نئی سروسز کے باوجود ٹرانسپورٹ خواتین کا بڑا مسئلہ

طالبات کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری اداران میں کام کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو شدید سردی،گرمی،دھوپ اور بارش جیسے موسمی حالات میں ذرائع آمدورفت کے حوالے سے خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جمعہ 30 مارچ 2018

nai services ky bawjood transport khawateen ka barha masla
زارا مصطفی
روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے پھیلاﺅ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ یا ذرائع آمدورفتہ کا بحران موجودہ صورتحال میں خواتین کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اگرچہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر نقل و حمل کے لئے نت نئی سہولیات متعارف کروائی جارہی ہیں ان کے باوجود خواتین کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے اگر صرف لاہور فیصل آباد،کراچی ،ملتان اور گوجرانوالہ جیسے بڑے شہروں کی بات کی جائے تو یہاں روزانہ سکول و کالج کی سینکڑوں طالبات کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شدید گرمی،سردی،تیز دھوپ اور بارش جیسے شدید موسموں میں سخت خواری کا سامنا کرتی ہیں چنانچہ خواتین کے دیگر مسائل کی طرح ٹرانسپورٹ بھی ایک نہایت توجہ طلب مسئلہ ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہروںمیں مقیم لوگوں کوروز مرہ زندگی کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں جو کہ سراسر غلط ہے شہروں میں بھی خواتین کا اکیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ آزادانہ گھومنا پھرنا قطعاً آسان نہیں اگرچہ آج خواتین خواہ تعلیم ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی کسی بھی طور پرمردوں سے پیچھے نہیں رہیں مگر ان کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں اور مسائل حائل ہیں جن پر قابو پاناحکومت اور سرمایہ دار طبقے کی مشترکہ ذمہ داری ہیں۔

(جاری ہے)


پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی:اگر ہم روز مرہ زندگی میں خواتین کو درپیش تعلیم،صحت اور روزگار کے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف ٹرانسپورٹ کے مسائل کا ہی ذکر کریں تو صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور حکومت اب تک محض چند میٹرو پولیٹین شہروں میں بھی خواتین کو بہتر سفری سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو سوچیں چھوٹے پسماندہ شہروں اور دیہاتوں کی صورتحال کس قدر ابتر ہوگی۔

۔۔؟ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بھر سے خواتین تعلیم اور ملازمتوں کے حصول کے لئے میٹرو پولیٹن شہروں کا رخ کرتی ہیںان میں وہ خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ہوسٹلز وغیرہ میں اپنی فیملی سے دور رہتی ہیں تعلیمی اداروں اور دفاتر تک آنے جانے کے لئے انہیں لازماً پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے اس طرح وہ خواتین بھی ہیں جو روزانہ اردگرد کے چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں سے تعلیم اور روز گار کی غرض سے صبح و شام صفر کرتی ہیں مگر ان کے لئے مناسب ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے باعث روز مرہ مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ایک شہر سے دوسرے شہر روزانہ سفر کرنا خواری سے بھرپور اور تھکادینے والا تجربہ ہے۔

مگر یہ اس وقت اور بھی تشویشناک صورت اختیار کرجاتا ہے جب مناسب ذرائع آمدرفت بھی میسر نہ ہوں۔بہرحال ایک شہر سے دوسرے پہنچنے کا مسئلہ سر ہوجائے تو دوسرا برا مرحلہ تعلیمی اداروں یا دفاتر تک پہنچنا بھی ہے،ویسے تو اب لاہور کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں کئی طرح کے ذرائع آمدورفت متعارف کروادئیے گئے ہیں جن میں لاہور میں چلنے والے پنک رکشہ خواتین کی دلچسپی کا خاص محور بنے ہوئے ہیں اور خوش آئیندہ بات یہ ہے پنک رکشے میں خاتون رکشہ ڈرائیور کے ہمراہ صرف خواتین ہی سفر کرتی ہیں یا پھر اگرمرد پنک رکشہ سروس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو وہ اکیلے نہیں بلکہ کسی خاتون کے ساتھ ہی اس رکشے میں سفر کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پنک رکشہ سروس شہر کی چند مخصوص شاہراوں تک ہی محدود رکھی گئی ہیںاس کے علاوہ فیروز پور روڈپر میٹروبس بھی خواتین کے لئے ایک بہترین سفری سہولیت تو ہے مگر میٹروبس میں خواتین کے لئے مختص سیٹوں میں توسیع کے بغیر خواتین کے لئے سفرکی دشواریوں کو دور کرنا ممکن نہیں اس کے علاوہ آج کل”سپیڈو“ کے نام سے پنجاب حکومت کی جانب سے ایک نئی بس سروس شروع کی گئی ہیں جن کی تعداد تو کافی ہے مگر اس میں کرائے کی ادائیگی کہ لیے کارڈ متعارف کروائے گیاہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے روزانہ اس روٹ پر سفر نہ کرنا ہویا اچانک اس روٹ پر جانا مقصود ہو تو وہ کارڈ کا جھنجھٹ کیسے کرے؟کارڈ ری چارج کروانے کے لئے بھی سپیڈو بس کے مقررہ سٹیشنوں کا رخ ہی کرنا پڑتا ہے اس طرح نجی ٹیکسی سروس کی بات کی جائے تو وہ بھی ایک نہایت مہنگا ذریعہ آمدورفت ہیں نجی ٹیکسی کے مقابلے میں رکشہ بھی دس گنا مہنا ہوتا ہے البتہ یہ سہولت ہے کہ بس سٹاپوں پر تپتی دھوپ میں کھڑے ہوکر گھنٹوں بسوں کا انتطار کرنا پڑتا اس کے علاوہ پنک بس سروس بھی ایک اچھا اقدام تھا مگر ان کی ناکافی تعداد اور اضافی کرائے بھی خواتین کے مسائل حل کرنے سے قاصرہے۔


