سیاچن گلیشیر کی تباہی عالمی برادری خاموش کیوں ہے؟

گلوبل وارمنگ کو دنیا کیلئے ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے سیاچن گلیشیر پر کی جانے والی حرکات نے خطرناک موسمی تبدیلیوں کو دعوت دینا شروع کردی ہے

جمعرات 23 جنوری 2014

Siachen Glacier Ki Tabahi
اے یودرانی:
آج دنیا بھر کے ماہرین ماحولیات گلوبل وارمنگ سے بچاؤ کیلئے نت نئے منصوبے اور تراکیب پیش کررہے ہیں اور زمین کا درجہ حرارت کم کرنے کیلئے آگہی مہم چلا رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کو دنیا کیلئے ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے سیاچن گلیشیر پر کی جانے والی حرکات نے خطرناک موسمی تبدیلیوں کو دعوت دینا شروع کردی ہے ۔

جنگ کے نشے سے مست بھارت نے سیاچن گلیشیر پر ائیربیس قائم کررکھا ہے۔ یہ کوئی عام ائیربیس نہیں ہے بلکہ اس ائیر بیس کا رقبہ اسلام آباد ائیر بیس سے بھی بڑرا ہے۔ یہ مصروف ترین ائیر بیس ہے، یہاں ہر وقت نقل و حمل جاری رہتی ہے۔ درجنون ہیلی کاپٹر یہاں کسی بھی وقت اڑان بھرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہر 15منٹ میں کوئی نہ کوئی جیٹ طیارہ یا ہیلی کاپٹر یہاں سے ضرور اڑان بھرتا ہے یا اترتا ہے۔

(جاری ہے)

ماحولیاتی تغیر پیدا کرنے والے عوام میں یہاں اس ائیر بیس کے ارد گرد کئی ایکڑ پر برف کاٹ کر کنٹونمنٹ علاقہ بنالیا گیا ہے۔ اس گلیشیر پر ہزاروں بھارتی فوجی تعینات کئے گئے ہیں۔ نہ صرف پورا سال اس کوبصورت گلیشیر پر لاکھوں میٹر ایندھن جلایا جاتا ہے بلکہ دیگر حرارتیں بھی یہاں موجود مسلسل برف پگھلا رہی ہیں۔ کسی بھی گلیشیر کا پگھلنا خطے میں غیر فطری تبدیلیوں کا موجب بنتا ہے۔

گلیشیر پگھلتے ہیں تو پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ بھارت نے جیو تھرمل انرجی کے لالچ میں سیاچن گلیشر کی ایک ہزار جگہوں پر ڈرلنگ کر کے اسے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا بھر میں ایک طرف پٹرول اور دوسری انرجی کے استعمال سے پیدا ہونے والی حرارت کے خلاف ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے تو دوسری جانب براہ راست ہی کسی گلیشیر کو پگھلانے کا عمل کیسے درست ہوسکتا ہے۔

گاڑیوں کے دھویں اور دیگر گیسوں کے اخراج سے فوری طور پر کسی گلیشر میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک سست عمل ہوتا ہے، کئی برس بعد اس کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ جب کسی طرح بھی اس سست عمل کی حمایت نہیں کی جاسکتی تو پھر دوسری جانب براہ راست کسی گلیشیر کو تباہ کرنا سراسر جارحیت پر مبنی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود تمام عالمی قوانین کا نفاذ ایسے ممالک پر نہیں کیا جاتا ہے جو کھلم کھلا جارحیت پر اترے ہوئے ہیں۔

عالمی برادری کئی دفعہ تو معمولی معاملات پر دیگر ممالک کے امور میں مداخلت کرلیتی ہے مگربھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر قرارداد کا بھارت کی جانب سے تمسخر ہو یا پانی کے معاملے پر اس کی جارحیت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ان معاملات میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ بھارت نے سیاچن پر اپنی یہ خطرناک روش تبدیل نہ کی تو اس بلند قامت گلیشیر کے پگھلنے سے ایسی تباہی ہوگی کہ اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا خصوصاََ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں سیلاب، سائیکلون وغیرہ آئیں گے۔

ان تباہ کاریوں کے برعکس دوسری جانب قحط سالی عام ہوجائے گی۔ خاص طورہ پر پاکستان کیلئے اس کا پگھلنا بہت زیادہ خطرناک ہے اور سیاچن کے متاثر ہونے کا زیادہ نقصان بھی پاکستان کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ پوری دنیا تو پہلے ہی موسمی تغیرات کی لپیٹ میں آرہی ہے ۔ ایسے میں بھارت کا یہاقدام پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ پورا براعظم بلکہ دوسرے خطے میں بھی انتہائی سطح کی موسمیاتی تبدیلیاں ہوں گی۔

