یہ وردی تبدیل نا ہوئی تو میں پولیس چھوڑ دوں گا‎

میں رک کر کچھ قدم پیچھے چلا اور جواب دیا سر میں ایک آن لائن اخبار 'اردوپوائنٹ' میں بطور نمائندہ اور اینکر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں. اس نے کہا سر اس نئی وردی کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں، آپ اس پر کوئی رپورٹ بنائیں یا کچھ لکھیں

Rukhshan Mir رخشان میر پیر 25 ستمبر 2017

Yeh Wardi Tabdeel Na Hui Tu Main Police Chor Doon Ga
اندھیرا روشنی کو  نگل رہا تھا اور میں ایک ایونٹ کی کوریج سے دفتر روانہ ہو رہا تھا.. تھریٹ الرٹ تھا  جسکی وجہ سے بھاری سیکورٹی انتظامات کئے گئے تھے. ڈرائیور کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ آگے نہیں آسکتے سو مجھے ہی  پیدل چل کر گاڑی تک پہنچنا تھا.. میں نے حامی بھری اور پیدل چلنے لگا.. وی-آئی-پی روٹ لگا ہوا تھا اور سڑک کے دونوں اطراف پولیس اہلکار تعینات تھے، میرے ہاتھ میں مائک تھا جسے صحافتی زبان میں "لوگو" کہتے ہیں.

ہاتھ میں  لوگو اس بات کی تصدیق کر دیتا ہے کہ آپ رپورٹر ہیں یا کسی میڈیا چینل کے منسلک کوئی صحافی..

(جاری ہے)

میں پیدل اپنی گاڑی کی طرف چل رہا تھا کہ آواز آئی "سر جی آپ کہاں کام کرتے ہیں؟" میں رک کر کچھ قدم پیچھے چلا اور جواب دیا سر میں ایک آن لائن اخبار 'اردوپوائنٹ' میں بطور نمائندہ اور اینکر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں. اس نے کہا سر اس نئی وردی کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں، آپ اس پر کوئی رپورٹ بنائیں یا کچھ لکھیں..

یہ کہتے ہوئے اسکی جان سولی پر لٹک رہی تھی کہ اگر کوئی افسر آگیا اور اس نے اسے ایک صحافی کے ساتھ محو گفتگو دیکھ لیا تو کہیں شامت نا آجائے.. اسکا ساتھی اہلکار بھی اسے ٹھیک سڑک کی جانب متوجہ اور چوکس رہنے کی ہدایت کررہا تھا.. میں نے  سوال کیا اس  نئی وردی سے  آپکو کیا مسلہ ہے؟ پنجاب پولیس کی وردی تو مارچ ٢٠١٧ سے تبدیل ہو چکی  ہے جسے ٧ مہینے بیت چکے ہیں؟ بس ہمیں یہ وردی پسند نہیں، اسکا رنگ بھی اچھا نہیں، کپڑا بہت گرم ہے، اس کپڑے کی وجہ سے ہمارے  ساتھی بیمار پڑ رہے ہیں میرے کچھ دوستوں کو یرقان  ہوگیا ہے، سب اہلکار یہی چاہتے ہیں..

اگر ایسا نا ہوا تو ہم یہ محکمہ چھوڑ دیں گے. اس نے ایک ہی سانس میں اتنا لمبا جواب دیا.. اسکا جواب ختم ہوتے ہی میں نے سوال کیا، پولیس کی نوکری چھوڑ کر آگے کیا کریں گے ؟ میں نے بی-اے کیا ہوا ہے اور اس نے ایل-ایل-بی، ہم کوئی اور کام کر لیں گے پر یہ نوکری نہیں کریں گے. اتنی دیر میں ایک اور پروٹوکول گزرا اور وہ مجھ سے قطع گفتگو کر کے بلکل چوکس ہو گیا..

