متاثرین سیلاب

حکومتی اقدامات کے برعکس حافظ آباد کے علاقہ ونیکے تارڑ سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں سینکڑوں متاثرین ایسے ہیں جنہوں نے زرعی اراضی لاکھوں روپے کے عوض ٹھیکہ یا حصہ پر لے کر وہاں دھان، گنا، تِل، سبزیاں ، تربوز اور دیگر فصلیں کاشت کیں

منگل 21 اکتوبر 2014

Mutasreen e Selaab
طارق شاہد ستّی:
حافظ آباد سے لے کر جھنگ تک دریائے چناب کے کنارے ہزاروں دیہات میں سیلاب سے لاکھوں ایکڑ پر فصلیں،مکانات تبا ہ ہوئے کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،اس کے ساتھ جہاں متاثرین سیلاب قیمتی مال مویشی سے محروم ہوئے وہیں زراعت سے وابستہ سیلاب متاثرین اپنے اہلخانہ کو ایک وقت کی روٹی فراہم کرنے سے بھی قاصر ہوگئے۔

ان مشکل ترین حالات میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی فوری امداد اور بحالی کے لئے ہنگامی اقدامات کئے اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو متاثرین کی ہر ممکن مدد کی ہدایات دیں اور متاثرین کے نقصانات کے ازالے کے لئے حکام سے سروے بھی کرایا گیا۔عیدالضحٰی کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نماز عید کوٹ سلیم میں قائم خیمہ بستی کے متاثرین کے ساتھ ادا کی اور ان میں امدادی رقوم کے چیک تقسیم کئے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وفاقی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے ذاتی طور پر فی خاندان کو 2500 روپے عیدی بھی دی۔ان تمام حکومتی اقدامات کے برعکس حافظ آباد کے علاقہ ونیکے تارڑ سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں سینکڑوں متاثرین ایسے ہیں جنہوں نے زرعی اراضی لاکھوں روپے کے عوض ٹھیکہ یا حصہ پر لے کر وہاں دھان، گنا، تِل، سبزیاں ، تربوز اور دیگر فصلیں کاشت کیں لیکن یہ سب کچھ تباہ ہو نے کے ساتھ ان کی زرعی مشینری، مال مویشی بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئے لیکن یہ آج بھی بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں سروے کرنیوالی حکومتی ٹیموں نے متاثرین میں شامل ہی نہیں کیا۔

متاثرین کی مشکلات اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے کئے جانیوالےسروے میں بتایا گیا کہ حافظ آباد کے نواحی علاقہ سوئیانوالہ کے رہائشی 10بچوں کے باپ رفیق احمد نے ونیکے تارڑ سے ملحقہ علاقہ برج الہی میں دریا کنارے 60 ایکڑ زرعی اراضی ٹھیکہ پر لے رکھی تھی جس میں سے 14ایکڑ پر اس نے چاول، 6 ایکڑ پر تِل کاشت کر رکھے تھے، اور دیگر زمین پر سبزیاں کاشت کر رکھی تھیں۔

لیکن سیلاب سے اس کی فصلیں تباہ ہونے کے ساتھ وہاں تعمیر مکان بھی ریلے کی نذر ہوگیا، دو جانور بھی ہلاک ہو گئے لیکن 5 لاکھ روپے سے زائد نقصان کے باوجود وہ متعلقہ سروے کرنیوالوں کی نظر میں سیلاب متاثرہ نہیں تھا۔ جبکہ بہروپ گڑھ کی رہائشی محنت کش خواتین انور بی بی، اقبال بی بی اور کوٹلی دائم کے رہائشی ہدایت اللہ نے ڈیرہ مٹولاں میں تقریبا 9ایکڑ رقبہ ٹھیکہ پر لیااور وہاں پھلیاں، کریلے، ٹماٹر اور دیگر سبزیاں کاشت کیں تھیں۔

34سالہ یاسین عبدالمجید نے بھی 6ایکڑ پر تربوز، ٹینڈے اور دیگر سبزیاں کاشت کی تھیں لیکن سب کچھ تباہ ہونے کے باوجود ان کا بھی اندراج ہی نہیں کیا گیا۔ منیراں فاطمہ نامی خاتون نے بھڑی چٹھہ میں 4ایکڑ پر تربوز کاشت کر رکھا تھا جو سیلاب کی نذر ہوگیا۔ کوٹلی دائم کی رہائشی زبیدہ بی بی زوجہ عبدالرزاق کا بھی کہنا تھا کہ اس نے قرض لے کر 2 ایکڑ پر پھلیاں کاشت کیں تھیں، اب ریلیف کے لئے در بدر ہوں۔

باری، پیر کوٹ اور دیگر مقامات پر بھی ایسے متاثرین بیٹھے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔دوسری طرف کوٹ سلیم میں قائم خیمہ بستی کے مکینوں کے حالات بھی تباہی کی ان کہی کہانی سنا رہے ہیں۔ یہاں 70سالہ اکبر علی اپنی اہلیہ غلام صغریٰ، 7شادی شدہ بیٹوں ، ایک داماد ااور پوتے پوتیوں سمیت موجود تھاان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے 25،25ہزار روپے ملنے پر کچھ حد تک ریلیف ملا ہے۔

جبکہ بعض افراد شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث تا حال امداد سے محروم ہیں۔ سلیم کوٹ آبادی کی رہائشی عمر رسیدہ بیوہ مہراں بی بی کا خاوند سیلاب کے دوران جاں بحق ہونے پر پنجاب حکومت نے اس کو 16لاکھ روپے کا چیک دیا تھا جو آخری اطلاعات تک شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے کیش نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق مہراں بی بی کو ملنے والا چیک ایک مقامی با اثر زمیندار کے پاس ہے۔

علاوہ ازیں کوٹ سلیم کی رہائشی 3بچوں کی والدہ ساجدہ بی بی نامی خاتون نے بتایا کہ اس کا گھر بھی تباہ ہوگیا اور اس وقت سے وہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں کوٹلی دائم میں رہائش پذیر ہے۔ میرا نام تو درج کر لیا گیا تھا مگر امداد ابھی تک نہیں ملی۔واضح رہے چند روز قبل ہی وزیراعظم نوازشریف نے جھنگ کے سیلاب متاثرہ علاقے بستی جنڈیانہ خانوآنہ آباد میں متاثرین میں امدادی رقوم کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آخری سیلاب زدہ شخص کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ان کے نقصان کا مکمل ازالہ کیا جائے گا۔

جبکہ وزیراعظم نواز شریف جیسے ہی تقریب سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر واپس روانہ ہوئے تو وہاں متاثرین میں تقسیم کے لئے لایا گیا سامان سے بھرا ٹرک بغیر تقسیم کئے انتظامیہ واپس لے گئی۔ یہ کوئی پہلا ایسا واقعہ نہیں تھا۔حکومت کو ایسے واقعات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ اراضی ٹھیکہ پر لے کر کھیتی باڑی کرنیوالوں کو سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کا بھی ازالہ کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mutasreen e Selaab is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 October 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.