اورنج لائن منصوبہ ،ترقی کرتاصوبہ

ترقی اور شہباز شریف پنجاب میں ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔پنجاب دس کروڑ سے زائد آبادی کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں کا وزیر اعلیٰ ترقی کیلئے ذوق جنوں رکھتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جس جانفشانی اور تیز رفتاری سے صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہے ہیں

جمعہ 3 جون 2016

Orange Line Mansoba
محمد یاسر عارف:
ترقی اور شہباز شریف پنجاب میں ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔پنجاب دس کروڑ سے زائد آبادی کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں کا وزیر اعلیٰ ترقی کیلئے ذوق جنوں رکھتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جس جانفشانی اور تیز رفتاری سے صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہے ہیں ایسی مثال نہ تو وطن عزیزکے کسی دوسرے صوبے کی ہے اور نہ ہی ایساکوئی وزیر اعلیٰ دیگر صوبوں کے پاس ہے۔

شہباز شریف کی انتھک قیادت میں بے شمار میگا پراجیکٹس کے آغاز وتکمیل کے بعد سندھ اور خصوصا خیبر پختونخواہ کے عوام کے دلوں میں اس خواہش کا جاگنا کہ کاش ہمارے پاس بھی شہباز شریف جیسا کوئی وزیر اعلیٰ ہو جوان کی موجودہ زبوں حالی کو خوش حالی سے بدل دے ۔کوئی تو ہو جو انکے دکھوں کا مداوا کرے۔

(جاری ہے)

اداس لمحوں میں رنگ بھرنے والا کوئی تو آئے جوعوام کے جان و مال کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے اپنے آرام اور نیند کوتیاگ سکتا ہو۔

یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں جس کا مطالبہ دیگر صوبوں کے عوام کرتے ہیں کیونکہ جب دوسرے صوبوں کے رہنے والے اپنی آنکھوں سے پنجاب کو شب و روز ترقی کرتا دیکھتے ہیں تو یہ کہے بغیر نہیں رہتے کہ پنجاب ایک خوش قسمت صوبہ ہے کیونکہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے برعکس نہ تو اسمبلی اجلاسوں میں سوتا ہے اور نہ ہی کے پی کے کے وزیر اعلیٰ کی طرح سٹیج ڈانس میں پناہ ڈھونڈتا ہے یعنی لوگ صوبے میں بارشوں اور دیگر آفات کا تن تنہا مقابلہ کرتے اور چوہے مارتے رہتے ہیں جبکہ موصوف دھرنوں کے دوران سٹیج ڈانس کرتے رہتے ہیں۔

یعنی وہ کام جس کیلئے لوگوں نے انھیں منتخب کیا تھا اسکے علاوہ سب کچھ کر گزرنے کیلئے تیار۔۱ لوگ اس بات پہ حیرت کا اظہار نہ کریں تو آخر کیا کریں ؟
پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں ایک اور بین الاقوامی معیار کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔ جی ہاں۔اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی اب لاہور شہر کے ماتھے کا جھومر ہوگی۔صوبائی دارلحکومت میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کے زیر تکمیل منصوبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اس امر پر مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے اس منصوبے کے ذریعے ابتداء میں اڑھائی لاکھ اور بعد ازاں پانچ لاکھ افراد روزانہ سفر کر سکیں گے۔

اس منصوبے کے تحت متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آمد و رفت میں بہت آسانی حاصل ہو جائیگی ۔ یہ منصوبہ نا صرف شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے سنگین مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ہوگا بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی نمایاں کمی آئیگی۔چینی کمپنی سی آرنورنکو نے اورنج لائن منصوبے کیلئے27 جدید ترین،کمپیوٹرائزڈ اور آٹو میٹک ٹرینوں کی تیاری شروع کر دی ہے۔

ہر ٹرین پانچ بوگیوں پر مشتمل ہے ،ایک بوگی میں بیک وقت دوسوافراد ،ایک ٹرین میں ایک ہزار اور 27 ٹرینوں پر مجموعی طور پر 27 ہزار ا فراد سفر کریں گے۔ٹرین کی حدرفتار80 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی چنانچہ آج کل رائیونڈ روڈ سے ڈیرہ گجراں تک اڑھائی گھنٹوں میں طے ہونے والا27 کلومیٹر فاصلہ صرف45 منٹ میں طے ہو گا۔اس سے قبل میٹرو بس منصوبے کی بھی بہت سے لوگوں اور سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی اور اسے جنگلہ بس اور دیوار برلن قرار دیا گیا۔

میٹرو بس سروس کی طرح اورنج لائن میٹروٹرین بھی ایسا منصوبہ ہوگا جو تمام منفی تنقید کرنے والوں کیلئے پنجاب حکومت کی جانب سے مثبت اور عملی جواب ہوگا۔ یاد رہے کہ جن لوگوں کی پراپرٹی گھر یا دکان وغیرہ میٹرو ٹرین کے روٹ میں آئے ان کو ایک عمدہ اور معقول انداز میں مارکیٹ ریٹ کیمطابق حاصل کی گئی اراضی کامعاوضہ دینے کا بندوبست کیا گیایعنی ون ونڈو آپریشن کے ذریعے ادائیگیاں کی گئیں تاکہ لوگوں کو اس سلسلے میں کسی ذہنی کوفت اور زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی یہ عمل اتنا طویل اور پیچیدہ رکھا گیا کہ لوگ اپنی دی گئی اراضی کی رقم حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہوں۔

اراضی مالکان کو معاوضہ کی ادائیگی کیلئے 20ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی۔لوگ کسی بھی معاملے میں تبدیلی کو فورا قبول نہیں کرتے بلکہ بتدریج تسلیم کرتے ہیں مثال کے طور پر 1870ء میں فرانس کے دارلحکومت پیرس میں گھوڑوں سے کھینچی جانے والی سٹریٹ کارز چلائی جاتی تھیں جبکہ آج کے پیرس میں شاندار ٹرانسپورٹ سسٹم کے ذریعے لاکھوں لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں اسی طرح قریبا دو عشرے قبل لاہور میں تانگہ جگہ جگہ دکھائی دیتا تھا اور لوگ امیر غریب کی تفریق کے بغیر اس پر سفر کرنا پسند کرتے تھے ۔

پھر وقت کے ساتھ ساتھ بسوں،اومنی بسوں اور چنگ چی رکشوں نے تانگے کی جگہ لے لی کیونکہ وقت کے تقاضے بدلتے رہے تاہم عوام کو پھر بھی کوئی باوقار اور با کفائت سفر کا ذریعہ نہ مل سکا جو انہیں بر وقت منزل مقصود پر پہنچا سکتا ہو۔اس منصوبے کے تکمیل کا سال 2017ء مقرر کیا گیا ہے۔جیسے ہی یہ عظیم الشان منصو بہ اپنے پایہ تکمیل کو پہنچے گا توروزانہ کی بنیاد پر لاکھوں کی تعداد میں شہری اس سے فائدہ حاصل کرینگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Orange Line Mansoba is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.