صرف ٹرانسپورٹ ہی مسئلہ نہیں:سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بعض جگہوں پر گھنٹوں کھڑے ہوکر بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے مگر کوئی سایہ دار جگہ نہیں ملتی کہ موسمی شدت سے بچتے ہوئے سواری کا انتطار کیا جاسکے پھر اگر بس مل بھی جائے تو وہ اس قدر کھچا کھچ بھری ہوئی ہوتی ہے کہ اس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور ایک پریشانی ختم ہوتی ہیں تو پرس سے موبائل اور پیسے چوری ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ہجوم اتنا کہ سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے ۔

۔عام طور پر پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے لئے مختص سیٹوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہیں جس سے ان بسوں پر سفر کرنے والی خواتین کبھی بھاری بھر کم سامان اٹھائے تو کبھی شیر خوار بچوں کو گود میں لئے کھڑے ہوکر سفر کرنے پر مجبور ہوتی ہیںاور چلتی بس میں ذرا سا جھٹکا لگنے سے گرنے کے واقعات بھی کم نہیں ہوتے۔خواتین کے اس ہجوم میں سے بس کنڈیکٹر اور ٹکٹ چیکر کا گزر بھی ہوتا ہے اگر ان سے جائے کہ بھائی جگہ نہیں ہے کچھ دیر ٹھہر جائیں تو وہ کہتے ہیں”بی بی ہم اپنا کام کررہے ہیں اگر آپ کو مسئلہ ہے تو آپ بس سے اتر جائیں۔

“بعض کنڈیکٹر تو اس قدر بدتمیزی کرتے ہیں کہ گاڑی میں پانی گرادیتے ہیں تاکہ خاتون نیچے بیٹھ ہی نہ سکے جبکہ بس ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کی بجائے کم عمر لڑکیوں کو اپنے اردگرد کھڑے ہونے کی جگہ دیں تاکہ سفر اچھا گزرے۔
خواتین کے ساتھ لوگوں کا ناخوشگوار برتاﺅ:
ہمارے ہاں کسی لڑکی کا اکیلے گھر سے باہر جانا ویسے بھی محفوظ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ جونہی لڑکی گھر سے باہرنکلتی ہے اسے لوگوںکے ناخوشگوار اور غیر مہذب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ماسٹرز کی طالبہ زینب عارفین کہتی ہیںیونیورسٹی جانے کے لئے مجھے دو دفعہ بس تبدیل کرنا پڑتی ہیں اور میں جب گھر سے باہر نکلتی ہوں تو میرے وجود پر پڑنے والی کیسی کیسی نظریں مجھے خوفزدہ ہی نہیں کرتیں میری خوداعتمادی کو بھی تار کردیتی ہیں اکثر بس کے انتظار میں جب گھنٹوں سٹاپ پر کھڑا ہونا پڑتا ہے تو ارد گرد موجود مرد گھورنے لگتے ہیں اگر میں نظر انداز کرکے ایک طرف کھڑی ہوجاﺅں تو وہ بھی فوراً اسی سمت میں آکرکوئی جملہ کَس دیتے ہیں،اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو یہ قرین آنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 16 سے45 برس تک کی خواتین دوران سفر کسی نہ کسی انداز میں ہراسمنٹ کا شکارہوتی ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب لڑکیاں کسی شخص کے خلاف شکایت کرتی ہیں تو ان سے ثبوت مانگا جاتا ہے اب آپ خود سوچیں اگر کوئی مرد کسی عورت کو گھور کر دیکھتا ہے یا اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا ثبوت کیسے دیا جاسکتا ہے یہ تو قوانین کے نگہبانوں کا فرض ہے کہ سڑک پر چلتی خواتین کو ایسے گھناﺅنی سوچ کے مالک مردوں سے تحفظ فراہم کریں۔
نقل و حمل کے مہنگے ذرائع بھی غیر محفوظ:یہ حقیقت ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بسوں اور لوکل ٹرینوں پر سفر کرنا خواری سے کم نہیں مگر یہ سستے ذرائع آمدورفت بھی ہیں اگر رکشہ یا ٹیکسی کا انتخاب کیا جائے تو مہنگا تو ہے مگر کسی حد تک محفوظ ہے اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں بعض اوقات رکشہ ڈرائیور بھی سامنے لگے شیشوں میں سے خواتین سواریوں کو گھور کر خوفزدہ کرتے ہیں اگر کوئی اکیلی خاتون سواری بیٹھی ہو تو اس سے بلاوجہ باتیں کرنے لگتے ہیں بے تکے سوال و جواب سے اپنی طرف متوجہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

