مردم شماری اور انتخابات

قومی سیاسی افق پر جاری بحثوں سے قطع نظر سپریم کورٹ کا ایک حکم انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو نہ صرف قومی و صوبائی سیاست پر اثر انداز ہوگا بلکہ شہری سندھ کی سیاست پر خاص طور پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے از خود کارروائی کرتے ہوئے حکومت کو ملک میں فوج کی نگرانی میں نئی مردم شماری کروانے کا حکم دیا ہے کیونکہ ملک میں مردم شماری ہوئے 17 برس بیت چکے ہیں۔ مردم شماری رواں سال مارچ میں ہو جانی چاہیے تھی

بدھ 2 نومبر 2016

Mardam Shumar Or Intekhabat
قومی سیاسی افق پر جاری بحثوں سے قطع نظر سپریم کورٹ کا ایک حکم انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو نہ صرف قومی و صوبائی سیاست پر اثر انداز ہوگا بلکہ شہری سندھ کی سیاست پر خاص طور پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے از خود کارروائی کرتے ہوئے حکومت کو ملک میں فوج کی نگرانی میں نئی مردم شماری کروانے کا حکم دیا ہے کیونکہ ملک میں مردم شماری ہوئے 17 برس بیت چکے ہیں۔

مردم شماری رواں سال مارچ میں ہو جانی چاہیے تھی لیکن اب وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو جواب دیا گیا ہے کہ آئندہ برس مارچ اپریل سے پہلے مردم شماری کروانا ممکن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کو حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اگر فوج نے مردم شماری کے عمل کی نگرانی اور عملے کے تحفظ کے لیے ایک لاکھ 67 ہزار فوجی فراہم نہ کیے تو مردم شماری میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ فوج آپریشن ضرب عضب اور اپنی دوسری ذمہ داریوں میں مصروف ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ بلوچستان میں ایسے افغان مہاجرین کی تعداد کافی زیادہ ہے جن کے پاس جعلی شناختی کارڈز موجود ہیں جو اب تک منسوخ نہیں کیے جا سکے ہیں۔ اگر ان افغان مہاجرین کو بھی مردم شماری میں شامل کر لیا گیا تو بلوچستان کی لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد میں کافی فرق پڑ جائے گا اور مردم شماری کے صحیح نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

مردم شماری پر 14.5 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے جسے دو لاکھ افراد کریں گے۔ تاہم فاضل عدالت کے جج صاحبان حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے عذر سے متاثر نہ ہوئے اور چیف جسٹس جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس سبز کتاب (آئین) کو خوبصورتی سے سجا کر بھول جانے کے لیے طاق میں رکھ دیا ہے ہمیں ہر قیمت پر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی فکر ہے۔

توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت کی جانب سے عدالت کے سامنے موسم سرما کی شدت کا بہانہ پیش کرتے ہوئے مارچ اپریل سے پہلے مردم شماری نا ممکن قرار دی جائے۔ یہ صحیح ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں شدید سردی، بارشیں اور برف باری ہوتی ہے لیکن ملک کے جنوبی علاقوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ اگر فاضل عدالت حکم دے تو دسمبر یا جنوری میں ہی کراچی میں مردم شماری کروائی جا سکتی ہے۔

اگر ضلع یا ڈویڑن کی سطح پر مردم شماری کروائی جائے تو مارچ تک مردم شماری کا عمل بہت آرام سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ فوج کی نگرانی میں مردم شماری کرانے کی وجہ یہ ہے کہ 1990ء کی دھائی میں کرائی جانے والی مردم شماری کے ایسے ہوشربا نتائج سامنے آئے تھے کہ انہیں مسترد کرنا پڑا تھا۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو جو جوابات دیے جا رہے ہیں اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ منتخب حکومت 2018ء کے انتخابات سے پہلے مردم شماری سے گریز کو اپنے حق میں بہتر سمجھ رہی ہے کیونکہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا اور ملک بھر میں نئی حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی۔

