سول ملٹری تعلقات میں تناوٴ کا خاتمہ

ڈان لیکس کا گزشتہ کئی ہفتوں سے الجھا معاملہ بالآخر افہام و تفہیم سے طے پا گیا۔ قومی سلامتی سے وابستہ اس تمام تر معاملے کا فوری حل اس لئے بھی ناگزیر تھا کہ بعض سیاستدانوں کی جانب سے سول ملٹری تعلقات میں پڑی دراڑوں کو مزید بڑھانے کی کوششیں کی جانے لگی تھیں

منگل 16 مئی 2017

Civil Military Taluqat Main Tanao Ka Khatma
طاہر جمیل نورانی:
ڈان لیکس کا گزشتہ کئی ہفتوں سے الجھا معاملہ بالآخر افہام و تفہیم سے طے پا گیا۔ قومی سلامتی سے وابستہ اس تمام تر معاملے کا فوری حل اس لئے بھی ناگزیر تھا کہ بعض سیاستدانوں کی جانب سے سول ملٹری تعلقات میں پڑی دراڑوں کو مزید بڑھانے کی کوششیں کی جانے لگی تھیں جس سے پاکستان کے ریاستی اداروں کی دنیا میں مزید جگ ہنسائی ہو سکتی تھی۔

یہ سوال کہ ڈان لیکس کا الجھا اور بے ترتیب معاملہ اگر اتنا ہی معمولی تھا تو پھر اتنی دیر اسے الجھائے رکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ سیاسی حلقوں میں آج بھی زیربحث ہے جس پر مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ سوال یہاں ایک یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ابتدا میں تو اس معاملے کو انتہائی حساس اور سکیورٹی کا بڑا واقعہ قرار دیا مگر چند روز قبل اس واقعہ کو نارمل قرار دیکر سول اور ملٹری کو دوبارہ ایک پیج پر لاکھڑا کیا جو ریاستی اداروں میں قائم مضبوط تعلقات کیلئے بلاشبہ ناگزیر تو تھا مگر اس سے قوم کو بھول بھلیوں میں ڈالنے کے متعلق سمجھ نہیں آسکی۔

(جاری ہے)

بعض عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں بڑی عارضی دراڑوں کو اتنا Linger on نہیں ہونا چاہئے تھا کہ قومی سلامتی کے معاملات پر ہرگز سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ فوج اور حکومت کے تعلقات میں آئے عارضی تنا?کا معاملہ بنیادی طورپر محض ایک جوابی ٹویٹ کا تھا۔ افواج پاکستان کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے Young D.G میجر جنرل آصف غفور نے حکومتی خط کے جواب میں دیئے اپنے ٹویٹ میں افواج پاکستان کے بعض تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خط کے بعض مندرجات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

اور پھر اس ٹویٹ پیغام کے ساتھ ہی حکومت اور ملٹری تعلقات میں تناوٴ نظر آنے لگا۔ حقیقی جمہوریت اور ریاستی اداروں میں استحکام کا تصور ہمارے ہاں چونکہ آج بھی قابل اصلاح ہے، اس لئے ڈی جی آصف غفور کے بھجوائے ٹویٹ کو ہمارے بعض سیاستدانوں نے اپنی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے ایسا الجھایا کہ حکومت اور فوج کے معاملات الجھ گئے۔ ان حالات میں وزیرداخلہ سمیت کئی دیگر وزراء نے ڈان لیکس رپورٹ کو عوام کے سامنے فوری طورپر لانے کا وعدہ تو کیا مگر بعدازاں انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے تو عوام سے کئے وعدوں کو التوا کا شکار ہونا پڑا۔

