کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی سازش

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جہاں ایک طرف تحریک آزادی اپنے عروج پر ہے تو دوسری طرف بھارت نے اس شورش زدہ ماحول میں اپنا سب سے مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

جمعرات 17 اگست 2017

Kashmir Ki Khasosi Hesiyat Khatam Kanry Ki Sazish
جی این بھٹ:
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جہاں ایک طرف تحریک آزادی اپنے عروج پر ہے تو دوسری طرف بھارت نے اس شورش زدہ ماحول میں اپنا سب سے مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ 70 برس کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کے کسی حکمران کو خواہ اس کا تعلق کانگریس سے ہو یا بھاجپا سے کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ہندوستانی آئین میں درج جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں دفعہ 370 اور ایکٹ 350 اے میں تبدیلی کے بارے میں سوچ بھی سکے کیونکہ انہی خصوصی اختیارات اور ریاست جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے عوض میں مہاراجہ کشمیر نے مجاہدین کشمیر کی کامیابیوں سے گھبرا کر بھارت سے الحاق قبول کیا تھا ورنہ مہاراجہ پاکستان کے ساتھ انہی بنیادوں پر الحاق مان چکا تھا مگر قبائلی حملے نے اسے ایسا ڈرایا کہ وہ اسے ہندو مسلم جنگ سمجھ کر جان اور ریاست بچانے کیلئے بھارت کی گود میں جا بیٹھا۔

(جاری ہے)

اس کام میں ہندو وزیر اور کانگریس کے رہنماءپیش پیش تھے جبکہ ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعظم پنڈت ہونے کے باوجود اعلان آزادی کے مطابق ریاست کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا پرجوش حامی تھا۔دفعہ 370 کے تحت بھارت سے الحاق کے باوجود کشمیری کا اپنا قومی پرچم ہوگا ،صدر ہوگا،وزیراعظم ہوگا، ترانہ ہوگا۔ طے پایا خارجہ، دفاع، مواصلات اور کرنسی بھارت کی ہوگی۔

یہ سلسلہ اندرا عبداللہ ریکارڈ تک جاری رہا مگر روایتی ہندو سامراج نے آہستہ آہستہ 1960ءتک پوری ریاست جموں و کشمیر میں اپنے غیرآئینی اقدامات کا سلسلہ دراز سے دراز کرکے دفعہ 370 کی اصل روح کو کچل دیا اور بالآخر انہی پے در پے غیرآئینی اقدامات کے نتیجہ میں آزاد ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا اور اسے بھارتی ریاست ڈیکلیئر کردیا۔

یوں صدر، وزیراعظم، پرچم اور ترانہ بھی جو کشمیریوں کی شناخت تھی ان سے چھین لی گئی۔ تاہم اس کے باوجود دفعہ 370 کو کشمیر اور بھارت کے درمیان تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل رہی اور ہر بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومتیں اس کو اپنے درمیان مضبوط رشتہ تسلیم کرتی رہیں۔ اگرچہ اب بھارت کی غیرآئینی اقدامات کی وجہ سے یہ صرف ایک بے جان وجود بن چکا ہے مگر پھر بھی اسکی بدولت بھارت کی آئین کے تحت کشمیر اور جموں کو ہندوستان میں جو علیحدہ شناخت اور حیثیت حاصل ہے وہ بھی کشمیریوں کیلئے بہت بڑا سہارا ہے ورنہ انہیں بھارت میں صرف ایک اقلیتی گروہ کی حیثیت ہوجاتی اور بھارت مکمل طور پر اسے ہضم کرچکا ہوتا اس لئے کشمیری ہمیشہ دفعہ 370 کو برقرار رکھنے کیلئے کمربستہ رہے۔

اس طرح دفعہ 350 اے کیخلاف بھی مودی انتہاپسند مسلم دشمن حکومت سرگرم ہے اسے بھی ختم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس ایکٹ کے تحت کوئی غیرکشمیری مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیداد خرید نہیں سکتا خواہ مسلمان ہو یا ہندو۔ اس پر ہندو بہت چیں پچیں ہیں مگر یہ دفعہ 350 اے کشمیریوں کیلئے کسی نعمت غیرمرقبہ سے کم نہیں کیونکہ اس کے تحت انہیں تحفظ حاصل ہے ورنہ وہ کب کے اقلیت میں بدل چکے ہوتے اور کشمیر پر ہندو قابض ہو چکے ہوتے۔

