پولیس کی تفتیش اور جے آئی ٹی

پاکستان میں کسی بھی بڑے حادثے ، دہشت گردی اور معاشرے میں خوف پھیلانے کے واقعات کی تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بننا معمول ہے ہمارے ملک میں نائن الیون کے بعد جب دہشت گردی کے واقعات اچانک اس قدر بڑھے

منگل 4 جولائی 2017

Police Ki Tafteesh
پاکستان میں کسی بھی بڑے حادثے ، دہشت گردی اور معاشرے میں خوف پھیلانے کے واقعات کی تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بننا معمول ہے ہمارے ملک میں نائن الیون کے بعد جب دہشت گردی کے واقعات اچانک اس قدر بڑھے کہ روزانہ کی دہشت گردی ہونے لگی تویہ اصول طے کیا گیا کہ جس بھی مقدمہ میں دفعہ7ATA شامل ہوگی اس کی تفتیش جے آئی ٹی کے ذریعے ہوگی تاکہ قانون نافذ کرنے والا ہر ادارہ اپنے ماہرین کی خدمات دے کر اس مقدمہ کے مجرموں کی شناخت اس طرح کرے کہ دہشت گردی کا کوئی مجرم بھی قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ جے آئی ٹی میں شامل اداروں کے نمائندگان نے اپنے اس قومی فریضے کو بطریق احسن نبھایا اور ان اداروں کے ماہرین تفتیش نے دہشت گردی کے واقعات کے مجرموں کی تیزی سے شناخت اور پکڑ میں مدد کی ملکی قانون نے جے آئی ٹی بنانے کا اصول اس بنیاد پر بھی دیا کہ چونکہ7ATA دفعہ بہت بڑے جرم کے سرزد ہونے کی ہے جو دہشت گردی ہے ایک تو یہ جرم ہی بہت بڑا ہے اور دوسری اس کی سزاء بھی بہت بڑی ہے اس لئے7ATA کی تفتیش اس قدر تیز اور شفاف ہو تاکہ نہ تو اتنا بڑا جرم کرنے والا کوئی مجرم بچ سکے اور نہ کوئی بیگناہ اس میں پھنس سکے چنانچہ ان کیسوں میں اگر کوئی بیگناہ پکڑا بھی جاتا رہا ہے تو اسے جے آئی ٹی سے انصاف بھی ملا ہے جے آئی ٹی کے ذریعے بڑے جرم میں ملوث ایک دو ملزم ہی نہیں بلکہ پورے پورے نیٹ ورک پر گرفت کی صلاحیت بڑھنے سے اس کی افادیت ہمیشہ دو چند رہی ہے لیکن گلی محلے اور پرانی دشمنیاں رکھنے کے واقعات میں کئی لڑائی جھگڑوں میں بھی 7ATA کی دفعہ ایف آئی آر میں شامل کرنے کا سلسلہ جاری رہا کئی جھگڑوں اور قتل کے واقعات میں ایف آئی آروں میں7ATA لگائی بھی گئی لیکن چونکہ وہ جرائم چند افراد کے اردگرد ہوتے تھے اس لئے مجاز عدالتوں نے بھی ایف آئی آر سے 7ATA اڑا دیں اور مقدمات دہشت گردی کی عدالتوں سماعت کیلئے سیشن کورٹس میں بھیجے گئے اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ چونکہ کسی بھی مقدمہ کی ایف آئی آر تو متعلقہ تھانے میں ہی درج ہوتی ہے چنانچہ کچھ فریق اپنے اثر و رسوخ سے بھی اپنے مخالفین کے خلاف7ATA کی دفعہ درج کروانے میں تاخیر نہیں کرتے تھے جے آئی ٹی نے اس تیزی سے تفتشی مراحل طے کئے جس سے پولیس کے ادارے میں اپنی تفتیش کی اہلیت ہمہ پہلو نہیں رہی جبکہ تفتیش کو موثر رکھنے کیلئے پہلے تو یہ بھی ہوتا تھا کہ جو جرم جس تھانے ، سرکل ، تحصیل اور ضلع کے اندر ہوتا تھاایف آئی آر کے اندراج کے بعد متعلقہ پولیس اس کی تفتیش اس طرح محنت سے کرتی تھی کہ وہ اصل مجرموں تک پہنچنے میں مدد گار ہو اور کیس کی نوعیت کے لحاظ سے اس کی نگرانی ڈی ایس پی اور ایس پی عہدے کے افسران سے بھی کرائی جاتی تھی جبکہ لیگل برانچ، سپیشل برانچ کی ٹیمیں بھی تفتیش میں مدد کرتی تھیں اگر کیس اور بڑا ہوتا تو سرکل یا ضلع کی سطح پر ایس آئی ٹی یعنی سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بھی بنا لی جاتی تھی جس میں ضلع بھر کی پولیس سے تفتیش میں مدد طلب کی جاتی تھی یہ سب کچھ عمومی کیسوں میں اب بھی ہورہا ہے لیکن پولیس کی تفتیش پر نہ تو متاثرہ فریق مطمئن ہوتے ہیں اور نہ ہی سینئر پولیس افسران یہی وجہ ہے کہ تفیش کو سمجھنے والے سینئر افسران کے پاس جب سائلاندرخواستیں لے کر جاتے ہیں تو تفیشی ٹیم کو ناقص تفتیش پر سزائیں تک ملتی ہیں ناقص تفتیش پر کئی کی سروس ضبطی ، کئی برطرفی تک کی سزائیں پاجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ تفتیش کو اس کے معیار پر قائم رکھنے کیلئے فورس کو وہ کورس اور لیکچر کیوں فراہم نہیں کئے جاتے جن سے ان کی بھی تربیت ہوتی رہے آن سسٹم سے بھی ہر صوبے کی پولیس اپنے تفتیشی افسران کو ہر کیس کی نوعیت سے لیکچر فراہم کر سکتی ہے آج کونسا تھانہ یا چوکی ایسی رہ گئی ہے جس میں پولیس کے پاس آئی ٹی کے ماہرین موجود نہ ہوں اس لئے وقت آگیا ہے کہ بڑہتی آبادی اور تیز رفتار ٹیکنالوجی سے تفتیشی عمل کو ہم آہنگ رکھنے کیلئے پولیس اپنے اندرونی سسٹم میں ریفارمز لائے اس سے پولیس کی پروفیشنل استعداد بھی بڑھے گی اور عام شہری کے اندر اپنی پولیس پر اعتمادمیں بھی اضافہ ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Police Ki Tafteesh is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 July 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.