پاک چین راہداری

بین الاقوامی صور تحال کا جائزہ لیں تو واضح ہو تا ہے کہ ہر ملک کا اپنا ایک نیشنل ایکشن پلان ہو تا ہے۔ہر ملک اپنے مسائل کے حل اور ترقی کیلئے اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتا ہے۔پاکستان نے بھی اپنے مسائل کے حل اور قیام امن کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا

Syed Badar Saeed سید بدر سعید ہفتہ 9 مئی 2015

Pak China Rahdari
پاکستان اور چین کے درمیان اریوں ڈالر کے معاہدے طے پا چکے ہیں۔دونوں ممالک نے توانائی کے بحران کے خاتمے سمیت متعدداہم مسائل حل کرنے کیلئے باہمی تعاون کو بڑھایا ہے۔ان معاہدوں میں سب سے زیادہ اہمیت پاک چین معاشی راہداری کو دی جارہی ہے۔یہ طویل سڑک چین سے پاکستان کے ساحل گوادر تک بنے گی اسے ایک بڑا معاشی منصوبہ قراردیا جارہاہے۔

جس کی تکمیل پاکستان میں بڑے کا روباری مواقع پیدا کرے گی۔اس کی تجارتی شاہراہ کی مدد سے ایشیا اور یورپی یونین وعرب امارات کے درمیان تجارت کا عمل بڑھے گا۔چین اور روسی ممالک کیلئے یہ راستہ دیگر راستوں سے زیادہ سستا اور تیز تر ہوگا۔ایشیا کی اس بڑی تجارتی شاہر کا مرکزی مقام پاکستان کا ساحل گوادر ہوگا۔اس سارے عمل میں پاکستان جس قدر اہمیت اختیار کرچکا ہے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)


نئے منصوبے پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کی ضمانت سکتے ہیں:
بین الاقوامی صور تحال کا جائزہ لیں تو واضح ہو تا ہے کہ ہر ملک کا اپنا ایک نیشنل ایکشن پلان ہو تا ہے۔ہر ملک اپنے مسائل کے حل اور ترقی کیلئے اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کر تا ہے۔پاکستان نے بھی اپنے مسائل کے حل اور قیام امن کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا جس پر تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کو در پیش سب سے بڑا مسئلہ دہستگردی کا ہے۔پاکستان نے دہستگردی کے خلاف قومی ایکشن پلان ترتیب دیا جس میں پاک فوج بڑی حد تک کا میابی حاصل کر چکی ہے۔وطن عزیز کا دوسرا بڑا مسئلہ بیروز گاری اور غربت ہے۔اس مسئلہ کے حل کیلئے بھی معاشی منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔دوسری جانب چین نے بھی اپنا نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے رکھا ہے جس میں وہ کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔

کچھ لو اور کچھ دو کا اصول بین الاقوامی معاہدوں اور تعلقات میں نمایاں طور پر نظر آتاہے۔چین اور پاکستان کے حالیہ معاہدوں میں بھی دو طرفہ مغادات کو اولیت حاصل ہے۔چین ایک عرصہ سے معاشی ترقی کو اپنے نیشنل ایکشن پلان کا اہم حصہ بنا چکا ہے۔اسی مقصد کیلئے وہ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔آسان الفاظ میں چین کو گوم پانیوں تل رسائی اور اپنے معاشی سرکل کو آسانی سے آگے بڑھانے کیلئے نئے اور محفوظ راستوں کی تلاش ہے۔

اس مقصد کیلئے وہ چین سے گوادر تک کی تجارتی شاہراہ تعمیر کرنے کیلئے بھاری رقم خرچ کرنے پر آمادہ ہے۔اسی طرح گوادر پورٹ ائیر پورٹ اور دیگر منصوبوں کو بھی اسی مقصد کیلئے مکمل کرے گا۔یہ چین کا نیشنل ایکشن پلان ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتا ہے۔دوسری جانب پاکستان اس قدربھاری رقم خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔اس منصوبے میں پاکستان کو یہ فائسہ ہوا کہ پاکستان میں ترقی اور تجارت کے نئے دروازے کھل گئے۔

پاکستانی عوام کیلئے روز گار کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔نچلی سطح پر مزدوری ملنے سے لے کر اعلیٰ سطح پر انٹر نیشنل مارکیٹ تک رسائی کے مواقع یا آسانی ملنے لگیں گے۔
چین کے صدر45ارب ڈالر کے معاہدے کر کے واپس جا چکے ہیں ۔یقینا چین اپناکام بھی شروع کردے گا۔اب تک کی صورتحال چین سے متعلق تھی جس میں وہ ایک طے شدہ راستے پر سفر کرتا نظرآتا ہے۔

دوسری جانب وہ کام ابھی باقی ہے جو ہمیں کرنا ہے۔پاکستان میں چین سے معاہدوں کے ساتھ ہی اس تجارتی شاہراہ کو منتازعہ بنادیا گیا ہے۔اس سلسلے میں مختلف سیاسی رہنمااور قوم پر ست لیڈرڈاتی مفادات کا شکار نظر آتے ہیں۔عوامی جذبات کو بھی ابھار اجا رہا ہے۔پہلا جھگڑا ہی یہ ہے کہ راستہ کن کن علاقوں سے گزرے گا۔اس سلسلے میں دھمکیاں بھی مل رہی ہیں ۔

