موٹروے اور پاکستان

پاکستان میں ہر اگلے مارشل لاء تک جمہوریت مضبوط ہوتی رہتی ہے اور ہر ”پولیس مقابلے “ تک پولیس کی ساکھ آسمان کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ہر مرتبہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ سیاسی عمل اور آئین کی بالا دستی کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ کئی سال کی بنائی ہوئی ساکھ کا چند لمحوں میں جنازہ نکل جاتا ہے۔ یوں تو موجودہ حکومت کے اختیارات سے متعلق پہلے بھی کسی کو خوش فہمی نہ تھی، موٹروے پولیس اور فوجی اہلکاروں کے درمیان ” معمولی جھگڑے “ نے صورتحال مزید واضح کردی ہے

متیع اللہ جان جمعہ 23 ستمبر 2016

Motorway Or Pakistan
پاکستان میں ہر اگلے مارشل لاء تک جمہوریت مضبوط ہوتی رہتی ہے اور ہر ”پولیس مقابلے “ تک پولیس کی ساکھ آسمان کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ہر مرتبہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ سیاسی عمل اور آئین کی بالا دستی کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ کئی سال کی بنائی ہوئی ساکھ کا چند لمحوں میں جنازہ نکل جاتا ہے۔ یوں تو موجودہ حکومت کے اختیارات سے متعلق پہلے بھی کسی کو خوش فہمی نہ تھی، موٹروے پولیس اور فوجی اہلکاروں کے درمیان ” معمولی جھگڑے “ نے صورتحال مزید واضح کردی ہے۔

اس واقعہ پر حکومت خاص کر وزرات داخلہ اور وزرات دفاع کے علاوہ فوج کے ترجمان کے ردعمل نے جمہوری حکومت اور قانون کی بالا دستی کے دعووٴں کی قلعی کھول دی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت یعنی وزرات داخلہ یا وزرات دفاع واقعہ میں ملوث ملزمان (چاہے کسی رنگ کی وردی والے ہوں) کو گرفتار کر کے اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کرتی مگر ہوا یہ کہ حکومت کے بجائے واقعہ میں ملوث فوجی اہلکاروں کے ادارے نے تحقیقات کا اعلان کرکے انصاف دینے کا وعدہ کر لیا۔

(جاری ہے)

مگر دوسری طرف اس واقعہ کے بعد ہماری حکومت اور وازرت داخلہ کو تو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا۔ چوہدری نثار علی خان جو اپنی پولیس فورس کی تعریف اور بیک وقت احتساب کرتے نہیں تھکتے منظر سے ایسے غائب ہوئے کہ جیسے کہہ رہے ہوں ” یا اللہ یا رسول ! چوہدری نثار بے قصور “۔ جب سیاسی قیادت اور حکومت اپنے ماتحت افسران کو درپیش مشکل وقت میں پیٹھ دکھائے گی تو پھر چند پولیس افسروں کی حکم عدولی او ر پیٹھ دکھانے کے الزام میں برطرفی کیسی۔

پہلے تو آپ اپنے تقریباتی خطبوں میں پولیس افسران کو قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے کیلئے اکساتے ہیں اور جب ایسا کرتے ہوئے موٹروے پولیس کے اہلکار رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں تو آپ انجان بن کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ '' میرا یہ مطلب تو نہیں تھا ''۔ بہرحال اب جبکہ واقعہ کی تحقیقات اور انصاف دینے کا اعلان کر دیا ہے تو وزیر داخلہ کو چاہیے کہ وہ شاہراہ دستور سے نکل کر مال روڈ پر قائم ڈی جی آئی ایس پی آر کے دفتر کے باہر فوج کی تحقیقات اور رپورٹ مکمل ہونے کا انتظار کریں اور پھر اس پر فوری عمل درآمد بھی کروائیں۔

تب تک فوج کے معاملات میں کار سرکار کے ذریعے مداخلت کے جرم میں موٹروے پولیس کے ملزم اہلکاروں کو معطل کر دیا جائے۔ آخر ان پولیس اہلکاروں نے یہ کیوں سمجھا کہ موٹروے پاکستان کو حصہ نہیں۔ ایسے پولیس اہلکار پاک چین اقتصادی شاہراہ بننے کے بعد نجانے کیا گل کھلائیں گے۔ اچھی وردی پہن لینے اور اچھی تنخواوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ اڑتے تیر کو پکڑنے کی کوشش کریں۔

موٹروے پولیس والے باقاعدگی سے اخبارات پڑھتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ انکے وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ بھی ایک ایسے ہی فوجی کمانڈو سے پنگا کر کے پچھتا رہے ہیں۔
آئین سے سنگین غداری کے الزام میں فوجی کمانڈو جنرل مشرف کیخلاف مقدمہ شروع تو کیا مگر پھر انہیں اپنے ہاتھ سے لندن کے جہاز پر بٹھا کر اپنی جان چھڑائی جنرل مشرف پر بھی اسلام آباد میں شاہراہ دستور اور شاہراہ جمہوریت کے سنگم پر سرخ بتی توڑنے کا الزام تھا اور پھر شاہراہ دستور کی موٹروے پولیس اپنی ہی موٹروے کے ذریعے فرار ہو گئی۔

