سی پیک اور زراعت

عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سی پیک کا بنیادی مقصد صنعتی ترقی اور توانائی کے بحران کا خاتمہ ہے لیکن درحقیقت اس منصوبہ سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے زرعی شعبہ کو ہوگا۔

بدھ 18 اکتوبر 2017

Sea Pack Or Zarat
عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سی پیک کا بنیادی مقصد صنعتی ترقی اور توانائی کے بحران کا خاتمہ ہے لیکن درحقیقت اس منصوبہ سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے زرعی شعبہ کو ہوگا۔زراعت پاکستان کی معیشت کا اہم ستون ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے۔ملک کی آدھی سے زائد آبادی زراعت سے منسلک ہے جبکہ کثیر آبادی بالواسطہ زراعت کے شعبہ سے تعلق رکھتی ہے۔

زرعی شعبے کی ترقی کا مطلب ملک کی آدھی آبادی کے معیارِ زندگی میں بہتری ہے جو ملکی معیشت میں مثبت انقلاب کا باعث ہوگا۔چین سی پیک کے ذریعے پاکستانی زراعت میں دلچسپی رکھتا ہے کیوں کہ ایک ارب تیس کروڑ آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے ہرسال اربوں ڈالرز دیگر ممالک سے زرعی اجناس منگوانے پر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

چین کی زیادہ تر تجارت امریکہ، آسٹریلیا، روس اور برازیل سے ہوتی ہے جس پر ٹرانسپورٹ اخراجات کی اضافی لاگت آتی ہے۔

سی پیک کے تحت چین کو پاکستانی زراعت تک رسائی حاصل ہوجائے گی جس کے ذریعے وہ کم لاگت پر پاکستان کی بہترین زرعی مصنوعات سے فائدہ اٹھا سکے گا۔پاکستان طویل عرصہ سے توانائی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔سی پیک کے تحت چین توانائی کے شعبہ میں 33 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر ے گا جس سے کسانوں کو سستی بجلی دستیاب ہوگی۔

بلوچستان سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں آبپاشی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ قابل کاشت رقبہ بنجر پڑا ہے ،سی پیک میں شامل منصوبوں کے ذریعے دستیاب پانی کو ذخیرہ کرنے اور آبپاشی کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے سائنسی طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔پاکستان میں کولڈ چین لاجسٹک اور پراسیسنگ مراکز کی کمی کے باعث، کٹائی اور ترسیلات کے دوران 50 فیصد سے زائد زرعی پیداوار ضائع ہو جاتی ہے۔

چینی ادارے پاکستانی اداروں کے اشتراک سے زرعی پیداوار کو محفوظ رکھنے کے لیے گوداموں کا تین سطحی نظام ترتیب دیں گے جس میں مصنوعات کی خریداری اور انہیں محفوظ رکھنے کے گودام، عبوری گودام اور بندرگاہ پر بنائے جانے والے گودام شامل ہیں۔ مصنوعات کی ترسیل کے لیے پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے گا اور ویئر ہاو¿س بھی تعمیر کیے جائیں گے جہاں پر فروٹ ، سبزیاں اور اجناس رکھی جائیں گی۔

پہلے مرحلے میں اس قسم کے ویئر ہاو¿س اسلام آباد اور گوادر جبکہ دوسرے مرحلے میں کراچی ، لاہور اور پشاور میں تعمیر کئے جائیں گے۔اسد آباد ، اسلام آباد ، لاہور اور گوادر میں سبزیوں کے پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے جن کی سالانہ صلاحیت دو ہزار ٹن ہو گی۔ دس ہزار ٹن کے فروٹ جوس اور جام پلانٹ اور دس لاکھ ٹن صلاحیت کے گندم ، دالوں اور چاول کے پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے۔

شروع میں ایک لاکھ سالانہ پیداواری صلاحیت کا کاٹن پراسیسنگ پلانٹ بھی لگایا جائے گا‘ چینی کمپنیوں کو ہزاروں ایکڑ زمین لیز پر دی جائے گی جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیجوں کی نئی اقسام تیار کی جائیں گی جو پیداوار اور معیار کے لحاظ سے بہترین ہوں گی۔اس مقصد کے لئے سترہ مختلف منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں این پی کے فرٹلائزر پلانٹ لگائے جائیں گے جس کی پیداواری صلاحیت آٹھ لاکھ ٹن ہو گی۔

اسی طرح زرعی کمپنیوں کو فارمز کے لیے ٹریکٹر ز، اجناس کومحفوظ بنانے کی مشینری ،انرجی سیونگ پمپس، کھادوں اور بیج بونے اور فصل کاٹنے کے آلات خریدنے کے لئے مختلف وزارتیں اور چین کا ترقیاتی بنک بلا سود قرضے فراہم کرے گا۔زرعی کمپنیوں کو چین کی حکومت مالی مدد دے گی اور اس مقصد کے لیے چین اور پاکستان کے زرعی حکام ایک دوسرے سے باہم رابطوں میں رہیں گے۔

چین کی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو رعاتی نرخوں پر قرضے دے گی۔جنہیں بعد ازاں شراکتی منصوبوں کی شکل بھی دی جا سکے گی۔لائیو سٹاک زراعت کا اہم شعبہ ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 11 فیصد ہے۔لائیو سٹاک کی افزائش نسل اور زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے ہائبریڈ اقسام تیار کی جائیں گی۔سکھر میں 2 لاکھ ٹن کی سالانہ پیداوار دینے والے گوشت پروسسنگ پلانٹس اور ہر سال 2 لاکھ ٹن دودھ پروسس کرنے والے دو نمائشی پلانٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

سکھر میں گوشت کی پراسیسنگ کا ایک پلانٹ لگایا جائے گا جس کی سالانہ پیداواری صلاحیت دولاکھ ٹن ہو گی۔اسی طرح دودھ کے پراسیسنگ پلانٹ بھی لگائے جائیں گے جن کی پیداواری صلاحیت دو دو لاکھ ٹن ہو گی۔ زراعت سے مربوط صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا اور زررعی پیداوار کی خریدو فروخت کے لیے مارکیٹنگ کا مضبوط ڈھانچہ بنایا جائے گا۔یہ تمام منصوبے اور اقدامات پاکستان کی زراعت میں انقلاب برپا کردیں گے۔

لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے زراعت پر چینی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہونے کا خدشہ موجود ہے جس کی وجہ سے مقامی کسانوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔کچھ عرصہ پہلے ڈان نیوز کے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا کہ چین سی پیک کے ذریعے پاکستان کی زراعت پر قابض ہونا چاہتا ہے۔لیکن وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس آرٹیکل کی صحت سے انکار کرتے ہوئے سی پیک کے لیے سازش قرار دیا۔

حالیہ دنوں میں بھارت کے بعد امریکہ کی طرف سے سی پیک کی مخالفت اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اس منصوبہ کو سبوتاز کرنے کے درپے ہیں۔اس لیے ہمارے قومی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ سی پیک سے متعلق تمام خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sea Pack Or Zarat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 October 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.