پاکستان میں امن و استحکام کی واپسی

پاکستان میں دہشت گردی و بم دھماکوں کا سلسلہ نیا نہیں 1987 میں کراچی کے بوہری بازار میں ہونیوالے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں دو سو سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں کئے گئے ٹائم بم دھماکے سے شہادت پانے والوں کی تعداد40 سے زیادہ تھی۔ اس دور میں کراچی سے لیکر پشاور تک کوئی بھی ایسا بڑا شہر نہیں تھا جہاں اس نوعیت کے دھماکے نہ کئے گئے ہوں۔ ٹائم و ریموٹ بم دھماکے 1980 ء سے شروع ہوئے۔ 1986 ء میں ان میں یکدم اضافہ ہو گیا۔

جمعرات 27 اکتوبر 2016

Pakistan main Aman o Istehkaam Ki Wapsi
خالد بیگ:
پاکستان میں دہشت گردی و بم دھماکوں کا سلسلہ نیا نہیں 1987 میں کراچی کے بوہری بازار میں ہونیوالے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں دو سو سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں کئے گئے ٹائم بم دھماکے سے شہادت پانے والوں کی تعداد40 سے زیادہ تھی۔ اس دور میں کراچی سے لیکر پشاور تک کوئی بھی ایسا بڑا شہر نہیں تھا جہاں اس نوعیت کے دھماکے نہ کئے گئے ہوں۔

ٹائم و ریموٹ بم دھماکے 1980 ء سے شروع ہوئے۔ 1986 ء میں ان میں یکدم اضافہ ہو گیا۔ اس ایک برس میں 26 دھماکے ہوئے۔ یہ تعداد 1990 ء کی دہائی شروع ہوتے ہی تین ہندسوں تک جا پہنچی اسی حساب سے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا۔ تاہم آگے چل کر ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں میں کمی آ گئی لیکن 2004 ء سے پاکستان میں طویل عرصہ سے جاری دہشت گردی میں خودکش دھماکوں کا عنصر شامل ہوا تو دہشت گردی کی ایک نئی شکل سامنے آئی کہ اب صرف بازار، ریلوے سٹیشن، بس اڈے ہی نہیں عبادت گاہیں اور حساس عسکری تنصیبات و عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا اور دھماکے کیلئے حملوں کی تعداد سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں کے ہندسے کو چھونے لگی۔

(جاری ہے)

2011 ء میں ایک ہزار گیارہ‘ 2012 ء میں 1652 ،2013-14 ء میں یہ تعداد دو ہزار دھماکوں سے تجاوز کر گئی لیکن حیران کن طور پر پاکستان میں ہونیوالے ان تمام دھماکوں پر نہ تو عالمی برادری نے سوال کیا کہ یہ خودکش بمبار کون ہیں؟ انہیں کون اسلحہ و گولہ بارود یا دھماکوں کیلئے اہداف کی نشاندہی کر رہا ہے اور نہ ہی کسی نے پوچھا کہ خودکش بمبار کو نفسیاتی طورپر خود کو بارود کے ساتھ اڑانے کیلئے تربیت اور برین واشنگ کہاں کی جا رہی جو کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں۔

یہ کام اعلیٰ تربیت یافتہ عسکری ماہر نفسیات ہی کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب پاکستان میں یہ خودکش دھماکے عروج پر تھے تو پاکستان کے اپنے بعض دانشور دشمن کی نشاندہی کرنے کی بجائے الٹا پاک فوج کی افغانستان سے متعلق سابقہ پالیسی کو ان دھماکوں کا ذمہ دار قرار دیکر دشمن کا کام آسان کرتے رہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کا کھیل جاری رکھے۔

مغربی میڈیا کا رویہ بھی کچھ اس طرز پر ہی مبنی تھا کہ پاکستان ہی کو دہشت گردی کے فروغ کا ذمہ دار قرار دیا جائے حالانکہ یہ سب جانتے تھے کہ 90,1980 ء کی دہائیوں میں پاکستان میں کون ریموٹ یا ٹائم بم دھماکے کراتا رہا۔ یہی سب طبقات پاکستان میں ان بھارتی” اسٹیٹ ایکٹرز“ کی رہائی کیلئے بے تاب نظر آئے جو پاکستان میں 1980 ء، 90 ء کی دہائیوں میں تخریب کاری اور بم دھماکے کرانے میں نہ صرف براہ راست ملوث پائے گئے بلکہ پاکستانی عدالتوں میں اپنے جرائم کا اقرار کر کے اسی حوالے سے سزائیں بھگت رہے تھے۔

پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے کھیل میں قبل ازیں دو علاقائی اور ایک عالمی قوت ملوث تھی تو خودکش دھماکوں کے دور میں بھی ترتیب یہی رہی۔ اس فرق کے ساتھ کہ سویت یونین کی کے جی بی کی جگہ سی آئی اے نے لے لی اور افغانستان کی خاد نے اپنا نام بدل کے این ڈی ایس رکھ لیا‘ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ ماضی میں بھی دھماکوں کی اصل ماسٹر مائنڈ تھی جو آج بھی پاکستان کے در پے ہے۔