میں نے بھی اس وقت اس سے ذیادہ سوال جواب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اور اسکے ساتھ والے اہلکار جس نے قانون کی ڈگری حاصل کررکھی تھی  کے موبائل فون میں اپنا  نمبر سیو کروا لیا اور اسے اپنے نمبر پر ایک مس کال چھوڑنے کی درخواست کی جو اس نے فورا کر لیا..
 دفتر پہنچنے تک میرے دماغ میں یہی چل رہا تھا کہ ایک پڑھا لکھا انسان اپنی نوکری سے کس قدر پریشان ہے..

جب وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ میری وردی تبدیل کروا دیں تو اسکے چہرے پر اک  پریشانی سی واضح تھی.. میں نے پولیس کی نئی 'آلیو گرین'  وردی پر ریسرچ کرنا شروع کردی..کچھ پولیس والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہماری وردی تبدیل ہونے کی وجہ سے  اہلکار اس لئے پریشان ہیں کیونکہ جو وردیاں ہمیں دی گئی ہیں انکا کپڑا بہت موٹا ہے اور گرمیوں میں آگ بن جاتا ہے، ایسے کپڑے کو پہن کر ڈیوٹی کرنا انتہائی مشکل کام ہے.

ایک اور پولیس اہلکار سے پوچھا تو اسنے کہا کہ اس رنگ میں وہ روب اور دب دبا نہیں، غیر معاشرتی اور غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث لوگ پہلے ہم سے ڈر جاتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہوتا..   
جب میں نے محکمے کے ایک افسر سے دریافت کیا تو  اس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں وہ کسی اور وجہ سے نوکری چھوڑنا چاہتے ہونگے.. ویسے بھی اب تو گرمیاں جانے والی ہیں (جیسے اگلے سال نہیں آئیں گی).

خیر مجھے ان سے ایسے ہی کسی جواب کی امید تھی، ہر وقت ٹھنڈے یخ  اے-سی میں رہنے والے بابو کو تھوڑی نا پتا ہوگا کہ جون جولائی کی تپتی ہوئی دھوپ میں سڑک پر ڈیوٹی کرنا کیسا ہے.. اسکے لئے تو 'سمر' کول اور ونٹر 'رومانوی' ہے. لیکن میرے خیال میں اگر نچلے لیول پر اتنے اہلکاروں کو اس وردی سے کوئی مسلہ ہے تو ضرور انکے مسائل کو سنا جانا چاہیے، اور انکی مرضی کے مطابق انکا یونیفارم ڈیزائن کرنا چاہیے.

جو چند ایکٹو یعنی چاک و چوبند ملازمین ہیں انہیں بلا کر ون-آن-ون یہ پوچھنا چاہیۓ کہ محکمے میں کتنے فیصد اہلکار اس تبدیلی سے خوش نہیں؟ اسکے 'فیبرک' اور آلیو گرین 'رنگ' میں کیا خامیاں ہیں جنکی وجہ سے  اہلکار محکمہ چھوڑنے جیسا انتہائی اقدام اٹھانے کو تیار ہیں؟ اگر کپڑا گرم ہے تو اسے تبدیل کر کہ معیاری اور ٹھنڈا کپڑا استعمال کرنا  چاہیے تاکہ دھوپ میں ڈیوٹی کرنے والے اہلکاروں کو پریشانی اور تکلیف کا سامنا نہ ہو، تپتی دھوپ میں گرم کپڑا پہن کر ڈیوٹی کرنا تو یقینن سزا کے مترادف ہے..

میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ اس نئی وردی کا ٹھیکہ کسے اور کیوں دیا گیا اور اس پر اخراجات کتنے آئے.. میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ اہلکار اور پولیس ملازمین جو کہہ رہے ہیں اسے سنا جائے.. اگر ہم اپنی پولیس اور محافظوں کی انکے لئے پسند نا پسند کا خیال نہیں رکھیں گے، انکے لئے 'فلیکسبل  ڈیوٹی آورز' سیٹ نہیں کریں گے جب تک کہ وہ اپنی نوکری سے مطمئن نا ہو جائیں تو وہ کیسے احسن طریقے سے اپنے فرائض کی ادائیگی پر  توجہ دے پائیں گے..؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Yeh Wardi Tabdeel Na Hui Tu Main Police Chor Doon Ga is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.