پاکستان کا مستقبل بلوچستان

یہ محرومیوں کی آگ میں جل رہا ہے۔۔۔۔بلوچستان میں اس علیحدگی پسند عسکریت پسندی کے پس منظر میں جھانکیں تو کڑیاں بھارت سے ہوتی ہوئی اسرائیل اور امریکہ تک جا پہنچتی ہیں

پیر 7 اپریل 2014

Pakistan Ka Mustaqbil Balochistan
میر علی تالپر :
گزشتہ کچھ عرصہ سے بلوچستان کے مسئلہ کو خاصی ہوا دی جارہی ہے ۔ بلوچ عوام کے مسائل اور اُنہیں درپیش مشکلات کا مختلف فورمز پرذکر کرنا اور اُنہیں اُن کا حق دلانا اچھا قدم ہے جس کی کسی بھی صورت حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب بلوچستان کے ساتھ علیحدہ پسند عسکریت پسندوں کو بھی غیر ضروری اہمیت دی جا رہی ہے۔

ان عسکریت پسند گروہوں کے حوالے سے یہ تاثربھی قائم کیا جا رہا ہے کہ اُن کی مسلح لڑائی درست ہے اور یہ ریاستی اداروں کی کارروائیوں کے جواب میں ایک کوشش ہے۔بلوچستان میں اس علیحدگی پسند عسکریت پسندی کے پس منظر میں جھانکیں تو کڑیاں بھارت سے ہوتی ہوئی اسرائیل اور امریکہ تک جا پہنچتی ہیں۔ دوسری جانب امریکی کانگریس کے ایوانوں اور ری پبلکن پارٹی کے رکن کانگریس ڈینا روباز نے اپنے ساتھی ارکان کانگریس سے مشاورت کے بعد ایوان میں ایسی قرار داد کا مسودہ بھی پیش کیا جس میں کہا گیا پاکستان بلوچ عوام کو ایران، پاکستان اور افغانستان کے بلوچ علاقوں پر مشتمل الگ ملک بنانے کا پورا حق حاصل ہے۔

(جاری ہے)


کیا بلوچستان ملک طور پر شورش زدہ صوبہ ہے یا پھر اُس کا کچھ حصہ اُن مسائل کا شکار ہے۔ اس حوالے سے واضح ہو کہ بلوچستان میں ہونے والی قتل وغارت کا سلسلہ پورے بوچستان میں نہیں پھیلا ہوا۔بلوچستان کے 30اضلاع میں سے صرف 5اضلاع میں ایسا ہو رہا ہے جن میں سبی، خضدار، تربت ، کوئٹہ اور ڈیرہ بگٹی شامل ہیں۔ ان میں بھی 3اضلاع کے حالات زیادہ تشویش ناک ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسندوں نے بھی پورے پاکستان کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ اب تک علیحدگی پسند جن مزدوروں، اساتذہ، ڈاکٹر اور انجینئرز کو قتل کرتے رہے اُن کو محض نسلی بنیادوں پر گولیاں ماری گئیں۔ ان کے ساتھ بلوچ افرد بھی تھے لیکن علیحدگی پسند سب کو لائن میں کھڑا کر کے شناختی کارڈ دیکھتے ہیں اور پھر غیر بلوچ کو گولیاں مار دیتے ہیں۔

اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض ” دانشور“ اس عمل کو حکومتی پالیسیوں کے ردعمل کے طور پر درست قراد دیتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو صرف اس لیے بلوچستان دربدر کر دیا گیا کہ ان کا تعلق پنچاب سے تھا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ بے گناہ افراد جو محض روزگار کے سلسلے میں بلوچستان کے اُن اضلاع میں تھے اُنہیں بے دردی سے گولیاں ماردی گئیں۔

