پاکستان2050ءتک چوتھا بڑا ملک

آئینی نقطہ نظر سے ہر دس سال کے بعد ملک میں مردم شماری کرانا ضروری ہے جب کہ حالیہ مردم شماری کا 19سال کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر بہ امر مجبوری اہتمام کیا گیا۔

منگل 26 ستمبر 2017

Pakistan 2050 Tak Chotha Baara Mulk
رانا زاہد اقبال:
آئینی نقطہ نظر سے ہر دس سال کے بعد ملک میں مردم شماری کرانا ضروری ہے جب کہ حالیہ مردم شماری کا 19سال کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر بہ امر مجبوری اہتمام کیا گیا۔ مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کی آبادی 21کروڑ 77لاکھ ہو چکی ہے جب کہ 1998ءکی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 13کروڑ 23لاکھ تھی۔

اس طرح 19سالوں میں ملک کی آبادی میں ساڑھے سات کروڑ افراد کا اضافہ ہوا۔ قیامِ پاکستان کے وقت کل آبادی 6کروڑ 80لاکھ تھی جس میں سے 2کروڑ 40لاکھ افراد مغربی پاکستان میں رہتے تھے جب کہ 4کروڑ 40لاکھ باشندے مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش میں رہتے تھے۔ اس وقت پاکستان کی موجودہ آبادی 21 کروڑ کے قریب جا پہنچی ہے اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ 70سالوں میں ملک کی آبادی 25 لاکھ افراد فی سال کی شرح سے بڑھی ہے یعنی ہر 4کے بعد پاکستان کی آبادی ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہوتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

بنگلہ دیش کی آبادی جو کہ برِ صغیر کی تقسیم کے موقع پر مشرقی پاکستان کی صورت میں مغربی پاکستان سے دو گنا تھی اب 70سالوں کے بعد پاکستان سے کم یعنی 16کروڑ 30لاکھ ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر متحدہ پاکستان کے جس خطے کی آبادی تقریباً دو گنا تھی آج 70سالوں کے بعد وہاں کی آبادی تقریباً 25فیصد کم ہے۔ ایسے ملک میں جہاں عوام پیدائش سے رحلت تک زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رہ کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہاں آبادی میں یہ بے ہنگم اضافہ ایک تشویشناک امر ہے۔

ہم اس ساری صورتحال کا مشاہدہ کریں تو یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ گزشتہ 19سالوں میں ساڑھے سات کروڑ افراد کا ملک میں اضافہ ہوا ہے اور اگر وطنِ عزیز میں معاشی ترقی کا جائزہ لیں تو یہاں اس تناسب سے معاشی ایکٹیوٹی نہیں بڑھی ہے بلکہ اس عرصہ میں ہماری معیشت تنزلی کا شکار ہوئی ہے، صنعتیں بند ہوئی ہیں اور برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسری صحت، تعلیم، رہائش، روزگار وغیرہ کی سہولتوں میں اسی شرح سے اضافہ نہیں ہوا ہے۔

یعنی جس رفتار سے پاکستان کی آبادی بڑھی ہے اس کے مطابق وسائل کی دستیابی میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، جس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت آبادی کی شرح ترقی کی شرح سے کسی طور ہم آہنگ نہیں ہے۔ 2010ءمیں ہونے والی مردم شماری نہ ہو سکی جس کی وجہ سے ملکی وسائل کی تقسیم اور آئندہ کی منصوبہ بندی کے حوالے سے لائحہ عمل طے نہیں ہو سکا نتیجتاً ملک ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوتا گیا کیونکہ جب تک بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ ہو گا تب تک کوئی ٹھوس حکمتِ مرتب نہیں کی جا سکتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2050ءتک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہو گا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جب کہ اس کے وسائل میں اضافے کی رفتار اس سے کہیں کم ہے چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ ملک جو وسائل اور ذرائع پیدا کرتا ہے آ بادی میں ہونے والا اضافہ وہ سب چٹ کر جاتا ہے اور یوں ملک معاشی اور اقتصادی لحاظ سے جمود کا شکار نظر آ تا ہے۔

ہمارے ملک کی آبادی میں اضافے کی رفتار کیا ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1950ءمیں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیرھواں بڑا ملک تھا لیکن اب 2017ءمیں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ملکوں کی ترقی کی بات کی جائے تو تو اکثر یورپ و امریکہ کی مثال دی جاتی ہے اور ان کی اقتصادی مضبوطی کو ٹیکنالوجی کا مرہونِ منت قرار دیا جا تا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کی کم شرح بھی ان کے معاشی استحکام کا ایک راز ہے۔

آبادی میں یہ اضافہ اس حقیقت کے باوجود جاری ہے کہ یہاں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے کئی ٹھوس اقدامات بھی ایک عرصے کئے جا رہے ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ آبادی میں اضافے کی یہی شرح رہی تو ہمارے ملک کی غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اسے دنیا کا ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب بکھر کر رہ جائے گا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی کو وسائل کے اندر رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے اور اس حوالے سے بہترین اقدام یہی ہو سکتا ہے کہ عوامی سطح پر آبادی کم رکھنے کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے، تعلیمی نصاب اس سلسلے میں ایک کارگر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے جب کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے ایک بہترین ذریعہ تسلیم کیا جا چکا ہے۔

ہمارے ملک میں بہبودِ آبادی ڈیپارٹمنٹ 1963ءمیں ایوب خان کے دور میں قائم ہوا تھا لیکن اس ادارے نے فعال کردار ادا نہیں کیا جس سے کوئی خاص نتائج سامنے نہیں آ سکے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ محکمہ پاپولیشن کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے اور اب مسئلہ آبادی سے بڑھنے والے مسائل کا ہے۔ بیٹا سپیرئیر سمجھا جاتا ہے ایک بیٹا پیدا کرنے کے لئے چھ چھ بیٹیاں پیدا کی جاتی ہیں۔

محکمہ کے پاس ادویات خالص نہیں ہیں اور جو ہیں بھی وہ عملہ لوگوں تک پہنچانے کی بجائے میڈیکل سٹوروں پر فروخت کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی پالیسیوں میں ربط پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں صحت، تعلیم اور بہبودِ آبادی سب مسائل کو اکٹھے لے کر چلنا ہو گا اور سارے مسائل کو ایک ہی وقت میں ساتھ ساتھ حل کرنا چاہئے۔ غریبوں کو ترقی دے کر آبادی پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے جس کے لئے معیشت اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے جو میڈیا، علمائ، پالیسی بنانے والوں، پارلیمنٹ کے نمائندوں اور ریسرچرز کے باہمی تعاون سے حل ہونا ممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan 2050 Tak Chotha Baara Mulk is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 September 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.