لیاقت علی خان، سیاسی رہبر

پاکستان کی69 سالہ قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ اپنے اندر ایک المناک پہلو لئے ہوئے ہے۔ رنج و الم کی اس داستان کا آغاز16اکتوبر1951ءکی تاریخ سے ہوا ہے، جس روز لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا۔

پیر 16 اکتوبر 2017

Liaquat Ali Khan Siyasi Rehbar
محمد عارف شاہ:
پاکستان کی69 سالہ قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ اپنے اندر ایک المناک پہلو لئے ہوئے ہے۔ رنج و الم کی اس داستان کا آغاز16اکتوبر1951ءکی تاریخ سے ہوا ہے، جس روز لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا۔نواب زادہ لیاقت علی خان کا شمار ہندوستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا، وہ نا صرف صاحب ثروت تھے بلکہ جہاں بینی کی تعلیم و تربیت سے بھی کلی طور پر آراستہ تھے۔

صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی ان کی آمد اور قیام کو عزت افزائی تصور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی شاہانہ زندگی کو ملی بد حالی کی بنیاد پر ترک کرکے ملت اسلامیہ کی کشتی کو کنارے لگانے کے لئے جس عزم ک اعلان کیا اس کی تکمیل کی جد جہد میں اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی۔

(جاری ہے)

اپنے خاندانی پس منظر اور جاہ و حشمت کی بنیاد پر وہ کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستگی اختیار کرتے تو درجہ کمال کو پہنچتے یا اگر انگریزوں سے وفاداری کرتے تو”سر“ لیاقت علی خان کا خطاب پاتے، لیکن انہوں نے عملاً اس کے برعکس ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا کہ جس پر چل کر گوہر منزل پانے کے بعد بھی صرف بے یقینی تھی، اس لئے کہ سیاست کا یہی مزاج اور چلن رہا ہے کہ یہ کبھی تو انسان کو اوج ثریا پر پہنچا دیتی ہے اور کبھی خاک نشین ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔

انسان فطرتاً انتہائی خود غرض واقع ہوا ہے، قائد ملت کی شخصیت و حیات اور سماجی کردار اس کے برعکس تھا۔ انہوں نے نا صرف اپنی طرز زندگی کے ضمن میں ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا بلکہ قوم کیلئے منزل کے حصول کی تگ ودو میں عیش و آرام کی زندگی اور اپنی دولت کو بھی لٹا دیا۔ جس کی پاکستان میں کوئی مثال سامنے نہیں آتی۔ شہید ملت کے بعدملک و قوم کو رہبر و رہنما نہ مل سکے۔

موثر قیادت کا میسر آنا ہی بنیادی طور پر کسی بھی قوم کی وحدت اور ہئیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ اس اصول اور کرشمے کی بھی گواہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور عظیم تحریکوں کے پیچھے جہاں ایک مستند نظریہ کار فرما رہا ہے وہاں وہ ایک موثر رہنما کی بھی اہمیت لازم ہے۔ باالفاظ دیگر موثر رہنما کے بغیر کسی قوم کی تاریخ ہے اور نہ ہی جغرافیہ، جس قوم کو اچھے قائد میسر نہ رہے گویا اس نے اپنا تشخص مٹا دیا۔

پاکستانی قوم کیلئے شہید ملت کا قائدانہ کردار بھی باعث فخر تھا، وہ برصغیر کے مسلمانوں کے ہر دل عزیز اور محبوب رہنما تھے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستانی عوام کیلئے کرشماتی سیاسی قائد تھے، آپ نے قوم کیلئے صحیح معنوں میں امیری میں فقیری پیدا کی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں ایک نئی امنگ ، ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کردیا تھا۔

قائد ملت نے اپنے دور میں متعدد کار ہائے نمایاں انجام دیئے آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ملکی معاملات چلائے اور پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا، جس کی پوری دنیا قائل ہے۔ آپ کے دور میں کھانے پینے کی اشیاءوافر مقدار میں اور سستی دست یاب رہیں، روزگار کے بے شمار مواقعے تھے، بیروزگاری کا نام و نشاں تک نہ تھا، قوم خوشحالی کی طرف گامزن تھی۔قائد ملت نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کرا کے پاکستان کا مقصد اور مقدر طے کردیا تھا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے جو اصول آپ نے مرتب کیے تھے آج تک تمام حکومتیں اسی پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہوں نے امریکا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے تھے۔ اسی لئے اس وقت کا صدر امریکہ انہیں ایئرپورٹ سے لینے خود گیا تھا، بعد میں امریکہ کا صدر پاکستان کے کسی وزیراعظم یا صدر کو لینے نہیں گیا۔ کیونکہ پاکستان کو ایک طفیلی اور مقروض ملک بنا دیا گیا اور اسی حیثیت سے ہمارے سربراہ امریکہ جاتے ہیں۔

وہ سیاسی اصولوں کے امین تھے، اسلامی سیاسی فکر کا بھرپور ادراک رکھتے تھے۔ ایک اسلامی فلاحی مملکت کے رہنما کی حیثیت سے قومی وحدت، سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کیلئے دن رات ایک کرتے رہے، اس کے ساتھ ساتھ مملکت کے معروضی حالات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ لسانی و گروہی اختلافات، ذیلی قومیتوں کی آپس کی کشمکش، ایک دوسرے کا استحصال کو دور کر کے قیام پاکستان کے مقاصد اور قومی وحدت آپ کی اولین ترجیحات رہیں۔

آپ کو کامل یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ ان تمام گھمبیر مسائل کا حل تلاش کر لیں گے اور پاکستان دنیا کی چند مثالی ریاستوں میں سے ایک ہوگا ۔ لیکن افسوس، صد افسوس کہ ملک و قوم کے دشمنوں کو قائد ملت کا یہ قومی کردار ایک آنکھ نہ بھایا، چنانچہ یہود و ہنود نے میر جعفر اور میر صادق پیدا کر کے سازشیں کیں جو ایک دفعہ ناکام ہوئیں لیکن دوسری دفعہ وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے اور 16اکتوبر 1951ءکو ان کو شہید کردیا گیا۔

کچھ محبتیں لازوال ہوتی ہیں اور وہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ نظام قدرت ایسی محبتوں کو اپنے اشاروں اور اپنی علامتوں کے ذریعے آشکار کرتا رہتا ہے۔ سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں، دیکھنے والی آنکھ دیکھ لیتی ہے لیکن جنہیں نہیں سمجھنا وہ نہیں سمجھتے اور جنہیں تمسخر اڑانا ہے وہ تمسخر اڑا تے ہی رہتے ہیں۔ لازوال محبتیں کس طرح تاریخ کا حصہ بنتی اور کس طرح ظاہر ہوتی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ لیاقت عی خان کا اس سال یوم شہادت سولہ اکتوبر بروز پیر ہے۔

حیرت ہے کہ قیام پاکستان چودہ اگست،ولادت قائد اعظم 25دسمبر اور وفات قائداعظم 11ستمبر بھی پیر ہی کا دن ہے ۔ ہر سال ان واقعات کا دن ایک ہی ہوتا ہے اور یوں قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان کی پاکستان سے لازوال محبت پاکستان کے یوم آزادی سے ایک مستقل نسبت حاصل کرکے ہم اپنی تاریخ کو یاد کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Liaquat Ali Khan Siyasi Rehbar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 October 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.