کہ یہ راستہ ہمارے علاقے سے نہ گزرا تو اس منصوبے کو مکمل ہی نہیں ہو نے دیا جائے گا۔بدقسمتی سے کسی سیاسی جماعت نے یہ نہیں کہا کہ یہ منصوبہ کسی ایک جماعت یا علاقے کا نہیں بلکہ پاکستان کا منصوبہ ہے۔ہماری رائے میں اس مسئلہ کو اس طرح بھی حل کیا جاسکتا ہے کہ یہ راہداری جہاں سے مرضی گزرے لیکن ہر صوبے سے ایک لنگ روڈاس مرکزی شاہر سے ملادی جائے ۔

اسی طرح جس پوائنٹ پر یہ سڑک مرکزی شاہراہ سے ملے وہاں بھی ایک تجارتی مرکز بنا دیا جائے جہاں سے تجارتی سامان وصول بھی کیا جا سکے اور آگے بھی بھجوایا جاسکے۔یہ چھوٹے تجارتی مرکزیا بزنس سٹی علاقائی اور صوبائی تجارت کو عاملی منڈیوں سے جو ڑنے کا باعث بن جائیں گے۔اس سے بہتر تجاویز پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ملکی سطح کے منصوبوں پر ہماری سیاسی قیادت کو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی مفادات کو مقدم رکھنا چاہے۔

اگر ہم چین کے ان منصوبوں کا جائزہ لیں تو یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ چین اس شاہراہ کے ذریعے تجارت کا محفوظ راستہ چاہتا ہے۔اس سے پہلے چین دحن راستوں سے تجارتی سامان دیگر ممالک کو بھیجتا ہے وہ محفوظ نہیں سمجھے جاتے۔اب یہاں بھی پاکستان کا امتحان ہے۔پاکستان کو معاشی طاقت بننا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنی صلاحیتیں منوائی ہیں ۔تو پھر اہم اقدامات بھی کرنے ہوں گے ۔

عالمی تجارتی منڈیوں میں جگہ بنانے کیلئے پاکستان کو دہستگردی کا مکمل خاتمہ کر کے محفوظ اور پرامن پاکستان کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا ہو گا۔ایسا نہ ہو سکا تو جس طرح سری لنکن کر کٹ ٹیم پر حملے کے بعد عالمی کرکٹ نے پاکستان سے منہ موڑ لیا تھا ویسے ہی تجارتی شاہراہ بننے کے باوجود عالمی تجارت یہاں سے منہ موڑ سکتی ہے۔
گوادر پورٹ بلوچستان میں ہے۔

بلوچ علیٰحدگی پسندیہاں چینی افراد سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔وہ چینی افراد کو بھی قبضہ مافیا قراردیتے ہیں ۔اب حکومت کو جلد از جلد س اس مسئلہ کو حل کرنا ہوگا۔ پاکستان کو عالمی سطح پر اپنا تاثر بہتر بنانے اور عالمی منڈیوں میں قدم جمانے کیلئے اس بین الاقوامی شاہراہ اور گوادر پورٹ کو فول پروف سکیورٹی سسٹم فراہم کرنا ہوگا۔اب پاکستان کو بھی دنیا پر یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان محفوظ ملک ہے۔

چین کا نیشنل ایکشن پلان عالمی منڈیوں پر قبضہ کر کے معاشی سپر پاور کے طور پر خود کو منوانا ہے۔اس مقصد کیلئے چین کے سڑٹیجک تھنک ٹینک رائے دے چکے ہیں کہ صورتحال کو اس رخ میں ڈھالا جائے گا کہ اگلے پانچ برس کے بعد بھارت سے کسی قسم کی جنگ کا خطرہ نہ رہے۔اس مقصد کیلئے چین نے بھارت کے ساتھ تجارت کو اس حد تک بڑھادیا ہے کہ بھارتی منڈیوں میں چینی مصنوعات کی بھرمار ہوگئی۔

اب چین کے ساتھ براہ راست جنگ کے نتیجے میں بھارتی معیثت خود ہی گھنٹے ٹیک دے گی۔اسی طرح چینی دانشوروں نے اگلے پندرہ برس میں جاپان سے بھی بہتر تعلقات قائم کرنے پر زوردیاہے۔اب چین ایک ایسی رائے عامہ ہموار کرنے میں مصروف ہے جس کا نچوڑ صرف اتنا ہے کہ ہمیں جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔چین یہ بات جان چکا ہے کہ آنے والے وقت میں معاشی طاقت ہی دنیا کے فیصلے کرے گی۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان بھی وقت کی ضرورت کو سمجھے ۔پاکسان کے پاس برصغیر کی بڑی اور اہم طاقت بننے کا موقع ہے۔اب ہمیں اپنے نیشنل ایکشن پلان مین مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے ملک سے مکمل طور پر شدت پسندی کا خاتمہ کرتے ہوئے بلوچستان سمیت اہم مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ہو گا۔پاکستان سے فرقہ ورانہ جھگڑوں صوبائی عصبیت دہستگرسی اوراسلحہ کلچر ختم کئے بنا ہم ترقی کی شاہراہ پر سفر نہیں کر سکتے ۔اسلئے ضروری ہے کہ پاک چین معاہدوں کی تکمیل سے قبل ان مسائل کو بھی حل کرنے کیلئے ان فوری توجہ دی جائے اور اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے کر اس پر عمل کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak China Rahdari is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 May 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.