یہ وہ لہو ہے جو آستین کے اندر چپکا ہوا ہے اور بھی بولنے پر نہیں آیا۔ بلوچ علیحدگی پسند جو الزامات ایف سی پرلگاتے ہیں وہی شکایات ان سے بلوچستان میں مزدوری کرنے والے غیر بلوچیوں کو بھی ہے۔
اس وقت بلوچ علیحدگی پسندگروہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی پھیل چکے ہیں اور ان کی کارروائیوں کا دائرہ کار بھی پورے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں موجوہ بلوچ بستیوں میں گینگ وار کے نام سے علیحدگی پسند گروہ اپنے قدم جما رہے ہیں۔ حساس اداروں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان علحٰدگی پسند گروہوں کے کارندے اغوا برائے تاوان، کارلفٹنگ، منشیات فروشی، ڈکیٹی، ٹارگٹ کلنگ اور ایرانی تیل کی اسمگلنگ سمیت دیگر جرائم بھی ملوث ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے بلوچستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں میں جو اسلحہ استعمال ہوا وہ بھارتی اور امریکی ساختہ تھا۔

حکومت کئی بین الاقوامی فورمز پریہ اسلحہ اور گولہ بارود بطور ثبوت دکھا چکی ہے۔
بلوچستان کے اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے صورت حال کاجائزہ لیں تو وہاں کافی حد تک ایف سی کی موجودگی کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے جس بھی ضلع میں ملک دشمن کارروائیاں ہوں گئی وہاں یقینا حکومت کو مذاکرات یا آپریشن کے ذریعے صورتحال پر قابو پانا ہو گا۔

طالبان ک خلاف آپریشن اور مذاکرات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ طالبان کے حوالے سے تو یہ بات بھی واضح ہے کہ باقاعدہ مذاکرات کے لیے آنے والوں کو وہ نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ بعض معاملات میں انہوں نے مذاکراتی ٹیم کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں تحفظ کی ضمانت دینے کا بھی اعلان کیا ۔ اس کے برعکس بلوچ علیحدگی پسند اس حوالے سے اپنا ٹریک ریکارڈ خراب کر رہے ہیں۔


بلوچستان کو صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ تما م ناراض بلوچ بھی صورت حال کے ذمہ دار نہیں ہیں البتہ انہیں بہت خوبصورتی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال ضرور کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 67سال سے بلوچستان کے عوام کو محرومی اور غربت کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ اسی طرح اب تک وہاں امن وامان کی بہتر صورتحال بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہاں ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں جن سے مزید مشکلات پیدا ہوتی رہیں۔

یہی محرومیاں نوجوانوں کی بغاوت پر ابھارتی ہیں جن کو غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار نہایت خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان کی عالمی اہمیت اور چند سرداروں کی ہٹ دھرمی صوبے کو خطرے ی جانب دھکیل رہی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی معاشی بدحالی کی ذمہ داری مرکز اور پنجاب پر عائد ہوتی ہے جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ جہاں کسی حد تک سرداری نظام ہے وہاں خصوصی طور پر اور دیگر اضلاع میں عمومی طور پر بلوچستان کے لئے مختص فنڈ عوامی فلاح کے لئے خرچ ہی نہیں ہوتا۔


گزشتہ دور حکومت میں یہ خبر بھی سامنے آئی کہ قطر کے ایک وزیر سے تربت میں6کروڑ روپے چھین لیے گئے۔ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ وزیر موصوف تربت جیسے پسماندہ اور حساس علاقے میں اتنی بڑی رقم کیش کی صورت میں کیوں اور کس مقصد کے لیے لے جا رہے تھے۔ اگر یہ راز حل کر لیا جاتا تو بہت سے پردے اُٹھ جاتے۔
اس وقت ملک میں علیحدگی پسندوں نے انٹرنیٹ کے ذیعے منظم انداز میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف مہم چلا رکھی ہے لیکن ان ویب سائٹس اور پیجز کو بلاک نہیں کیا گیا جہاں وطن عزیز میں ملک اور عوام دشمن عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے اور ان کی دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کیے جانے چاہیں، وہیں بلوچ عوام کے مسائل کا حل بھی بہت ضروری ہے۔

عوام کے مسائل کا حل ہوں گے تو انہیں ملک دشمن سرگرمیوں پر ابھارنا آسان نہ ہوگا۔یہ بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان میں آباد پٹھان اور ہزارہ قبائل کی بڑی تعداد نے کبھی علیحدگی کا نعرہ نہیں لگایااور نہ اُن کے اکثر یتی علاقوں میں ایسی کوئی سرگرمی نمو ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مینگل، مری اور کسی حد تک بگٹی آبادی والے علاقوں میں علیحدگی کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Ka Mustaqbil Balochistan is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 April 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.