ہو سکتا ہے کہ مردم شماری کے نتائج میں یہ بات سامنے آئے کہ سندھ کی شہری آبادی، دیہی آبادی سے بڑھ گئی ہو یا کم از کم برابر ہو گئی ہے۔ ڈیموگرافی میں بڑی تبدیلیوں کا اثر ملک کے بڑے شہروں اور خاص طور پر کراچی کی سیاست پر بھر پور انداز سے اثر انداز ہوگا کیونکہ بدامنی کے باوجود حالیہ برسوں میں ملک کے دوسرے علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ کراچی میں آکر آباد ہوئے ہیں۔

دوسرا یہ کہ شہری سندھ کی نئی سیاسی صورتحال میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے لیے شہری سندھ میں پہلے جیسی اکثریت حاصل کرنا اب ناممکن نظر آ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی دھڑے بندیوں کے بعد کراچی ایک ایسے شہر کے طور پر سامنے آ سکتا ہے جس کی نمائندگی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ ملک میں تبدیلی کے نعرے بہت عرصے سے لگائے جا رہے ہیں لیکن ملک کی سیاسی قیادت میں تبدیلی محض مردم شماری کے نتیجے میں نہیں آئے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انتخابی اصلاحات بھی نافذ کرنا ہوں گی۔

جس کے لیے الیکشن کمیشن کے نمائندوں کو گزشتہ الیکشن کی طرح کی ڈرامے بازیوں اور امیدواروں سے غیر ضروری سوالات پوچھ کر ان کا سرعام مذاق اڑانے کے بجائے بدعنوان امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر الیکشن کمیشن کے نمائندوں نے کاغذات نامزدگی قبول کرتے وقت امیدواروں سے مخول کرنے کے بجائے ان کے امین اور صادق ہونے کی آئینی شق کو پیش نظر رکھ کر کام کیا ہوتا تو آج تحریک انصاف کے رہنما عمران خان وزیر اعظم نواز شریف کی بدعنوانیوں کے خلاف تحریک شروع کرنے اور 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی مہم کا اعلان نہ کر رہے ہوتے اور نہ ہی سپریم کورٹ کو پانامہ پیپرز اور آف شور کمپنیوں کے اسکینڈل پر جوابدہی کے لیے نوٹس جاری کرنے پڑتے۔

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے جدید نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ مبینہ طور پر تمام سیاسی جماعتیں خود ہی ہیں کیونکہ جس کا جہاں زور چلتا ہے وہ وہاں جعلی ووٹ ڈالواتا رہا ہے۔ تاہم گزشتہ عام انتخابات میں ٹی وی چینلز پر سب سے زیادہ ہنگامہ الطاف حسین والی ایم کیو ایم کے خلاف ہی مچایا جاتا رہا۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ جب عمران خان کے شدید احتجاج اور اسلام آباد میں طویل دھرنے کے بعد مطالبے کے مطابق چار حلقوں کے ووٹوں کے تھیلے کھلوائے گئے تو ان سے ہزاروں کی تعداد میں جعلی ووٹ برآمد ہوئے۔

اس صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن، پولیس، انتظامیہ اور سیاسی قائدین ٹھپہ مافیا اور جعلی ووٹ کا راستہ روکنے کے لیے عملاً تیار نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2013ء کے عام انتخابات میں (جعلی ووٹوں سمیت) 55 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ تھی جس میں سے تقریباً 4 کروڑ 22 لاکھ ووٹ ڈالے گئے اور حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو ایک کروڑ 47 لاکھ ووٹ ملے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر کے 7 کروڑ سے زیادہ ووٹرز نے نواز شریف کی مسلم لیگ کو ووٹ دینا پسند نہیں کیا۔ اس صورتحال کے باوجود نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے حامل وزیر اعظم ہیں اور پارلیمان پر ان کے اعتماد کا حال یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی ہی اسمبلی کی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور اجلاس میں ان کی شرکت بھی ایک بڑی خبر بن جاتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ کے کئی کامیاب ماڈل موجود ہیں جن میں سے کسی ایک ماڈل کو اپنا کر پاکستان میں بھی کامیاب انتخابات کروانا ممکن ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب منگولیا جیسے پسماندہ ملک میں بایو میٹرک سسٹم سے ووٹر کی شناخت اور بیلٹ پیپرز کی اسکیننگ کے نظام کے ساتھ کامیاب انتخابات کروائے جا سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں ایسا نظام لا کر انتخابی دھاندلیوں کا راستہ کیوں نہیں روکا جا سکتا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mardam Shumar Or Intekhabat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.