جبری مشقت

بچوں سے جبری مشقت لئے جانے کے خلاف دنیا بھر میں کام کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو مشقت سے روک کر انکی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسے بچوں کو مشقت سے روک کر انہیں لا وارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔

پیر 23 اکتوبر 2017

Jaabri Mushakat
شہزادہ خالد:
بچوں سے جبری مشقت لئے جانے کے خلاف دنیا بھر میں کام کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو مشقت سے روک کر انکی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسے بچوں کو مشقت سے روک کر انہیں لا وارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔آئی ایل او کے کنونشنز میں بچوں سے جبری مشقت کے حوالے سے متعدد بار پاکستان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

مگر بچوں سے مشقت لینے پر پابندی کے حوالے سے منظور کئے جانے والے تمام قوانین سمیت پنجاب آرڈیننس2016 “ پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں ہوٹلوں ، فیکٹریوں ،ورکشاپس، چائے کے کھوکے ، دکانوں سمیت کاروباری مراکز پر بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے۔ خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں، خواتین اور ضعیف العمر افراد سمیت پورا خاندان مشقت میں لگا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

لاہور میں موجود تین ہزار سے زائد فیکٹریوں اور کارخانوں میں 16 برس سے کم عمر کے بچے مزدوری کر رہے ہیں۔ سبزی منڈی اور لاری اڈوں پر بھی دھڑلے سے بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے۔ قانون کا نفاذ کرانے والے محکمے بچوں سے مشقت لینے والے مافیا کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ عدالتوں اور تھانوں کے اعداد و شمار کے مطابق کارخانوں میں مشقت کرانے اور بھیک منگوانے کے لئے لاہور سے دو ہزار سے زائد بچوں کو اغواءکیا گیاہے۔

یوں لگتا ہے جیسے مذکورہ قانون صرف دنیا کو دکھانے کے لئے بنایا گیا ہے۔آرڈیننس کے مطابق آجر اپنے بالغ ملازم سے ایک دن میں آرام کے وقفے کے ایک گھنٹے کے لازمی دورانیے سمیت سات گھنٹو ںسے زائد اوقات کار سے ہر گز تجاوز نہیں کر سکتا ۔ بالغ افراد کے لئے شام سات بجے سے صبح آٹھ بجے کے دوران کام یا اوور ٹائم کی ممانعت ہے۔لیکن اس کے بر عکس فیکٹریوں ، کارخانوں میں دن رات کی شفٹیں چل رہی ہیں۔

آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے پر کم از کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک قید، دس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن ابھی تک اس قانون کے تحت کسی کو سزا ملنے کی مثال سامنے نہیں آ سکی ہے۔ خطرناک پیشوں میں بالغ افراد سے مشقت لینے یا اس کی اجازت دینے پر چھ ماہ قید ،75ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں رکھی گئی ہیں۔

بچوں ا ور بالغ افراد کو غیر اخلاقی سر گرمی ،جسم فروشی ،منشیات کی تیاری یا خرید و فروخت کے لئے غلام بنانے پر 10لا کھ روپے تک جرمانہ ،پانچ سال قید یا دونوں سزائیں اکٹھی مل سکتی ہی۔ بھٹوں پر بچوں سے جبری مشقت لینا جرم،لعنت اور پاکستان پر بدنما داغ بن چکا ہے۔لیکن اس کے برعکس یہ بھی دیکھا جائے کہ جو بچہ مزدوری کر رہا ہے اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں ، کیا وہ اپنی بیوہ بیمار ماں کی کفالت تو نہیں کر رہا۔

اگر ایسا ہے تو صرف اسکو کام سے ہٹا دینا انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔اسکو مشقت سے ہٹانے سے پہلے اسکے زیر کفاکت افراد کے لئے زندگی گذارنے کا بندوبست کیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو مشقت کی بجائے سکول بھیجنے کے لئے ماہانہ ایک ہزار روپے وظیفہ ،مفت کتابیںاور یونیفارم دینے کا قانون بنایا۔لیکن اس کے باوجود بچے مشقت کر رہے ہیں ۔

