے نا سا کا کہنا ہے کہ زہریلا دھند صرف لا ہور اور پنجاب کے کئی شہروں تک محدود نہیں اس سے بھارت شہر بھی متا ثر ہو رہے ہیں۔ اور یہ مسئلہ دہلی کو بھی درپیش ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سموگ یعنی زہریلے دھند کے بہت سارے وجوہات ہیں مگر آج کل اسکی سب سے بڑی وجہ بھارت کے پنجاب میں فصلوں کے بچے ہوئے حصوں کو جلانا ہے

پیر 14 نومبر 2016

Zehrili Dhund
امریکہ کے خلائی ادارے نا سا کا کہنا ہے کہ زہریلا دھند صرف لا ہور اور پنجاب کے کئی شہروں تک محدود نہیں اس سے بھارت شہر بھی متا ثر ہو رہے ہیں۔ اور یہ مسئلہ دہلی کو بھی درپیش ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سموگ یعنی زہریلے دھند کے بہت سارے وجوہات ہیں مگر آج کل اسکی سب سے بڑی وجہ بھارت کے پنجاب میں فصلوں کے بچے ہوئے حصوں کو جلانا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ بھارت کے مختلف شہروں میں کسان اور زمین فصلوں کے سٹرایعنی کھیت میں بچے ہوئے حصوں کو نکالنے کے بجائے اسکو جلاتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے ان شہروں میں تقریباً32 ملین ٹن فصلوں کے سٹرا جلائے جاتے ہیں۔جس سے مختلف زہریلی گیسیں مثلاًنا ئٹرس آکسائیڈ ، کاربن مانو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ایروسول نکلتے ہیں۔

(جاری ہے)

اللہ نے کائنات کے نظام کو ایک ترتیب سے بنا یا ہوا ہے اور جو اس میں بگاڑ پیدا کرے گا وہ اسکے منفی اثرات کو بھی بر داشت کرے گا۔

بات صرف بھارت میں فصلوں کے باقیات جلانے کا نہیں مگر ہم نے کرہ ارض پر جنگلات بھی ختم کئے۔ اور یہی وجہ قْر آن مجیدمیں بار بار درخت کا ذکر کیا گیا ہے۔جنگلات کا بے دریغ کٹاوٴکی وجہ سے آلودگی زہریلے دھند میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگر ہم پاکستان میں مو سمی تغیر کو دیکھیں تو اس میں تین وجوہات یعنیجنگلات کی کمی ،آبادی میں بے تحا شا اور بے ہنگم اضافہ اورا ڑیوں کا حد سے زیادہ استعمال انتہائی اہم ہیں۔

جہاں تک مو سمی تغیر کا تعلق ہے تو اسکے بہت ساری وجوہات میں زہریلی گیسوں کے اخراج کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سب سے اہم ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آکسیجن ما حول کو ٹھنڈا رکھتا ہے جبکہ کا ربن ڈائی آکسائیڈ ایک زہریلی گیس ہے جو ما حول کو گرم رکھنے اور درجہ حرارت بڑھا تا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ما حول میں اس زہریلے گیس یعنی کا ربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے۔

اور آکسیجن جو انسان کی بقا کے لئے ضروری گیس ہے اسکے مقدار میں اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے گیس قابو کرنے طریقے ہیں تو اسمیں سب سے زیادہ اہم درخت یا پو دے لگا نا ہے۔ درخت اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں کے لئے آکسیجن بنانے کی فیکٹری ہے۔ ایک مکمل درخت ہمیں سال میں 50 ڈالر کی 5 معکب میٹر کی لکڑی مہیا کرنے کے علاوہ 5 ٹن آکسیجن بھی مہیا کرتا ہے جو کہ روئے زمین پر حیات کے لئے انتہائی اہم ہے۔

کیونکہ آکسیجن کے بغیر کوئی بھی جاندار روئے زمین پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ما ہر ما حولیات یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مکمل درخت سال میں اتنی آکسیجن مہیا کرتا ہے جتنی سال میں 20 لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ما ہر ما حولیات کایہ بھی کہنا ہے کہ ایک درخت سے سالانہ جتنی آکسیجن حاصل ہوتی ہے اْسکی قیمت 50ڈالر بنتی ہے۔درختوں کا دوسرا بڑا فائدہ ما حول میں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنا ہے۔

