تحفظ خواتین بل

لبرل اور مذہبی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی۔۔۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین پر عدم تشدد اور حقوق کے تحفظ کا بل منظور ہونے کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ لبرل حلقوں اور خواتین کی جانب سے اسے سراہتے ہوئے حکومت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے

بدھ 16 مارچ 2016

Tahafuz Khawateen Bill
ابنِ یوسف :
پنجاب اسمبلی میں خواتین پر عدم تشدد اور حقوق کے تحفظ کا بل منظور ہونے کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ لبرل حلقوں اور خواتین کی جانب سے اسے سراہتے ہوئے حکومت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جبکہ مذہبی تنظیمیں اور بعض مرد حضرات اس پر سراپا احتجاج ہیں۔ بل پر حکومتی صفوں میں بھی واضح اختلافات دیکھے جا رہے ہیں۔

حکومت پنجاب کے ترجمان سیدز عیم قادری کا بل پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سے مردوں کا استحصال ہو گا۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بل کے بارے میں سول سوسائٹی سے مشاورت کی گئی تھی اور ضروری مشاورت کے بعد ہی ڈرافٹ بنایا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی زن مریدوں کا گڑھ بن چکی ہے اور ان کی جماعت حلیفوں کے ساتھ اس کے خلاف تحریک چلائے گی۔

(جاری ہے)

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی سمیت کئی اہم مذہبی رہنماوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے محض مغرب کو خوش کرنے کیلئے یہ اقدام اٹھایا ہے۔
لبر اور مذہبی حلقوں کی بحث اس مسئلے پر جاری ہے لیکن کوئی اس پہلو پر غور کرنے کو تیار نہیں کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں اسلام کیا احکامات دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کیساتھ کس قدر وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا۔

بیٹیوں کو بارگراں سمجھتے ہوئے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ جس خاتون کا خاوند وفات پا جاتا تو وہ دوسرے رشتہ داروں کے لیے مال غنیمت قرار دی جاتی تھی۔ اسلام نے زمانہ جاہلیت کی تمام رسومات بدختم کر کے عورتوں کو حقوق عطا کئے۔ عورت کو اللہ کی رحمت قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر فرض کیا کہ ماں، بہن ، بیوی اور بیٹی کو ان کے جائز حقوق ادا کئے جائیں۔

یہ حکم بھی دیا گیا کہ بچیوں کے رشتے طے کرتے وقت ان کی رضا مندی ضرور معلوم کی جائے ۔ اگر انکی رضا مندی ہو تو رشتہ طے کیا جائے بصورت دیگر رشتے طے نہ کئے جائیں۔ جب تک مسلمان اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کرتے ہوئے خواتین کو حقوق دیتے رہے اسلامی معاشرہ مثالی معاشرے کا عملی نمونہ بنا رہا لیکن جب اسلامی تعلیمات سے ناطہ توڑا تو معاشرے میں جہالت کے اندھیرے چھا گئے۔


جہالت، گمراہی اور اسلامی تعلیمات سے لا عملی کے باعث مردوں کی اکثریت خواتین پر تشدد کرتی ہے۔ ان افراد کے قبیح عمل کو کسی بھی صورت درست اور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ عورتوں کی اس بدحالی کی ذمہ داری صرف حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے عوام کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور نہ قانون شکنی کرتے ہوئے خواتین پر تشدد کرنے والے مردوں کو عبرتناک سزا سے دوچار کیا۔

اگر حکومت خواتین پر تیزاب پھینکنے والوں کو نشانہ عبرت بناتی تو کسی کو یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ معصوم خواتین پرتیزاب پھینکے ۔ اگر حکومت بچیوں کی جبراََ شادی کروانے والے والدین کی سرزنش کرتی جو لڑکیاں اپنے والدین کے فیصلے کے خلاف شادیاں نہ کرتیں اور نہ جہالت میں ڈوبے افراد انہیں شوہر سمیت سرعام قتل کرتے۔ حکومت نے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے ادا ہی نہیں کیں۔

اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو عالمی سطح پر پرکستانی معاشرے کی بھیانک تصویریوں نہ دکھائی جاتی۔ ایک رپورٹ نے مطابق ہر سال تقریباََ ایک ہزار خواتین کو ان کے خاندان کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ خواتین پر تشدد کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث شدید مالی مشکلات کا سامنا رہتا ہے جبکہ بیو ی بچوں کی جانب سے ان پر ضروریات پوری کرنے کیلئے دباو ڈالا جاتا ہے۔

ان مشکلات کے باعث مرد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنا غصہ گھروالوں پر نکال دیتے ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے متنازعہ قانون بنانے کی بجائے مضبوط معاشی پالیسیاں تشکیل دے تاکہ ایک خوشگوار معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tahafuz Khawateen Bill is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.