بلوچستان میں سندھی مزدوروں کی ہلاکت

سندھ میں میلوں ٹھیلوں کا پہلا دن پہلی، دوسرا دن دوسری اور تیسرا دن آخری دھمال کہلاتا ہے۔ اگر الیکشن 2018 کو سیاسی میلے سے تشبیہہ دیں تو پہلا مرحلہ یعنی پہلی دھما ل شروع ہو چکی ہے ۔ آصف زرداری اپنا فوکس پنجاب لیکن میاں نواز شریف اور عمران خان سندھ کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں۔ گویا آنے والے دنوں میں سندھ سیاسی پنجہ آزمائی کامرکز بننے والا ہے

ہفتہ 27 مئی 2017

Balochistan Main Sindi Mazdoroon Ki Halakat

الطاف احمد خان مجاہد :
سندھ میں میلوں ٹھیلوں کا پہلا دن پہلی، دوسرا دن دوسری اور تیسرا دن آخری دھمال کہلاتا ہے۔ اگر الیکشن 2018 کو سیاسی میلے سے تشبیہہ دیں تو پہلا مرحلہ یعنی پہلی دھما ل شروع ہو چکی ہے ۔ آصف زرداری اپنا فوکس پنجاب لیکن میاں نواز شریف اور عمران خان سندھ کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں۔ گویا آنے والے دنوں میں سندھ سیاسی پنجہ آزمائی کامرکز بننے والا ہے ۔ تحریک انصاف اس سیاسی خلاء کو پُر کرنے کی خواہاں ہے جو فنکشنل لیگ کے پس منظر میں جانے سے اندرون سندھ اور متحدہ کی تقسیم سے کراچی ، حیدرآباد، سکھر اور میرپور خاص و نواب شاہ میں پیدا ہوا ے۔ اس کی کوشش ہے کہ ممتاز بھٹو ، ارباب رحیم ، ٹھٹھہ کے شیرازی برادان اور شکار پور کے مہر خاندان سمیت کئی دیگر خانوادوں کو جو اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پی پی میں بوجو ہ شمولیت اختیار نہیں کر سکے،پی ٹی آئی کا حصہ بنایا جا سکے۔

(جاری ہے)

بعض حلقے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا رابطہ محترمہ غنویٰ بھٹوسے بھی ہوا ہے اور پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ ذوالفقار جونئیر اور فاطمہ بھٹو لاڑکانہ سے الیکشن لڑیں لیکن میر مرتضیٰ بھٹو کی فیملی خود براہ راست انتخابی عمل میں اترنے سے شاید گریز کرے کہ لاڑکانہ کے موجودہ منظر نامے میں ان کا محض الیکشن لڑنا نہیں، جیتنا اہم ہو گااور بلدیاتی الیکشن و انتخاب 2013کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحال سندھ کی سیاسی فضا مخالفین کے لیے اتنی سازگار نہیں جتنا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن نے تصور کر رکھا ہے۔ خود مسلم لیگ ن کے کئی اہم رہنماء شاکی ہیں کہ ترقیاتی فنڈز سے ان کے علاقوں کو محروم رکھا جا رہا ے ، نتیجتاََ وہ آئندہ الیکشن میں عوام کے پاس کیا وعدے اور کارکردگی لے کر جائیں گے۔ تحریک انصاف الیکشن 2013 میں حاصل شدہ انتخابی حمایت کو ساتھ نہیں رکھ پائی ۔ نادر اکمل لغاری ، عبدالحفیظ و دیگر کے استعفے بھی اسے کمزور کر گے ، البتہ لیاقت جتوئی کی شمولیت سے اسے ضلع دادو کی حد تک تقویت ضرور ملی ہے۔ اگر انہیں صوبے کی حد تک کوئی ٹاسک ملتا ہے تو وہ اسے نبھا سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں سیاسی منصوبہ بندی کا فقدان دکھائی دیتا ہے مخدوم شاہ محمود قریشی کے سیایسی اثرات ، حلیم عادل شیخ کے عوامی رابطوں اور لیاقت جتوئی کے تجربے کو مجتمع کیا جائے تو سندھ دیہی میں مثبت نتائج کا حصول ممکن ہے کیونکہ فنکشنل لیگ مرحوم پیر پگارو دور کی سیاسی بارگیننگ پاور کھو چکی ہے۔ سندھی قوم پرست اسٹریٹ پاور رکھتے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ، گوادر میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں سندھی مزدوروں کی ہلاکت نے صوبے میں ایک نئی بحث ک دروازہ کھول دیا ہے۔ سندھی قوم پرستوں میں سے کچھ کو شکوہ ہے کہ بلوچ قیادت نے اس سانحہ کی کھل کر مذمت نہیں کیا حالانکہ سندھ میں آباد بلوچ ہر طرح سے محفوظ ہیں اور جب بھی کبھی بلوچستان میں آپریشن ہوا تو سندھ نے کھل کر ان کی سپورٹ کی تھی بلکہ ایک زمانے میں تو بلوچ حقوق کی ساری جدوجہد کراچی یونیورسٹی اور لیاری میں لڑی گئی آج کے کئی ایک بڑے نام جامعہ کراچی میں زیر تعلیم تھے۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ جرمنی میں مقیم شفیع برفت نے براہمداغ بگٹی اور حیر بیار مری کو راستے الگ ہونے کی دھمکی بھی دی ہے ۔سانحہ گوادر پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی بلوچستان میں سندھ کے مزدوروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ کراچی کی پروفیسر ناظمہ طالب کو کوئٹہ یونیورسٹی میں شہید کیا گیا تھا ۔ حالیہ سانحہ گوادر کی ذمہ داری بوچ لبریشن نے قبول بھی کی ہے۔ اس سانحہ کو بلوچ سندھی کشمکش کا عنوان اس لیے بھی مل رہا ہے کہ مسلح موٹر سائیکل سواروں نے بلوچ مزدور کو علیحدہ کر کے یہ بتائے جانے کے باوجودکہ ان کا تعلق سندھ سے ہے گولیاں چلا کر بھون دیا۔ اس سے قبل گوادر، خضدار، تربت سمیت ملحقہ علاقوں میں پنجابیوں، سرائیکیوں اور اُردو بولنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ سانحہ گوادر میں جاں بحق 9 مزدوروں میں سے 3 حقیقی بھائی تھے۔ پورے گاوٴں صدیق لاکھوں پررنج کی کیفیت ہے اور لوگ افسردہ ہیں لیکن سندھ کا عام آدمی قوم پرست بلوچ لیڈر شپ سے شاکی ضرور ہے جو اعلانیہ مذمت سے گھبرا رہی ہے۔ اسی طرح سندھ کے حقوق کی چیمپئن پیپلز پارٹی بھی سوائے اظہار تعزیت کے کچھ نہ کر سکی۔ بلاول بھٹو کی جانب سے شہید مزدوروں ے مقابر پراجرک چڑھانے کو نمائشی اقدام سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ مزدوروں ی شہادت تک سندھ کی سیاسی قیادت اور عام آدمی کی سوچ کا تضاد سامنے آرہا ہے۔ مصلحت کا شکار لیڈر شپ خموش اور غم میں ڈوبے عوام سراپا احتجاج ہیں ۔ آنے والے دنوں میں یہ اختلات خلیج کو مزید بڑھائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Balochistan Main Sindi Mazdoroon Ki Halakat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 May 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.