کرپشن اور میثاق جمہوریت

کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔ ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بد عنوانی ہے۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے

بدھ 12 اپریل 2017

Corruption
میاں مقصود احمد:
کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔ ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بد عنوانی ہے۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کیساتھ کرپشن کے عفریت نے اس ملک کی راہ دیکھ لی۔ لٹے پٹے مہاجرین کی امداد میں بڑے پیمانے پر گھپلے ، نقل مکانی کرجانے والوں کی جائیداد پر قبضے ، نو آموز سرکاری عملہ کے ساتھ مل کر جعلی کلیموں اور الاٹمنٹس کی ایسی خزاں رسیدہ بہار آئی کہ شاہ گدا اور گدا سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

(جاری ہے)

یہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا وہ افسوس ناک باب ہے جس میں کرپشن، مفاد پرستی، ذات اور ذاتی فائدوں کے لیے بڑے سے بڑے قومی مفاد کی قربانی اور بے حسی کی جڑیں چھپی ہیں۔” بدعنوانی معاشرے کے لیے ناسور کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ کرپشن تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ قوم کرپشن کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرے۔ ہیراپھیری کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ عوام کو کرپشن کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا“ یہ اور اس جیسے کئی بیانات ہم پاکستان کے سب سے بڑے انتظامی ایوان ”ایوان صدر“ اور سب سے اونچے آئینی ایوان ”عدالت عظمیٰ “ کی جانب سے روزانہ سنتے اور اخبارات میں پڑھتے آئے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت کا مشہور زمانہ کیس آپ کو یاد ہوگا جس کا ایک مرکزی ملزم توقیر صادق عوامی اختیار و فعالیت اور زر کثیر خرچ کرکے بیرون ملک سے پابجولاں لایا گیا لیکن ہوا کیا۔ چوہدری افتخار ایوان عدل سے رخصت ہوتے ہیں۔ میثاق جمہوریت کا لکڑ ہضم ، پتھر ہضم چورن استعمال کرکے یہ کیس بھی ڈکار لیا گیا۔ ویسے کاغذوں میں موجود کیس فائلوں کی زینت بنتا عدالتی ایوانوں کی غلام گردشوں کا چکر کاٹ رہا ہے۔


دنیا میں کرپشن کے خاتمے کے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو کرپشن کے خلاف قوانین اتنے سخت بنا دئیے جاتے ہیں کہ کوئی بدعنوانی کا سوچتا بھی نہیں یا خدا خوفی کا نظام کرپشن کی جڑیں کاٹتا ہے۔ اسی طرح آج یورپی ممالک میں اگر ہمیں کرپشن میں کمی نظر آتی ہے تو اس کی وجہ ان کی قانون کی حکمرانی ہے وہ صرف قوانین بناکر بیٹھے رہنے پر زور نہیں دیتے ان کے پیش نظر اس پر عمل درآمد بھی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے بدقسمت ملک ہے کہ یہاں قانون صرف 50روپے میں بک جاتا ہے۔ یہاں قانون صرف کاغذوں میں زندہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 227 سے 231 بتاتا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا مگر ترامیم کے ذریعے نہ صرف ایسے قوانین بنتے ہیں بلکہ انہیں تحفظ بھی ملتا رہا ہے۔ کرپشن کرنے والے پلی بارگین کے ذریعے آئندہ کے لیے بدعنوانی کی راہ نکال لیتے ہیں، کروڑوں کرپشن کرنے والاچندکروڑ واپس کرکے چھوٹ جاتا ہے اور اگلی بار تک کی کرپشن کے کروڑوں اس کی جیب میں آجاتے ہیں۔

کرپشن پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے تجزیات اور رپورٹس یہ ثابت کرتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی کرپشن کے اصل ذمہ دار حکمران ہیں۔ پاکستان کا وزیراعظم کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے پر ریاستی اداروں کو وارننگ دیتاہے کہ وہ شرفاء کی پگڑیاں نہ اچھالے۔ (شرفاء وہ ہیں جو کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں) کرپشن کے خلاف حکمرانوں کے بلند بانگ دعووؤں کے برعکس اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سالانہ 8000ارب روپے لوٹے جا رہے ہیں۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت روزانہ 22۔ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ یہ بات ملک کے معروف معیشت اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کرپشن کے متعلق منعقدہ ایک سیمینار میں کی۔ انھوں نے کہا کہ 20 کھرب کالے دھن کے ساتھ کرپشن میں پاکستان اس وقت جنوبی ایشیا کے بہت سارے ممالک سے آگے ہے۔ کرپشن، بدانتظامی، اقرباپروری، قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات کے باعث پاکستان کو سالانہ 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

جبکہ ہدف سے کم ٹیکس وصولی سے پاکستان سالانہ 5 ہزار ارب روپے کا نقصان برداشت کر رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے بقول ہماری معیشت کی حقیقی صورتحال کچھ اس طرح ہے۔ ہنڈی، حوالہ اور انڈرانوائسنگ سے سالانہ 30۔ ارب ڈالر یعنی 3 ہزار 141 ارب روپے کا قومی خزانے کو نقصان ہورہا ہے۔ حکومت پر ملکی بنکوں کا قرضہ بڑھتے بڑھتے 2015ء تک 21 ہزار 44۔ ارب روپے ہو گیا ہے جبکہ بیرونی قرضہ 685 ارب ڈالر یعنی 71 ہزار 733 ارب روپے ہے۔ پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ عالمی منڈیوں میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے نتیجہ میں بادل نخواستہ جو ریلیف دیا گیا، اب وہ بھی واپس ہورہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Corruption is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 April 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.