اس ایکٹ کے تحت اگر کوئی کشمیری لڑکی کسی غیرکشمیری سے شادی کرتی ہے خواہ ہندو ہو یا مسلمان وہ کشمیر میں جائیداد کے حق سے محروم ہوجاتی ہے، اسکی اولاد کو بطور کشمیری وہ مراعات حاصل نہیں رہتی جو کشمیریوں کو کشمیر میں حاصل ہیں۔ ملازمت اور تعلیم میں بھی اسے بطور کشمیری وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے جو اس وقت حاصل ہیں۔اب ان دو ہتھیاروں سے ہی کشمیری بھارت کے ساتھ مقابلہ کرکے اپنی خصوصی حیثیت اور شناخت بچائے ہوئے ہیں۔

ظاہر ہے اس سے بھارت کے مسلم دشمن ہندو حکمرانوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ اب کسی اور حکومت سے جو کام نہ ہوسکا وہ کام مودی سرکار نے نہایت چالاکی اور عیاری سے کرنا شروع کردیا ہے۔ اس وقت بھارتی سپریم کورٹ میں دو درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں سے ایک دفعہ 370 کے خاتمے اور دوسری ایکٹ 350 اے کے خاتمے کیلئے ہے۔ بظاہر یہ علیحدہ علیحدہ موضوع ہیں ایک کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کیلئے ہے تاکہ کشمیریوں کو انکے شناخت اور رعایتوں سے محروم کر دیا جائے۔

دوسری دفعہ 350 اے کیخلاف ہے کہ یہ کشمیری لڑکیوں، عورتوں پر ظلم ہے کہ وہ غیر کشمیری سے شادی کرکے کشمیری شہریت کھو دیتی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے دونوں درخواستوں کو یکجا کرکے ایک وسیع بنچ تشکیل دینے اور ان کی سماعت کا حکم دیا ہے۔ اس پر کشمیر کی ہنگامہ خیز صورتحال میں ایک اور بم پھٹ گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں بھڑک اٹھی ہیں عوام میں مزید اشتعال پھیل گیا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے عمر اور فاروق عبداللہ نے اپنی مخالف جماعت پی ڈی پی کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے پاس جاکر سیاسی لڑائی ایک طرف رکھ کر اس مسئلہ پر بات چیت کر کے دونوں نے حکومت ہند کو خبردار کیا ہے کہ دفعہ 370 اور 350 اے کے ساتھ چھیڑخانی کسی صورت برداشت نہیں ہوگی۔ حریت کانفرنس والے علیحدہ اس کیخلاف سراپا احتجاج ہیں‘ اسے کشمیریت اور کشمیر پر بھارت کی آخری ضرب قرار دے رہے ہیں۔

کیا بھارت جو ایک طرف حریت کانفرنس اور مجاہدین سے نبردآزما ہے اب سیاسی میدان میں یہ سیاسی طوفان برداشت کرپائے گا۔ لاکھوں کشمیری اپنی بقاءکیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں ان حالات میں پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بھی تبدیلی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ موجودہ وزیراعظم نے اپنی گزشتہ تقریر میںکشمیر کا خاص طور ذکر کیا اس لئے کہ وہ موجودہ صورتحال میں اپنے غیرملکی سفراءاور سفارتخانوں کو مزید متحرک کرینگے۔

عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو تباہ کرنے کی اس سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے اعلیٰ سطح کے ماہرین اور سفارتکاروں کو متحرک کریں گے یہ بہت نازک وقت ہے۔ چین کے ساتھ سکم کی سرحدوں پر بھارت چوٹ پر چوٹ کھا رہا ہے، الجھا ہوا ہے، کشمیر میں سات لاکھ فوج بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان کے پاس 1962 ءکی طرح کا سنہری موقع ہے جسے کھونا نہیں چاہئے ۔ مجاہدین آزادی کی مکمل سپورٹ کے ساتھ کشمیر کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔

عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اولیت دی جائے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو کشمیر میں رائے شماری کیلئے آمادہ کیا جائے تاکہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے۔ کشمیر کمیٹی کا ذکر ہی فضول ہے وہ لگی بندی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ ویسے بھی کشمیر کمیٹی میں کون سا کشمیری شامل ہے جو اس مسئلے میں دلچسپی رکھتا ہو بس عالمی اداروں میں کام تیز کریں، رائے شماری کی راہ ہموار کریں یہی پاکستان اور کشمیریوں کی بڑی کامیابی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir Ki Khasosi Hesiyat Khatam Kanry Ki Sazish is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 August 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.