اب کئی ہفتوں کے تعطل کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے اگلے روز پریس کانفرنس میں یہ خوشخبری سنائی ہے کہ ڈان لیکس کے متنازعہ معاملے کو انتہائی دوراندیشی سے حل کر لیا گیا ہے۔ سول اور ملٹری تعلقات میں پھیلے تنا? اور غلط فہمیوں کا بھی ازالہ کر دیا گیا ہے۔ فوج اور حکومت کے تمام معاملات اتفاق رائے سے طے کر لئے گئے ہیں۔ اس لئے فوج اورحکومت میں کوئی دراڑ باقی نہیں رہی۔

انہوں نے کہا افواج پاکستان کے ترجمان کی حیثیت سے 25 اپریل 2017ء کو جوآفیشل ٹویٹ حکومت کو بھیجا وہ اب واپس لے لیا گیا ہے۔ غیرموثر تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل آصف باجوہ اور وزیراعظم محمد نوازشریف کے مابین ہونے والی اہم ملاقات میں جس میں وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان سمیت وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نوید مختار بھی شامل تھے‘ فوج نے حکومتی رٹ تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ وہ ٹویٹ واپس لے لیا ہے جو حکومت کے ادھورے نوٹیفکیشن کے خلاف دیاگیا تھا۔

اسی طرح جو غلط فہمیاں تھیں، اب وہ دور ہو چکی ہیں اور یوں یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا چکا ہے۔ سول، ملٹری ایک پیج پر ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس کے بعد اپوزیشن نے حکومت کو مزید ٹف ٹائم دینے کیلئے نئی حکمت عمل تیار کر لی ہے‘ تاہم پی پی پی کے رہنما اعتزازاحسن نے اس فیصلے کے خلاف فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ انہوں نے کیوں کیا، عام آدمی کی سمجھ سے اس لئے بھی بالاتر ہے کہ ڈی جی آصف غفور کا ٹویٹ ان کا ذاتی نہیں بلکہ افواج پاکستان کی جانب سے تھا جس میں افواج پاکستان کے بعض تحفظات شامل تھے اور حکومت تک یہ پیغام پہنچانا میجر جنرل آصف غفور کی پیشہ ورانہ ڈیوٹی تھی جو انہوں نے پوری دیانتداری سے پوری کی۔ البتہ اپوزیشن کا حکومت سے یہ مطالبہ کہ ڈان لیکس فیصلے کی مکمل رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے، ایک جائز عوامی مطالبہ ہے جس پر عمل ہونا چاہئے۔


نیوز لیکس کے جاری اعلامیہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ وزارت اطلاعات کے ایک سینئر آفیسر رآ تحسین نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جو ان کے پیشہ ورانہ انداز سے قطعی مختلف تھا۔ سابق وزیراطلاعات پرویز رشید کے خلاف حکومتی ایکشن کی وجہ کیا تھی۔ طارق فاطمی کو ان کے عہدہ سے فوری ہٹانے کی سفارش کیوں کی گئی۔ ڈان اخبار کے رپورٹر کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کرنا کیوں اہم سمجھا گیا۔

ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کے بارے میں قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ فیصلہ چونکہ ہو چکا ہے اس لئے اپوزیشن پر بھی اب لازم ہے کہ سول ملٹری تعلقات پر سیاست کرنے سے وہ اجتناب کرے۔ مہذب جمہوری ملکوں میں ایسے معاملات پر سیاست نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ مسئلہ اب یہ بھی نہیں کہ سول ملٹری تعلقات میں پیدا شدہ غلط فہمی کو دور کرنے میں جیت کس کی ہوئی۔

جیت اگر ہوئی تو صرف پاکستان کی ہوئی ہے۔ سول ملٹری دونوں اب ایک پیج پر ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ صحافیوں کو بھی بہت جلد اب کسی نئے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کا پابند بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے‘ کچھ کہنا اس لئے بھی قبل از وقت ہے کہ لفظ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد جب حکم میں تبدیل ہو جائے تو قلم کا تقدس اور اس کا سچائی کی قوت سے تحفظ لازم ہوجاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Civil Military Taluqat Main Tanao Ka Khatma is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 May 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.