اس وقت بھی حکومت اور عدلیہ نے سنگین غداری کا کیس ایک پن نکلے گرینیڈ کے مانند ایک دوسرے پر کئی ماہ تک اچھالنے کے بعد ایسا غائب کیا کہ جس کے پھٹنے کی آواز بھی نہیں نکلنے دی۔واقعہ چاہے جتنا بھی معمولی جھگڑا تھا یہ اتنا بھی معمولی نہیں تھا جو پاک فوج کے درجنوں کمانڈو اہلکاروں کے بغیر نمٹا دیا جاتا۔ یا پھر موٹروے پولیس کے تین اہلکاروں کو اٹک قلعے تک '' عزت و احترام '' کے ساتھ لے جانے کیلئے دو کمانڈو حضرات ہی انہیں '' قائل '' کر لیتے۔

فوجی اہلکاروں کا چالان اتنی بڑی خبر نہ ہوتی جتنی پولیس اہلکاروں کا '' چالان '' ہونے سے بن گئی۔ یوں بات وہی فلاسفر والی ہے کہ کسی بھی سانحے سے زیادہ اس ہر معاشرے کا ردعمل اہم ہوتا ہے۔ اس واقعے پر بھی حکومت اور فوج کے ادارے کے علاوہ عوامی ردعمل خطرناک رجحانات کا پتہ دے رہا ہے۔ مثلاً پاک فوج کیلئے عوام کے دل میں کوٹ کوٹ کے بھری محبت کے باوجود فوج کے اندر عوام کی منتخب قیادت اور سیاسی عمل سے متعلق پہلے سے زیادہ اظہار رائے اور تنقید کی آزادی نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

فوج کے افسران اور اہلکاروں کی نجی گفتگو اور محافل میں سیاسی قیادت سے متعلق جو تلخی اب نظر آتی ہے وہ نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ اس رجحان کو فروغ دینے میں چار عناصر کار فرما ہیں۔ سب سے پہلے فوج کا ترجمان دفتر آئی ایس پی آر جو ہر آرمی چیف کو وزیر اعظم اور دوسری سیاسی قیادت سے زیادہ عوامی مقبولیت کی حامل شخصیت ثابت کرنے کی دانستہ اور نا دانستہ کوششوں میں لگا رہتا ہے۔

مثلا یہ تاثر دینا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کامیاب اور حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے۔ دوسرا عنصر وہ ریٹائرڈ جرنیل و سابق فوجی افسران ہیں جو تسلسل سے سیاسی حکومتوں اور سیاسی عمل کو اپنی گولہ زبانی کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ '' ریاست بچاوٴ اصول '' کے تحت فوج کوئی بھی ماوراء آئین و قانون اقدام اٹھانے کا حق رکھتی ہے۔

تیسرا عنصر میڈیا میں '' حوالدار اینکر '' حضرات ہیں جو مندرجہ بالا عناصر اور انکی بیانیہ کو بغیر سوال کے فروغ دیتے ہیں۔ اور فوج میں سیاسی عمل کیخلاف نفرت کو فروغ دینے والا چوتھا عنصر وہ سیاسی یتیم ہیں جو شاہراہ دستور پر گزرنے والی ہر فوجی جیپ اور فوجی ٹرک کو اشارے کرنے کے باز نہیں آتے۔ ان عناصر کے اس پراپیگنڈے کا اثر براہ راست فوج کے سپاہی سے لے کر جرنیل کی سوچ اور گفتگو پر ہوتا ہے۔

روایتی طور پر فوجی اہلکار نجی محفلوں میں سیاسی قیادت سے متعلق ایسی جارحانہ گفتگو نہیں کرتے تھے جو آج کل ہو رہی ہے۔ اسی طرح سماجی میڈیا پر بھی فوجی افسران اپنی اصلی اور نقلی شناخت کے ساتھ جو گفتگو کرتے ہیں وہ خود فوج کے ڈسپلن کے خلاف ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو فوری طور پر ان خطرناک رجحانات کو سدباب کرنا ہو گا جو آئین کے تحت وفاقی حکومت کے فوج پر مکمل کمانڈ اینڈ کنٹرول کا بنیادی تقاضہ ہے۔

دوسری صورت میں تازہ ترین واقعے جیسے مزید واقعات صورتحال کو مزید گھمبیر بنا سکتے ہیں۔ ہمیں بند گلی دستور سے نکل کر شاہراہ دستور پر آئین کی بالا دستی کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔جس کیلئے تازہ ترین واقعے کی تحقیقات اور کارروائی کے ذریعے کسی ادارے کی نہیں بلکہ قانون کی بالادستی ثابت کرنا لازمی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Motorway Or Pakistan is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 September 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.