یوم آزادی فقط ایک دن کا نام نہیں

زمین کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے وطن کو عظیم سے عظیم تربنانے کا خواب زندہ ہے

ہفتہ 13 اگست 2016

Youm e Azadi Faqat Aik Din Ka Naam Nehin

پروفیسر عبدالحق :

آج ہم پاکستانی اپنے محبوب وطن کے قیام کی 69 ویں سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں تو ہمارا دھیان قدرت کی ان فیاضیوں کی طرف جاتا ہے جس نے ہمیں آزادی وخودمختاری، سربلندی وعظمت اور خوشحالی وناموری کی نعمتوں کے ساتھ اس خطہ ارضی میں رنگا رنگ موسموں ، دلکش فضاؤں قسم قسم کے پھل، پھولوں اور اجناس سمیت ضرورت سے کہیں زیادہ معدنی ذخائر عطا کررکھے ہیں۔ آج ادنیٰ واعلیٰ، امیر وغیریب چھوٹا بڑا ہر کوئی اپنی جگہ مصروف عمل ہے۔ مذہب یانسل کے نام پر کوئی رکاوٹ نہیں۔ سائنس سے لے کر علم وادب تک ، کاروبار سے لے کر ملازمتوں تک اور اقتصادیات سے معاشرت اور فن وثقافت تک ہر میدان کھلا ہے۔ یہ فلک بوس عمارتیں، اربوں کھربوں کا کاروبار کرنے والے ادارے، سونا اگلتی زمینیں ، دھواں چھوڑتی فیکٹریاں یہ سب پاکستانیوں کی ملکیت ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح اونچی کرسیوں پر متمکن افسران اور نچلے درجے پر فائز کارکن یہ سب پاکستانی ہیں،مسلمان ہیں۔ دنیا کی یہ عظیم ترین اسلامی مملکت ایٹمی صلاحیت رکھنے کے ساتھ اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث اہل عالم کی نگاہوں کا مرکز ہے جس کے افراد ہر میدان میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا چکے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس مملکت خداداد کی قدروقیمت سے آگاہ ہیں جبکہ اکثر ایسے ہیں جنہیں ہر برائی پاکستان کے وجود کا حصہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ نہ صرف اس ملک کے مستقبل سے مایوس ہیں بلکہ ہر ناپسندیدگی پر ان کی زبان طعن اس پر ٹوٹتی ہے اور اپنی بداعمالیوں کا مجاسبہ کرنے کی بجائے تقسیم ہند کے عمل کو ” تاریخی غلطی“ سے تعبیر کرتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں متحدہ قومیت کے ’ثمرات“ سے محرومی ملی ہے۔ ایسے کورچشموں کے نزدیک نظریہ پاکستان ایک بے معنی سوچ کا مظہر اور جغرافیائی حدبندیاں انسانوں کے بیچ نارداتقسیم اور نفرتوں کی خلیج کاجواز ہیں۔ ایسے ” دانشور“ آج بھی رام راج کی فضیلتوں اور برٹش راج کی برکتوں کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ شایدان کے نزدیک آزادی قطعی بے معنی اور عزت وافتخار سے جینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور قدرت نے انہیں ہمیشہ کیلئے کلمہ خیر سے محروم کر دیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمان ہندوستان کی مصنوعی وحدت کو دھتکار کر یہ خطہ اراضی حاصل نہ کرتے تو ہندو اکثریتی قوم مسلمانوں کو یوں ہڑپ کر جاتی اسلام کانام لینے والا کوئی ایک بھی مسلمان نہ بچتا۔ تعلیم، تجارت، معاشرت اور دوسرے شعبوں میں مسلمانوں کی حالت وہی ہوتی جوآج ہندوستان کے مسلمانوں کی ہے۔ ہندوجنونی پاکستان کی عسکری قوت سے خوفزدہ ہونے کے باوجود وہاں کے اقلیتی مسلمانوں پر جو ظلم ڈھارہے ہیں اگر پاکستان کی شکل میں دفاعی حصار بھی نہ ہوتا تو ان مسلمانوں کا کیا حال ہوتا؟ بس اسی سوال کا جواب تخلیق پاکستان کا اجواز ہے۔ اس مملکت خداداد کی اہمیت اور قدرو منزلت سے آگاہی کیلئے قیام پاکستان سے پہلے کے روح فرساحالات کا مختصراََ حقائق نامہ پیش ہے تاکہ تقسیم ملک کو قائداعظم کی تاریخی غلطی قرار دینے والے یہ فیصلہ کرسکیں اگر پاکستان نہ بنتاتو ہمارا مقدر کیا ہوتا اور ہم کہاں ہوتے۔ برصغیر میں مرکزی سیکرٹریٹ کی کل تین سو کے لگ بھگ سٹیوں پر اہلیت کی بنیاد پر صرف ایک مسلمان آئی سی ایس تعینات تھا۔ فروغ تعلیم کیلئے پورے برصغیر میں یونیورسٹی درجے کی مسلمانوں کی صرف ایک یونیورسٹی علی گڑھ میں تھی اور کالج کی سطح کے صرف تین مسلم تعلیمی ادارے، اینگلو عربک کالج وہلی، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور اشاعت تعلیم میں مصروف تھے۔ مسلمانوں کے صرف اڑھائی فیصد بچے میٹرک تک پہنچتے جبکہ آگے جانے والوں کی تعداد گھٹ کر ایک یاڈیڑھ فیصد رہ جاتی تھی۔ اقتصادی طور پر بدحالی کا یہ عالم تھا کہ صرف کا نپور شہر میں صرف ایک چمڑے کی فیکٹری مسلمانوں کی ملکیت تھی۔ عام تجارت مینو فیسکچرنگ اور کاروبار پرہندوؤں کا قبضہ تھااور مسلمان گلیوں محلوں میں معمولی دکانیں کرتے یا بڑے بازاروں اور مارکیٹوں میں چھابڑی فروش اور بار بردار تھے۔ زیادہ مسلمان ہندوؤں کے انیٰ ملازم بن کرجی رہے تھے۔ مالی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے دیہات اور قصبات میں عام مسلمانوں کی جائیدادیں،زیواور گھریلو سامان تک ہندومہاجنوں کی تحویل میں رہن تھا۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں، کہ جہاں پاکستان کی تعداد نسبتاََ زیادہ تھی، مال روڈ (شاہر قائداعظم) پر صرف تین بڑی عمارتیں شاہ دین بلڈنگ ،نقی بلڈنگ اور غلام رسول بلڈنگ مسلمانوں کی ملکیت تھیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان میں بھی ایک ہندو سیٹھ کے ہاتھ رہن تھی۔ پورے برصغیر میں مسلمانوں کا واحد بنک ” حبیب بنک “ جو 1945ء میں قائم ہوا تھا۔ سرکاری دفاتر مکمل طور پر ہندوؤں کے کنٹرول میں تھے اور مسلمانوں کی شمولیت آٹے میں نمک کے برابر تھی اویہ دفتری مسلمان بھی بالعموم درجہ چہارم کے ملازم اور خدمت گار تھے۔ہندومسلمانوں کو ملیچھ اورناپاک کہتے تھے۔ برسوں تک ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں رہنے کے باوجود ہندوؤں کے ذہن دشمنی اور نفرت سے معمور تھے اور اگر ایک مسلمان بچہ بھی ان کے باورچی خانہ کے قریب سے گزرجاتا تو ان کا سب کچھ ناپاک ہوجاتا تھا۔ ہندوصدیوں تک مسلمانوں کے محکوم رہے تھے اور ہرچند مسلمانوں کے زیرنگیں وہ محفوظ، بے خطر اور آسودہ تھے، لیکن ان کے دلوں میں نفرت کا جولاداتھااور ذہنوں میں جو کدورت تھی وہ انہیں چین نہیں لینے دیتی تھی۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب اپنے قدم جمانا چاہے تو یہ ہندو اس کے آلہ کاربن گئے اور انگریزی راج کی چھت تلے وہ اپنی صدیوں کی محکومی کاانتقام لینے اور مسلمانوں کی ملیامیٹ کرنے کیلئے ہر غیرانسانی اور غیر اخلاقی حربہ آزمانے لگے۔ ہندوؤں نے بڑی چابکدستی سے ایسا ظالمانہ اقتصادی نظام وضع کرلیا جس کے شکنجے سے مسلمان کبھی نکل ہی نہ سکتے تھے۔قابض بدیسی حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے ستحکام کیلئے چونکہ مقامی غدارون کی ضرورت تھی اسلئے انہوں نے ہندوؤں کو غیر ضروری مراعات اور نواز شات سے اپنا دست دبازو بنالیا۔ انگریز اہندوؤں کے اس اتحادنے مسلمانوں کو برباد کرنے میں کوئی قائد اعظم جیسے معاملہ فہم، دوراندیش اور فیصلہ کن سیاستدان کو میدان میں اتر کر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنی پڑتی تھی۔ قائداعظم کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے عام سیاستدانوں کے برعکس ہیجانی کیفیت اور سطحی جذباتیت سے قطعی گریزاں تھے اور منطق واستدلال سے دوسروں کو مطمئن کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن آزادی پاکستان کے بارے میں وہ کس قدر جذباتی اور بیقرار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بارکسی غیرملکی اخبار نویس نے جب ان سے یہ سوال کیا کہ اگر پاکستان کا مطالبہ رد کردیا گیا تو مسلمان کیا کریں گے؟ تو قائداعظم نے بڑے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا بغاوت ‘۔ پاکستان کا قیام ایک طرح سے کانگریسی عزائم کی واضح شکست تھا جس بدباطن کانگریسی بری طرح تلملا رہے تھے اور سخت، ہیجانی کیفیت میں نوازئیدہ مملکت اسلامیہ کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں ان دشمنوں نے مشرقی پاکستان میں سازشوں اور افواہوں کا بازار گرم کردیا۔ چنانچہ مرکزی دارالحکومت کی بے پناہ مصروفیت کے باوجود قائداعظم کو مشرقی پاکستان کا دورہ کرنا پڑا اور اس موقع پرانہوں نے بعض ایسے امور کواپنے خطاب کا حصہ بنایا جن سے قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد اور اس کے حصول کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کااظہار ہوتا تھا۔ انہوں نے فرمایا: پاکستان کی کہانی اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد بلند انسانی مقاصد کی کہانی ہے۔ ہم ہزاروں مخالفتوں اور مشکلات کے باوجود زندہ رہنے پراڑے رہے۔ انسانی اخوت ومساوت اور بھائی چارہ یہ وہ چیزیں ہیں جوہماری تہذیب وتمدن کی بنیاد ہیں۔ پاکستان کیلئے جدوجہد ہم نے اسی غرض سے کی تھی کہ ہمیں یہ خطرہ تھا کہ شاید انسانی حقوق ہمیں اس برصغیر میں حاصل نہ ہو سکیں،ہم نے اس بکند مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ، اسلئے کہ صدیوں سے یہاں غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسے سماج کا قبضہ تھا جس کی بنیاد ذات پات اور چھوت چھات پر ہے ۔ یہ قبضہ دوسوبرس سے زیادہ مدسے چلا آرہاتھا۔ ہم نے محسوس کیا کہ بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان انفرادی طور پرانسانوں کی حیثیت سے اور اجتماعی طور پرایک قوم کی حیثیت سے مٹ جائیں گے لہٰذا ہم نے پاکستان کامطالبہ کیا تاکہ ہم جسمانی، روحانی اور معاشرتی طور پر آزادہوں اور اپنے کاموں کو اپنی روایات اورقومی فطرت کے مطابق چلاسکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری غفلت، بے تدبیری، عاقبت، نااندیشی ، سیاست دانوں کی نااہلیت اور باہمی آویزش، ہوس زر، خواہش اقتدار، زرداروں اور سرمایہ داروں کی عیاشیوں اور بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی ان سب کے ہمراہ منہ زور بیورو کریسی کی من مانی کارروائیوں ، کرپٹ مافیا اور نام نہاد دانشوروں کے ہاتھوں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے۔ یہ بھی بجا کہ کئی بار مارشل لاء نے بھی جمہوری اقدار اور جمہوری اداروں کی فعالیت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور رہی سہی کسر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں نے نکال دی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ قدرت کی سزانہیں کہ ہم نے پاکستان کی صورت ملنے والی نعمت کی قدرنہ کی کیا یہ لمحہ ہمیں ذاتی احتساب کی جانب متوجہ نہیں کرتا اور ہمیں اس بات کی دعوت نہیں دیتا کہ ہم سوچیں ، غور کریں کہ خود ہم اپنے حصے کے فرائض کو کس حدتک ادا کیا ہے اس مملکت کی تعمیر وترقی میں ، یہاں امن کی بحالی اور اس کی روشن صبحوں کے دوام میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Youm e Azadi Faqat Aik Din Ka Naam Nehin is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.