اس حوالے سے ضلعی سطح پر لیبر کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جس میں ڈی سی او ، ڈی پی او،اے سی ،ڈی ایس پی اور سپیشل برانچ کے افسران کو شامل کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بچوں سے مشقت کے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ آل پاکستان بھٹہ مالکان پنجاب کے مرکزی صدر شعیب خان نیازی نے بھٹوں پر بچوں سے مشقت کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد اور نہائت من گھڑت پروپیگنڈہ ہے کہ بھٹوں پر بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔

انہوںنے کہا کہ جو مزدور اپنے بچوں کے ساتھ بھٹوں پر رہائش پذیر ہیں ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے اکثر بھٹوں پر سکول قائم کئے گئے ہیں۔ قریبی سرکاری سکولوں میں بھی بچے باقاعدہ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ بچے جو چھوٹے ہوتے ہیں وہ بھٹہ پر کام کرنے والے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے وقت کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن مشقت نہیں کرتے۔ بعض جگہوں پر چند نا سمجھ مزدور اپنی آمدن بڑھانے کے لئے اپنے ہی بچوں سے اپنے کام میں مدد لیتے ہیں۔

شعیب نیازی نے کہا کہ اس سے نام نہاد سماجی تنظیموںکو جھوٹے پروپیگنڈے اور سرکاری کرپٹ مافیا کے لئے کرپشن کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس قانون سازی میں اگر بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن سے مشاورت لی جاتی تو بھٹہ مالک اور مزدور میں اعتماد سازی اور منفی عناصر کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ نوائے وقت کے سروے کے مطابق ہوٹلوں ، فیکٹریوں ،ورکشاپس، چائے کے کھوکے ، دکانوں، کاروباری مراکز پر جن بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے ان میں زیادہ تر کی عمریں 8 سے 14 برس کے درمیان ہیں۔

سب سے زیادہ بچے کھانے پینے کے ہوٹلوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔فیکٹریوں اور کارخانوں میں 16 برس سے کم عمر کے 80 ہزار سے زائد بچے مزدوری کر رہے ہیں۔سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر جبری مشقت کے قانون پر عملدرآمد کر بھی دیا جائے تو جو بچے مجبوری میں کام کرتے ہیں۔ جنکا کمانے والا کوئی نہیں ہے انکے لئے متبادل وظیفہ کا انتظام بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ایک سروے کے مطابق گڑھی شاہو، دھر مپورہ، انارکلی، سرکلر روڈ پر واقع چائے اور کھانے کے ہوٹلوں پر کام کرنے والے بچوں منیر، سنی، امجد، رکھا اور دیگر بچوں نے بتایا کہ انکے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے، کئی ایک کے والد نشے کے عادی ہیں اور والدہ بیمار ہیں اس لئے وہ مجبوری میں کام کرتے ہیں۔شاد باغ کے رہائشی 12 سالہ بچے ناصر نے کہا کہ اسکی دو چھوٹی بہنیں ہیں اسکا والد فوت ہو گیا ہے اس لئے اسے کام کرنا پڑتا ہے۔

ایسی صورتحال میں اگر حکومت چائلڈ لیبر کا مکمل خاتمہ کر نے میں کامیاب ہو بھی جائے تو ان کمسن بچوں کے گھروں کا خرچ کون اٹھائے گا۔ معاشرے کے دوسرے ناسور پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے والے 76 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں جبکہ 24 فیصد کا تعلق شہروں سے ہے۔ گذشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔

یہ اعدادو شمار تھانوں ، عدالتوں اور قومی، علاقائی اور مقامی اخبارات کی رپورٹس پر اکٹھے کئے گئے ہیں۔ بچوں کے خلاف ہونے والے بڑے جرائم میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 100 سے زائد کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔

غیر سرکاری نجی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے ملزمان میں سے بیشتر کابچوں کے رشتہ داروں اور کام سے تعلق تھا۔ پھر بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ بچے ،جن کے والدین معذور، بیروز گار ہیں وہ کام کرنے پر مجبور ہیں ،اگر حکومت ان کوزبردستی کام سے روکتی ہے تو اسے اس کے اہل خانہ کے لئے ضروریات زندگی کا اہتمام بھی کرنا چائیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jaabri Mushakat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 October 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.