قرار دادلاہور سے قرار داد پاکستان تک

تقسیم ہندوستان کا تصور علامہ اقبال سے بہت دیر پہلے ہندوستانی دانشوروں کے ذہنوں میں موجود تھا۔ مختلف افراد کی طرف سے برصغیر کی تقسیم کیلئے مختلف اوقات میں مختلف تجاویز منظر عام پر آتی رہیں جو قرارداد پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ سب سے پہلے خطہ میں مسلم جمہوریہ کا تصور سید جمال الدین افغانی کے ذہن میں ابھرا

جمعرات 24 مارچ 2016

Qarardad e Lahore Se Qarardad Pakistan Tak
اصغر علی جاوید:
تقسیم ہندوستان کا تصور علامہ اقبال سے بہت دیر پہلے ہندوستانی دانشوروں کے ذہنوں میں موجود تھا۔ مختلف افراد کی طرف سے برصغیر کی تقسیم کیلئے مختلف اوقات میں مختلف تجاویز منظر عام پر آتی رہیں جو قرارداد پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ سب سے پہلے خطہ میں مسلم جمہوریہ کا تصور سید جمال الدین افغانی کے ذہن میں ابھرا۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ”ہسٹری آف دی فریڈم موومنٹ “ میں تحریر فرماتے ہیں کہ سید جمال الدین افغانی ایک ایسی مسلم ریاست کے خواہاں تھے جس میں موجودہ پاکستان ، افغانستان اور روسی ترکستان مسلم علاقے شامل ہوں۔اسکے بعد 1917 ء میں ڈاکٹر عبدالجبار خیری اور پروفیسر عبدالستار خیری 1920 ء میں عبدالقادر بلگرامی اور ٹائمز آف انڈیا کے سابق ایڈیٹر مسٹر فریزر ، 1923 ء میں سردار گل محمد خان ، 1924 ء میں مسلم دشمن تنظیم ہندو مہا سبھا کے ایک رہنمالالہ لاجپت رائے ، 1928 ء میں سرآغا خان اور پھر 1930ء میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلے علامہ اقبال نے ”برصغیر کے اندر مسلم برصغیر“ کی تجویز پیش کی۔

(جاری ہے)

جی ہاں ”برصغیر کے اندر مسلم برصغیر“لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ آزاد مسلم ریاست نہیں چاہتے تھے۔جب آپ نے خطبہ الٰہ آباد میں اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ” ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے آگے جانا چاہتا ہوں“تو اْنکے ذہن میں آزاد مسلم ریاست کاتصور موجود تھا ۔ان حالات نے سیاسی زمین ہموار کردی تھی اور اب یہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ برصغیر میں آزاد مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہو گیا ہے۔

مسلم لیگ 1939 ء میں ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ آئند ہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوگا۔ لہٰذا سر سکندر حیات اور نواب شاہنواز خاں ممدوٹ نے لاہور کیلئے ایک مجلس استقبالیہ قائم کردی۔تاریخ 22 تا 24 مارچ مقرر کی گئی اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اجلاس بادشاہی مسجد کے پہلو میں موجود وسیع و عریض منٹو پارک میں منعقد ہوگا۔لہٰذا 22 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس پورے جوش و خروش کے ساتھ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا۔

بقول چوہدری محمد علی سٹیج تو اس جدوجہد کیلئے تیار تھی جس کے نتیجے میں تخلیق پاکستان کا عمل ہونا تھا۔اگلے روز یعنی 23 مارچ کو اسلامیانِ ہندوستان کے تقریباََ ایک لاکھ نمائندوں کے پروقار اجتماع میں وزیر اعلیٰ بنگال جناب مولوی اے کے فضل الحق نے ایک قراد داد پیش کی کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کے تحت جوسکیم پیش کی گئی ہے وہ مسلمانانِ ہند کیلئے قابل قبول نہیں ہے تاوقتیکہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں کے اندر مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے وہ یکجا ہوکر ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جن کے اجزائے ترکیبی خود مختار اور مقتدر ہوں۔

قرارداد کی تائید چوہدری خلیق الزماں نے کی اور دیگر اصحاب کے علاوہ مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب خان، حاجی سر عبداللہ ہارون ، نواب اسماعیل خان، قاضی محمد عیسیٰ اور آئی آئی چندریگر نے بھی اسکی حمایت کی۔قدرت کو جب اپنے بندوں کی بھلائی منظور ہوتی ہے تو بگڑے کام بھی سنورتے جاتے ہیں ۔اسلامیان ہندوستان نے قرارداد مذکورہ کوقرارداد لاہور کے نام سے موسوم کیالیکن ہندووٴں نے ”راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا اور کہا کہ ”نہیں جی ، یہ تو قرار دادپاکستان ہے “۔