مگر اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس بھارتی اقدام کی روک تھام کرنے کے بارے میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔دوسری جانب پاکستان کو پانی کی قلت کا بہت زیادہ سامنا ہے۔ پاکستان بھارت ہی کی وجہ سے پانی کی قلت کا شکار ہے۔پاکستان کی نسبت بھارت میں متعدد ڈیم تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا مظہر یہ ہوتا ہے کہ ایک جانب تو سیلاب آرہے ہوتے ہیں اور چند میل کے فاصلے پر پانی کا قحط ہوتا ہے۔


گلیشیر کی تباہی کے حوالے سے معروف ماہر ارضیات ڈاکٹر امیر حیدر کا کہنا ہے کہ اگر 5سے 10سال میں تسلی بخش اقدامات نہ کیے گئے تو ہمیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، جن میں سیلاب بھی شامل ہے۔ بھارتی سٹیل انڈسٹری کی آلودگی کے باعث پانی کا ذخیرہ ناقابل استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جلد ختم بھی ہوجائے گا۔
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے بھارت سیاچن سے اپنی فوجیں واپس بلالے کیونکہ سیاچن گلیشیر پر بھارتی فوج کی موجودگی پاکستان کے ماحول کیلئے شدید خطرہ ہے۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پانی کی قلت کا سامنا ہے اور سیاچن گلیشیر پاکستا کے آبی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ دونوں ممالک آپس میں پانی کے مسئلے کو جامع مذاکرات اور سندھ طاس کمیشن سمیت مختلف طریقوں سے حل کرنے میں مصروف ہیں۔ منصوبہ بندی کمیشن وژن2025ء میں پانی کے ذخائر پر توجہ مرکوز کرے گا۔ اس سے قبل ڈاکٹر مجید نظامی بھی کہہ چکے ہیں کہ ” بھارت کے ساتھ ہماری آئندہ جنگل پانی کے مسئلے پر ہوگی۔


گلیشیر کو پگھلانا بھی آبی جارحیت کا ایک ثبو ت ہے، دوسری جانب پانی پاکستانی عوام اور ملک کی معیشت کیلئے زندگی کی علامت ہے۔بھارت کا متواتر ڈیم تعمیر کرنا اور پاکستان کو اس سلسلے میں آگے نہ بڑھنے دینا سراسر ظلم ہے۔ کیونکہ بھارت کے ان ان گنت ڈیموں کے نتیجے میں پاکستان کی زمینوں کو بنجر کیا جارہا ہے۔ پاکستانی مشیر خارجہ کے بیان کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی مثبت پیشرفت سامنے نہیں آتی۔

پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے عالمی برادری کو یہ باور کروائے کہ یہ خطرہ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات کا پشی خیمہ بن جائے گا کیونکہ سیاچن گلیشیر برف کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے درجہ حرارت میں اضافہ کسی صورت بھی خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔ گزشتہ سال پاکستانی عوام اور دنیا اس درجہ حرارت میں اضافے کے سبب ہونے والی تباہی دیکھ چکے ہیں۔


بھارتی فوجی روز مرہ استعمال کی چیزوں کو فاصل مواد کی صورت میں گلیشیر پر پھینک رہے ہیں۔ گلیشیر کے لئے الگ سے خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق گلیشیر پر انسان کا موجود ہونا ہمالیہ اور قراقرم کے علاقوں موجود دیگر گلیشیر کے نقصان کا بھی موجب ہے۔ بھارت کے بارے میں پاکستانی حکومت کا نرم رویہ اسے ہر نئے دن مزید جارحیت کا موقع فراہم کررہا ہے۔

حکومت کو بھارتی سرد مہری کے خلاف موثر لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ بھارت اس چیز کا ادراک نہیں کررہا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور ایٹمی قوت سے چیڑ چھاڑ کرنا یا اسے مشکلات میں مبتلا کرنا کسی طرح بھی دنیا کے امن کو تباہ کرسکتا ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیر سے اپنی فوجیں واپس بلا کر خطے میں ایک اچھی مثال قائم کرسکتا ہے مگر اس کا جنگی جنون اسے ایسے کرنے نہیں دے گا اور نہ ہی عالمی برادری اسے ایسا کرنے پر مجبور کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Siachen Glacier Ki Tabahi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 January 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.