سبسڈی کے باوجود غربت کا غلبہ

رمضان کی آمد کا سن کر ہمارے ہاں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ملک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے صرف کے داموں میں یکایک بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے جس سے روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہے

منگل 14 جون 2016

Subsidi K Bawajood Gurbaat ka Ghalba
ضیاء الحق سرحدی:
رمضان کی آمد کا سن کر ہمارے ہاں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ملک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے صرف کے داموں میں یکایک بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے جس سے روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہے ایسے میں بچارے عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے مگر حکومت اس جانب توجہ نہیں دیتی۔

اس صورتحال میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکمران ابھی تک ہنی مون ٹائم منا رہے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں عام آدمی کی کم سے کم ماہانہ آمدنی 12000 روپے سے بڑھا کرجب 13 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی میں بیٹھے نمائندگان ایم این ایز فی کس ایک لاکھ 80 ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ الاوٴنسزو دیگر مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

حیرت کی بات ہے کہ قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں اچھی چائے کا کپ 1 سے 2 روپے میں بآسانی ملک جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس 200 روپے سے 400 روپے دیہاڑی لینے والا مزدور بازار سے چائے ایک کپ 20 سے 25 روپے میں پینے پر مجبور ہے۔

غریب آدمی جو کہ محنت مزدوری کرتا ہے اس کے لیے زندگی کے بنیادی اخراجات بھی مہنگائی کی بلند ترین شرح پر وصول کئے جاتے ہیں۔
آخرکون سی حکومت ، کب عوام کو ریلیف دے گی آج بھی وہی مہنگائی ہے جو گزشتہ حکومت نے عوام کو تحفے میں دی تھی۔ ایک طرف دولت کے انبار ہیں اور دوسری طرف افلاس۔ دوسرے ممالک مذہبی تہواروں کے موقع پراپنے عوام کو غیر معمولی رعائتیں اور سہولتیں دے کر ان کی خوشیوں کو دوبالا کرتے ہیں۔

پوری دنیا میں یہی معمول ہے مگر پاکستانی تاجروں اور ہمارے حکمرانوں کو اس کی پروا نہیں۔ ماہ رمضان کے خصوصی انتظامات کے تحت حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے یوٹیلٹی سٹور پیکج کا اعلان کیا ہے۔ جس کے تحت آٹا، گھی ، بیسن، دالیں، کھجور، چاول، چائے، ٹھنڈے، مشروبات، دودھ، مصالحہ جات سمیت 1500 سے زائد اشیائے ضرور ی مارکیٹ کی نسبت خصوصی رعایتی نرخوں پر فراہمی کا انتظام کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت محض اسی خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کیلئے روزمرہ اشیاء سستے داموں مہیا کی جا رہی ہے۔ مگریہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ملک کی آبادی اور ضروریات کے لحاظ سے یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد ناکافی ہے۔ ان سٹوروں پر چینی اور آٹا جیسی ضروری اشیاء خریدنے کے لیے دیگر چیزوں کی خریداری بھی مشروط بنا دی جاتی ہے اور عوام کو لامحالہ دیگر غیر ضروری اشیاء بھی خریدنی پڑتی ہیں۔

حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے نیز عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی عام بازار سے خریداری پر مجبورہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کئے جانے والا رمضان پیکج مستحسن اقدام ہے مگر عام مارکیٹ میں بھی اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں کمی لانا راست اقدام ہو گا تاکہ رمضان ریلیف پیکج کے ثمرات پاکستان بھر کے عوام تک پہنچ سکیں۔
رمضان المبارک سے قبل بیسن، چینی، چکن ، دالوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔

ایس لگتا ہے کہ پاکستان میں بارہ مہینے ہی مصنوعی مہنگائی جاری رہتی ہے۔ غریب کی خوراک میں آٹے کو زیادہ عمل دخل ہے کیونکہ و ہ مہنگے پھل، گوشت اور مہنگی ڈبل روٹی نہیں کھا سکتا۔ حکومتی سبسڈی کے باجود آٹے کی قیمت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بیشتر ملیں گندم کی قیمت میں اضافہ کرے یا نہ کرے ملزمالکان آٹے کی قیمت میں بلا جواز اضافہ کر لیتے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا رہے۔ اس کے باوجود موجودہ حکمرانوں کو اس سروے میں پائی جانے والی غربت نظر نہیں آرہی۔حکومتوں کو چاہیے ک وہ کراس دی بورڈ سبسڈی دینے کی بجائے ایسی سکیمیں متعارف کرائے کہ جس سے دوردراز میں بسنے والے غریب بھی فائدہ اٹھا سکیں۔

ہمارے ہاں سبسڈائز اشیاء سے امیر طبقہ فائدہ اٹھا لیتا ہے کیونکہ اس کے پاس دولت اور ذخیرہ کر لینن کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ جبکہ عام آدمی کے لیے اشیاء کی قلت ہی رہتی ہے۔ عام آدمی کے لیے بجٹ کی اہمیت آج بھی یہی ہے۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیامجھ کو ؟
صوبائی حکومتوں کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ضلعی نظام میں سینکڑوں مجسٹر یٹوں کی ٹیم ہے جو ناجائز منافع خوری کرنے والوں کے ہاتھ روک سکتے ہیں لیکن ایسا بھی شاید کہیں ہوتا ہوگا۔

حکومت نے اس نظام کو دوبارہ نافذ کیا ہے ماضی میں مجسٹریسی نظام کی روایت اچھی رہی ہے ۔ اگر افسران دیانتدارہوں تو اس سے مہنگائی میں بڑی حد تک کمی لائے جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تاجر تنظیموں کے عہددیدار ان بھی اگر یہ چاہیں تو یہ مہنگائی کے معاملے میں اپنا نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Subsidi K Bawajood Gurbaat ka Ghalba is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.