اسے تعمیر پاکستان کیلئے سنگِ بنیاد کہیے۔ جی الانہ ” قائداعظم جناح “ میں لکھتے ہیں کہ اِس قرارداد کی منظوری سے ہندووٴں اور کانگریس کے دل دہل گئے۔ انہیں نوشتہ تقدیر نظر آرہا تھا اور یقین ہو چلا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کو خود مختار ریاستوں میں تقسیم کرنے کی وکالت کر رہی ہے۔ ہندووٴں اور کانگریس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ہندو اخباروں نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریئے لکھ مارے اور ہندو لیڈروں نے اس کیخلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔

ہندو اِس قرارداد کی مذمت کرتے اور حقارت کے ساتھ کہتے کہ اِس قرار داد میں پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ہے جو دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں اور انہوں نے” 23 مارچ 1940 ء کی قرارداد لاہور کو قرار دادِ پاکستان“ کا نام دے دیا۔ایس ایم اکرام ” ماڈرن مسلم انڈیا اینڈ دی برتھ آف پاکستان “ میں تحریر کرتے ہیں کہ ”ایک طویل مدت تک مسلم لیگ قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دینے میں محتاط تھی لیکن ہندو پریس نے غیر مسلموں کو چونکانے کیلئے اسے قرار داد پاکستان کہنا شروع کیا۔

ازاں بعد لیگی رہنماوٴں نے یہ نام قبول کر لیا۔شاید صحیح بات یہ ہے کہ 1940 کی قرارداد کو قراردادِ لاہور کہا جاتا ہے اور 1946 ء کے مسلم لیجسلیٹو کنونشن کو قرار دادپاکستان“۔
گاندھی اور راج گوپال اچاریہ نے قراردادِ لاہور کو ہندوستان کی چیر پھاڑ اور جسم کے دو ٹکڑے کر دینے سے تعبیر کیا۔ کبھی اسے مادرِ وطن کی بے حرمتی اور کبھی روح کے کانپ جانیوالا تصور قرار دیا۔

کانگریس اور ہندو پریس کے علاوہ سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے کہا کہ اگر مسلم لیگ کو پاکستان بنانا ہے تو اسے سکھ خون کے سمندر سے ہو کر گزرنا ہوگااورتو اور خود کانگریسی مسلمانوں نے اسکی شدید مخالفت کی۔مولانا ابو الکلام آزاد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ مطالبہ سراسر اسلام کیخلاف ہے۔جمیعت العلمائے ہند ، مجلس احراراور شیعہ پولیٹیکل کانفرنس کے اشتراک و تعاون سے معرضِ وجود میں آنیوالی آزاد مسلم کانفرنس نے بھی اِس مطالبہ کی شدید مخالفت کی۔

اِس صورت حال کو رئیس احمد جعفری نے بڑے خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی تجویز لاہور کے اجلاسِ عام نے جیسے ہی منظور کی ، سارے ہندو پریس نے بالعموم اور شمالی ہند کے ہندو اخبارات نے بالخصوص آسمان سر پر اْٹھا لیا۔گفتنی اور ناگفتنی سب کچھ ہی کہہ ڈالا۔ ابہام اور غلط بیانی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا۔ قائد اعظم نے ایک معاملہ فہم اور دور اندیش سیاست دان کی طرح ضروری سمجھا کہ اگر واقعی کوئی غلط فہمی ہے تو وہ رفع کردی جائے۔

چنانچہ 20 مئی 1940ء کو آپ نے واضح کر دیا کہ قدرت نے پہلے ہی سے ہندوستان تقسیم کر رکھا ہے اور اسکے حصے علیحدہ علیحدہ ہیں ۔ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی سے موجود ہے۔ وہ ملک ہے کہاں جسکے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور وہ قوم ہے کہاں جس کی قومیت فنا کیے جانے کو ہے۔ قائد اعظم نے قرارداد لاہور کو قابلِ عمل ہونا بھی ثابت کیا لیکن ہندو پریس اور کانگریس کے رویے نے بالآخر قرارداد لاہور کو پاکستان کا نام و مقام دے ہی دیا۔ مسلم لیگ کو بھی اِن حالات میں ہندووٴں کا یہ رویہ پسند آیا اور یوں 23 مارچ 1940 ء کی قرار داد لاہور نہ صرف قرارداد پاکستان بن گئی بلکہ پاکستان کی تعمیر میں سنگ بنیاد بھی ثابت ہوئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qarardad e Lahore Se Qarardad Pakistan Tak is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.