یہ بھارت ہی ہے جو مشرقی سرحد سے پاکستان میں مداخلت میں حائل مشکلات کے پیش نظر 2001 ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد نئی تیاریوں اور سازشوں کے ساتھ براستہ افغانستان پاکستان پر اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے حملہ آور ہوا۔ جس میں اسے مغرب و امریکہ کی بھرپور مدد حاصل تھی۔ پاکستان پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی حالیہ جنگ میں پاکستان کا کس قدر مالی و جانی نقصان ہوا اس سے سبھی واقف ہیں لیکن 3 مارچ 2009 ء کو لاہور میں مہمان سری لنکن کرکٹ ٹیم پر کئے گئے حملے نے پاکستان کے کھیل کے میدان ویران کر دیئے۔

2008 ء میں ممبئی میں ہوٹل اوبرائے و تاج محل پر بھارت کے از خود کرائے گئے حملوں کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ طے شدہ کرکٹ میچ کھیلنے سے نہ صرف خود انکار کر دیا بلکہ دیگر عالمی کرکٹ ٹیموں کو بھی بائیکاٹ پر مجبور کیا۔ تاہم پاکستان سے دیرینہ تعلقات کی بدولت سری لنکا نے اپنی کرکٹ ٹیم بھیجنے کی حامی بھری تو بھارت کی وزارت خارجہ نے سری لنکاکو سفارتی ذرائع سے روکنے میں ناکامی کے بعد ایل کے ایڈوانی نے سری لنکا کو کھلے عام ”نتائج بھگتنے“ کی دھمکی دی۔

بھارت کی طرف سے ان کھلی دھمکیوں کے باوجود 3 مارچ 2009 ء کی صبح لاہور میں ہوٹل سے قذافی سٹیڈیم کی طرف جاتے ہوئے مہمان کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے پر کسی نے بھی بھارت کو موردالزام ٹھہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ اس کے بعد ہی بھارت کو آئی سی سی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ملا جسے اس نے بھارتی کرکٹ بورڈ کو مالی فائدہ پہنچانے کیلئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔

اسکے برعکس پاکستان میں کھیل کے میدان ہی ویران نہیں ہوئے بلکہ عالمی سطح پر سپورٹس کے حوالے سے پاکستان کا تشخص بھی کمزور ہوا۔ تاہم یہ پاکستان کا اعجاز ہے کہ تین طرح کے حملوں اور ملک میں داخلی طور پر جاری دنیا کی تاریخ میں سب سے بھیانک دہشت گردی کی جنگ میں بظاہر دکھائی نہ دینے والے دشمن کو بدترین شکست سے دوچار کرنے کے بعد پاکستان تیزی کے ساتھ امن کی طرف گامزن ہے اور پاکستان میں کھیلوں کے میدان بھی آباد ہونے لگے ہیں۔

جس کی مضبوط بنیاد پاک فوج نے جسمانی صحت وقابلیت اور جنگی استعداد کے مقابلوں کا انعقاد کر کے رکھ دی ہے۔ عالمی سطح پر اس نوعیت کے یہ پہلے مقابلے ہیں جس کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کیلئے لاہور ہی کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں بھارت نے سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملے کا ارتکاب کر کے اسے پوری دنیا کے کھلاڑیوں کیلئے غیر محفوظ قرار دیا تھا۔

16 اکتوبر 2016 ء سے 23 اکتوبر تک لاہور کے ایوب سٹیڈیم (جس کی آخری پروقار تقریب فورٹریس سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوئی )میں جاری رہنے والے ان پہلے عالمی مقابلوں کا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں دنیا کے 18قابل ذکر ممالک نے حصہ لیا جن میں تیراکی سے لے کر کرکٹ تک ہر طرح کے کھیل شامل تھے۔ گو دنیا بھر سے آنیوالے تمام کھلاڑیوں کا تعلق اپنے ملک کی افواج سے تھا لیکن ان مقابلوں نے پوری دنیا کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان میں کھیل کے میدان ہی نہیں پورا ملک مستحکم اور محفوظ ہے۔

کھیلوں کی افتتاحی تعارفی تقریب میں جب ترکی وچین کے کھلاڑی دستے میدان میں داخل ہوئے تو شائقین یہ دیکھ کر گنگ رہ گئے کہ انہوں نے ایک ہاتھ میں اپنے ملک کا جھنڈا تو دوسرے ہاتھ میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تھام رکھا تھا۔ یہ ایک ایسا جذباتی منظر تھا جسے الفاظ میں قلمبند کرنا ممکن نہیں نہ ہی ماضی میں کہیں دوستی کیلئے اظہار یکجہتی کی ایسی مثال دیکھی گئی۔ لاہور میں ان کھیلوں کے انعقاد نے بھارت اور پاکستان دشمنوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستا ن تنہا نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan main Aman o Istehkaam Ki Wapsi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 October 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.