ما ہرین کہتے ہیں کہ ایک درخت سالانہ ساڑھے 6 ٹن کا ربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور اگر ہمارے ما حول کو صحیح رکھنے کے لئے اسکی قیمت تقریباً102ڈالر سالانہ بنتی ہے۔علاوہ ازیں ایک درخت سے سالانہ 55 کلو گرام آرگینک یعنی نامیاتی مواد حا صل کیا جا سکتا ہے اور ما رکیٹ میں اس نامیاتی مر کبات کی قیمت تقریباً150 ڈالر بنتی ہے۔اسکے علاوہ ایک درخت ما حول کو خو شگوار بنانے کے لئے کیڑوں مکوڑوں یعنی پیسٹ کا انتظام کرتا ہے جسکی قیمت 50 ڈالر بنتی ہے۔

ما ہرین کہتے ہیں کہ ایک درخت سالانہ 70 کلو گرام گر د و غبار کو جذب کرتا ہے اور اسی طر ح ما حول کی صفائی سْتھرائی میں اہم کر دار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ ایک مکمل درخت سالانہ 15ڈالر کے زہریلے مواد اور ریڈیو اکٹیو الیمینٹ مواد کوجذب کرتا ہے۔اسکے علاوہ درخت سال میں جانوروں اور انسانوں کے لئے سائے اور با رش بر سانے میں جو کر دار ادا کر رہا ہو تا ہے اسکی قیمت ما ہر ما حولیات کے مطابق 15 ڈالر سالانہ بنتی ہے۔

ایک مکمل درخت ہمیں سالانہ تا رپین اور چھیڑ کی شکل میں مواد مہیا کر تا ہے اْسکی قیمت 100ڈالر سالانہ ہے۔اسکے علاوہ زیادہ پو دے اور جڑی بو ٹیاں حکماء حضرات دیسی دوائیوں کے بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک مکمل درخت ہمیں زمین کی ہمواری اور اسکی قدر و قیمت کو بر قرار رکھنے میں اہم کر دار ادا کرتا ہے جسکی ما رکیٹ میں ریٹ سالانہ 2 ڈالر ہے۔

علاوہ ازیں درخت ما حول کو صاف سْتھرا رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ درخت کی ان خداد صلا حیت کی وجہ سے ما حولیاتی آلو دگی کم ہوتی اور اسی طر ح ہم بیما ریوں اور دوائیوں کی مد میں بہت پیسے بچاتے ہیں۔علاوہ ازیں ما ہر ماحولیات کہتے ہیں کہ ایک مکمل درخت زمین کی کٹاوٴمیں 120ڈالر بچا تے ہیں۔ جب درخت کے پتوں سے ٹکراتی ہے تو ا س سے آواز کی سپیڈ میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے اور اس طرح گا ڑیوں کے سائرن کے بے ہنگم آوازوں سے بچا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ درخت کے جڑیں مٹی اورزمین کو جو ڑے رکھتی ہے اور اسکے پتے آندھی اور با رش کی شدت کو روکے رکھتی ہے۔ درخت زمین کے کھٹاوٴ کو بھی قابو میں رکھتی ہے۔ با ر ش کے پانی کو محفو ظ رکھتی اور پانی کے تیز بھاوٴ کو کنٹرول رکھتی ہے۔ پاکستان کے جنگلات 4فی صد رقبے پر ہیں اور یہاں پر سالانہ 494 ملی میٹر با رشیں ہو تی ہیں جبکہ اسکے بر عکس وہ ممالک جہاں پر زیادہ جنگلات ہیں وہاں پر با رشیں زیادہ ہو تی ہیں۔

مثلاً جاپان میں 37 فی صد جنگلات ہیں جہاں پر 1690 ملی میٹر بارش، بھارت میں جنگلات کی شرخ 25 فی صد ، جہاں پر 1083 ملی میٹر با رش ، سری لنکا میں 43فی جنگلات ، با رشیں 2500ملی میٹر اوربھوٹان میں 60 فی صد جنگلات ،با رشیں 2400 ملی میٹر با رشیں ہو تی ہیں۔ جہاں جنگلات زیادہ ہیں وہاں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی اور آکسیجن کی زیادتی ہو تی ہے جس کی وجہ سے پہاڑوں پر زیادہ برف پڑتی اور بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔

مری ہزارہ اور سوات میں لوگ کھا نے پکانے کے لئے جنگلات کا ٹ کر گزارہ کرتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یا تو ان جنگلات والے علاقوں میں سوئی گیس پہنچائی جائے اور اگر سوئی گیس نہیں پہنچ سکتی تو وہاں پر لوگوں سلنڈر والی گیس سبسیڈائز Subsidies ریٹس پر دئے جائیں تاکہ لوگ کم سے کم جنگلات کاٹ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zehrili Dhund is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.