بجلی بحران․․․ آخر کب اور کیسے حل ہو گا؟

موسم گرماکاآغازہونےکےباوجود گیس کی لوڈشیڈنگ بھی کسی نہ کسی صورت موجودہے۔اس وقت دیہات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بیس گھنٹوں سےتجاوز کرچکی ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں اوسطاً بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے

منگل 6 مئی 2014

Bijli Bohran Akhir Kab Or Kaise Hal HO Ga
احمد جمال نظامی:
موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ تکلیف اور اذیت کا باعث بننے لگی ہے۔ عوام صبر آزما لوڈشیڈنگ پر بلبلا اٹھے ہیں جس کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور توڑپھوڑ کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو چکا ہے۔ موسم گرما کا آغاز ہونے کے باوجود گیس کی لوڈشیڈنگ بھی کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔

اس وقت دیہات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بیس گھنٹوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں اوسطاً بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے جس سے کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی صورت میں وطن عزیز کے اندر توانائی بحران کم و بیش ایک دہائی سے جاری ہے۔سابق صدر پرویزمشرف کے دوراقتدار کے دوران توانائی بحران کا آغاز ہو چکا تھا جو بڑھتے بڑھتے اس وقت تک خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور پاکستانی معیشت کا دارومدار شعبہ زراعت اور شعبہ ٹیکسٹائل پر ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پانے میں تاحال ناکام ہے۔ صنعتی، تجارتی ، زرعی اور عوامی حلقوں کی طرف سے موجودہ حکومت کے توانائی بحران کے خاتمے کے دعووں اور مجوزہ منصوبہ جات کو سابقہ حکومتوں کے ترازو میں تول کر دیکھا جا رہا ہے۔

عوام کی واضح اکثریت کی طرف سے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف ایک مرتبہ پھر شروع کئے گئے احتجاج کے دوران کی جانے والی توڑپھوڑ سے واضح ہو رہا ہے کہ عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ صنعتی تنظیموں اور تجارتی حلقوں کی طرف سے بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج شروع ہو چکا ہے۔ صنعتی تنظیموں اور تجارتی حلقوں کی طرف سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور توانائی منصوبہ جات پر عملی پیش رفت میں ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

توانائی بحران اور توانائی ذرائع کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ زرعی حلقے حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کی گئی حالیہ کمی کو بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
اگر ہمارے ملک میں بجلی دستیاب نہیں ہو گی جس سے صنعتیں صحیح طریقے سے نہیں چل پائیں، تو توانائی کے متبادل استعمال کرنے سے پیداواری اخراجات بڑھیں گے۔

اس صورت حال میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور پیداواری شعبہ کی لاگت بڑھ جائے گی۔ جس سے حکومت برآمدات اور درآمدات میں توازن برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ ڈالر اورروپے کی قیمت میں عدم استحکام سے برآمدکنندگان پہلے ہی شدید ترین مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں۔ یہ مسائل تاحال ایک بحران کی سی کیفیت اختیار کئے ہوئے ہیں جن کو حل کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

اس پربجلی کی لوڈشیڈنگ اور اس طرح کے مزید خوفناک بحرانوں کو دور کرنے میں عدم توجہی اور بدترین غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی ملک میں وزارت خزانہ حکومت کو معاشی و اقتصادی کارکردگی سے آگاہ رکھتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں مستقبل تو دور کی بات مستقبل قریب یعنی آئندہ ماہ اور ہفتے تک کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جاتی۔ہفتہ رفتہ کے دوران وزیرمملکت پانی و بجلی عابد شیرعلی نے بجلی کے بل ادا نہ کرنے والے متعدد سرکاری محکموں ایوان صدر، سپریم کورٹ، قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی، خیبر پی کے اسمبلی، واپڈا کے بیشتر دفاتر وغیرہ کے بجلی کے کنکشن بھی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے حکم پر منقطع کروا دیئے تھے۔

وزارت پانی و بجلی کے مطابق بجلی کے واجب الادا بل ان تمام محکمہ جات حکومتی اداروں اور رہائش گاہوں کی طرف سے کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے ملک میں بجلی چوری ہو رہی ہے اور اس کا علم متعلقہ وزارت کے ذمہ داران کے علاوہ وزیراعظم اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے وزراء اعلیٰ کو بھی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت عملی طور پر اس کے سدباب کے لئے اقدامات نہیں اٹھاتی۔