میڈیا سٹڈیز کی طالبہ فائزہ امجد کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں ڈیوس روڈسے فیصل ٹاﺅن آرہی تھی رکشہ ڈرائیور دیکھنے میں تو مہذب تھا مگر خواہ مخواہ میرے ساتھ بے تکلف ہونے کی کوشش کرنے لگا اسے پتہ تھا راستہ طویل ہے اس لئے اکیلی لڑکی خوفزدہ ہوکر بیٹھی رہے گی الٹے سیدھے سوال پوچھنے لگا آپ کیا کرتی ہیں نوکری کرتی ہیں یا پڑھتی ہیں روز اسی راستے سے جاتی ہیں میں خاصی پریشان ہوگئی کیونکہ اس کے سوالوں سے زیادہ مجھے اس کی نظریں خوفزدہ کررہی تھیں جو وقتاً فوقتاً اپنے سامنے والے شیشے سے مجھ پر ڈالتا تھا پھر میں نے ہمت کرکے اسے خاموش کروادیا اور کہا کہ سامنے دیکھ کر رکشہ چلاﺅ زبان نہیں اگر تم نے مجھ سے مزید باتیں کی تو یاد رکھنا میں میڈیا میں ہوں ابھی تمہاری دو تصویریں کھینچ کررپورٹ کردوں گی اور تمہارا رکشہ اور لائسنس دونوں ضبط کرلیے جائیں گے اس لیے اپنی خیر چاہتے ہوں تو اپنے کام سے کام رکھو۔

۔بس پھر اس کے بعد اس کی مجھ سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔اگر بس اور رکشے کی بجائے ٹیکسی کا سہارا لیاجائے تو اس میں بھی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور ایک لڑکی کا ٹیکسی میں اکیلے سفر کرنا کسی ڈرائیور کی نیت میں فتور کا باعث ہوسکتا ہے۔چونکہ یہ ٹیکسیاں باقاعدہ کمپنیوں کے نام سے چلتی ہیںاس لئے خواتین کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ اطمنیان ضرور ہوتا ہے کہ ان کی حفاظت کمپنی کہ ذمہ داری ہے اس لئے وہ پر اعتماد ہوکر ٹیکسی میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں ایک ایڈورٹائیزنگ ایجنسی میں کام کرنے والی علینہ عالی بتاتی ہیں جب سے آن لائن ٹیکسی سروس کا آغاز ہوا ہے میری سڑکوں پر خواری سے جان چھوٹ گئی ہیں جب بھی کہیں بھی جانا ہوتا ہے تو میں آن لائن ٹیکسی منگوالیتی ۔

ایک دن مجھے اپنی فرینڈز کے ساتھ کہیں کھانے پر جانا تھا وہ لوگ ریسٹورینٹ پر میرا انتظار کررہی تھیں کہ عجیب مصیبت میں پھنس گئی ہوا یوں کہ میں نے آن لائن نقشے میں اس ریسٹورینٹ کا شارٹ کٹ راستہ واضح کردیا تھامگر اس ٹیسکی کا ڈرائیور جس کی عمر تقریباً پچین چھبیس سال تھیں مجھے بار بار پوچھنے لگا آپ کس راستے سے جانا پسند کروں گی مجھے اس کا سوال کچھ عجیب سا لگا میں نے اسے نسبتاً سخت لہجے میں کہا کہ میں نے جو راستہ بتایا ہے اسی راستے سے لے کر جاﺅ وہ اسرار کرنے لگا تو میں نے ڈانٹ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جان بوجھ کر لمبے راستے سے چلنے لگا،اب اس نے اپنے سامنے والا شیشہ اس طرح سیٹ کرلیا کہ اسے پیچھے دیکھنے میںآسانی ہو اچانک میری نظر پڑی تو وہ سامنے دیکھ کر گاڑی چلانے کی بجائے عجیب نظروں سے مجھے گھوررہا تھا میوزک پہلے ہی آن تھا میں خوفزدہ ہوگئی اس کی اس حرکت سے کیونکہ گاڑی کے شیشے مکمل طور پر بند تھے میں سوچنے لگی اگر اس نے گاڑی کو اندر سے لاک کردیا اور کسی غلط راستے پر گاڑی لے گیا تو میں کیا کروں گی؟میں یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اسے میرے خوف کہ اندازہ ہوگیا تو یہ مجھے مزید ڈرانے کی کوشش بھی ضرور کرے گا اس لئے میں نے اپنا فون سائلنٹ پر لگا کر فون پر کسی فرینڈ سے بات کرنے کی ایکٹنگ شروع کردیا اور اسے بتانے لگی کہ میں اس وقت کہاں سے گزر رہی ہوں اور کتنی دیر میں اس کے پاس پہنچ جاﺅں گی اب چونکہ راستہ طویل تھا اس لئے میں نے فون بند کردیاڈرائیور اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا اور مسلسل شیشوں سے مجھے گھورتا رہا اب میں نے اسے نظر انداز کرکے دوبارہ اپنے موبائل میں نظر یں گاڑ لیں اتنے میں اس نے کچھ غیر مہذب گفتگو کی ریکارڈنگ چلادی مجھے ایک دم سے جھٹکا لگا میں خوفزدہ ہوگئی لیکن میں نے اسے انتہائی غصے میں ٹیپ بند کرنے کو کہا تھوڑی دیر ٹیپ بند رکھنے کے بعد اس نے وہی ریکارڈنگ دوبارہ چلادی اس ب بار میں نے اسے پہلے سے بھی زیادہ سختی سے منع کیااور ٹیپ بند کروائی اب مجھے یہ خوف تھا کہ اگر میں کہیں اسے بیچ راستے میں گاڑی بند کرنے کا کہوں گی تو کہیں وہ کوئی مزاحمتی کاروائی نہ کردے اس لئے میں نے خاموشی سے مطلوبہ لوکیشن پر جانے ہی میں عافیت سمجھی جس سے ڈرائیور کو یہ تاثر ملا کہ میں اس کی کسی حرکت سے خوفزدہ نہیں ہوں جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی بہر حال اللہ اللہ کرکے میں ریسٹورینٹ تک پہنچی جہاں میری فرینڈز کھانے پر میری منتظر تھیں میں نے کرایہ ادا کیا اور گاڑی سے نکل کر سب سے ٹیکسی سروس میں اس کے خلاف شکایت درج کروائی اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ اس ڈرائیور کو نوکری سے نکال دیں ۔

۔۔بس پھر اس دن کے بعد سے میں اب پہلے کی طرح سڑکوں پر بسوں اور رکشوں کی خواری برداشت کرنے پر مجبور ہوں۔سمجھ نہیں آتی ہمارے ملک میں خواتین کب تک ان معاشرتی بھیڑیوں سے خود کو بچاتے ہوئے خود اعتمادی سے آگے بڑھیں گی اس واقعے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے لیکن زندگی تو چلتی رہتی ہے اب میں اس خوف سے گھر سے نکلنا تو نہیں چھوڑسکتی۔
آمدورفت کی مشکلات سے نجات کیسے:حکومت کا فرض ہے کہ خواتین کو محفوظ اور سستی سفری سہولیات فراہم کرے۔

اس وقت خواتین کو جو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی گئی ہیں وہ انتہائی ناکافی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اور نوجوان لڑکیاں ذرائع آمدورفت کی خواری کے باعث اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتیں اگر تعلیم مکمل کر بھی لیں تو انہیں گھر وں سے نوکری کی اجازت نہیںملتی اب وہ وقت تو رہا نہیںکہ خواتین گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں اور ملکی معیشیت میں اپنا افعال کردار ادا نہ کریں اس لئے بہتر ہے کہ خواتین کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کیا جائے کیونکہ اگر خواتین انہی روز مرہ مسائل میں الجھی رہیں گی تو اپنے متعلقہ شعبے میں اپنی اچھی کارکردگی کیسے ظاہر کریں گی؟حکومت کا چاہیے کہ ان کی ضروریات کے مطابق انہیں محفوظ ذرائع آمدورفت فراہم کرکے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کرے اور اگر انہیں کسی طرح کے خوف یا ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑے تو فوراً ملزمان کو سزا دی جائے نہ کہ حیل و حجت سے کام لیا جائے بلکہ ایسی کسی شکایت کی صورت میں متعلقہ کمپنی یا ڈرائیور کا لائسنس کینسل کردیا جائے!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

nai services ky bawjood transport khawateen ka barha masla is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 March 2018 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.