ایک طرف ایک عام آدمی بجلی کا بل ادا نہ کرتا تو واپڈا کے اہلکار اس کا کنکشن منقطع کر دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف سرکاری ادارے، قانون ساز اسمبلیوں اور اعلیٰ حکومتی سربراہوں کی سرکاری رہائش گاہوں اور دفاتر کے بل کئی سالوں سے ادا نہیں کئے جا رہے۔ کم از کم حکومت اس مسئلے کو توسیاسی نہ بنائے۔ قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں قوانین منظور کروائے اور عوام کو اس سے آگاہ کیا جائے۔

تمام سرکاری ادارے، قانون ساز اسمبلیاں، اعلیٰ حکومتی و سرکاری شخصیات کے دفاتر اور رہائش گاہوں کیلئے مقررہ فنڈ کے اندر رہتے ہوئے بجلی، گیس، ٹیلی فون اور دیگر یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ سیدھی سادھی بات اور فارمولا ہے کہ ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہاوٴس ہو، چاروں صوبائی اسمبلیاں، سینٹ اور قومی اسمبلی ہو یا کوئی بھی سرکاری دفتر، سرکاری افسر کی سرکاری رہائش گاہ یا کسی بھی حکومتی وزیر، رکن قومی اسمبلی یا کسی کی بھی سرکاری رہائش گاہ یا دفتر ہو اس کے یوٹیلٹی بلز جن میں سرفہرست بجلی اور گیس کے بل شامل ہوں ان کے لئے ایک فنڈ ڈکلیئر کر کے اسے منظرعام پر لایا جائے۔

پھر کسی بھی ایسے مقام پر اگر بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی کے بلز زیادہ آتے ہیں تو اس کی متعلقہ شخصیات کی تنخواہوں اور مراعات سے کٹوتی کی جائے۔ لیکن ایسی کوئی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی۔ اسی لئے اس معاملے کو حکومتی اور پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں کی مختلف صوبائی حکومتوں کی طرف سے محض سیاسی سٹنٹ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ عملی طور پر اس بجلی کاٹو مہم سے ملک اور قوم کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔


بجلی چوری کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ واپڈا کو جتنے بھی بجلی چوری کی مد میں لائن لاسز ہوتے ہیں اس کا خمیازہ بجلی کا بل ادا کرنے والے صارفین کو بھگتنا پڑ جاتا ہے۔ اس مسئلے کو بجلی کے بحران کے ساتھ نتھی کر دینا حکومت کا ایک بہترین حربہ ضرور ہو سکتا ہے مگر بجلی کا بحران اس طرح سے کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ بجلی کا بحران حل کرنے کے لئے پاکستان کو ایشین ٹائیگر کا نعرہ لگانے والے خود ٹائیگر بنیں اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیں۔

فوری طور پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر مکمل کر لی جائے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اختیار کردہ رویے پر بھی حکومت کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہو گا۔ کوئلے کے جتنے بھی منصوبوں کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا اعلان کیا گیا ان پر من و عن عملدرآمد کیا جائے۔ پن بجلی کے تمام اعلان کردہ منصوبوں پر عمل کیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے پنجاب کے جن بڑے شہروں اور چنیوٹ میں دریائے چناب کے مقام پر جہاں جہاں نہروں اور دیگر مقامات پر پن بجلی اور چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی کے بحران کو حل کرنے کا خواب عوام کو دکھایا تھا اسے شرمندہ تعبیر کیا جائے۔

چین کی مدد سے توانائی بحران کے جتنے بھی منصوبوں کی تشہیر کی گئی ہے اس کو ہر حال میں مکمل کیاجائے۔ ہم سیاسی جماعتوں کے ان طعنوں کو بھی عوامی، صنعتی، تجارتی اور زرعی حلقوں کے احتجاج کے پیش نظر خاطر میں نہیں لاتے کہ کس نے کتنے عرصے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بحران کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جس کی معیشت مسلسل بحرانوں میں جکڑی چکی ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔

اس معاملے کو مزید سیاست میں الجھانے اور متنازعہ بنانے کی بجائے بجلی کے بحران کے حل کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے حکومت اپنی کمر کس لے۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو ختم کرنے والی پیپلزپارٹی کے اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی خود اعتراف کر چکے ہیں کہ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو نوشہرہ اور دیگر مقامات پر اس قدر سیلاب کی تباہ کاریاں نہ ہوتیں۔ایک ترقی پذیر اور بحران زدہ ملک ہونے کے ناطے عوام پر ترس کھاتے ہوئے توانائی بحران پر قابو پایا جائے۔ اگر حکومت ٹھان لے تو آئندہ سال موسم گرما کے دوران بجلی کے بحران پر 80فیصد تک قابو پایا جا سکتا ہے اس کے لئے صرف عالمی طاقتوں کے پریشر سے باہر نکل کر خلوص نیت سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bijli Bohran Akhir Kab Or Kaise Hal HO Ga is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 May 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.