علامہ اقبال عظیم سیاسی رہنما

زندہ قومیں اپنے اکابر کی تعلیمات اور افکار کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ علامہ اقبال ہماری قوم کا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں اور اس مملکتِ خداداد کا ہرہر فرد ان کا ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ، آزاد اور خود مختار ملک کا تصور پیش کیا۔

جمعرات 9 نومبر 2017

Allama Iqbal Azeem Siyasi Rehnuma
شیخ محمد انور:
زندہ قومیں اپنے اکابر کی تعلیمات اور افکار کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ علامہ اقبال ہماری قوم کا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں اور اس مملکتِ خداداد کا ہرہر فرد ان کا ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ، آزاد اور خود مختار ملک کا تصور پیش کیا۔

ملک و قوم علامہ اقبال کی خاص طور پر احسان مند رہے گی کہ انہوں نے اس قوم میں آزادی کیساتھ ساتھ اسلامی تشخص کا شعور بھی بیدار کیا اور اپنی روح پرور شاعری سے ہمارے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اس راکھ کا ڈھیر سے اٹھ کر ہم دنیا کی امامت کا منصب سنبھالیں۔علامہ اقبال سیالکوٹ کے کشمیری گھرانے میں 9 نومبر 1877ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم شیخ نور محمد تھا نہایت ہی متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال کی زندگی پر ان کے والد محترم کا گہرا اثر تھا اور آپ نے انہیں اپنا مرشد بھی کہا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد سکول میں داخل ہوئے اور پھرمرے کالج سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اسی مادر علمی میں انہیں سید میر حسن جیسے شفیق ا±ستاد سے پڑھنے کا موقع ملا اور ان کی بدولت علامہ اقبال میں شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔

مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے بی اے اوربعد میں ایم اے کا امتحان اعزازی طور پر پاس کیا، اس دوران آپ نے ایران کے فلسفہ مابعدالطبیعات پر ایک مبسوط مقالہ رقم کیا۔جس پر بعد میںجرمنی کی نامور درس گاہ میونخ یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ جرمنی سے انگلستان آکر انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

یہان قیام کے دوران آپ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی رہے۔ حضرت علامہ اقبال ایک عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ ہمہ صفت ،عظمت کے حامل اور مصلح قوم تھے۔ دراصل وہ بیسویں صدی میں ملت اسلامیہ کے اولین معمار ہیں، اسلامی فکر کی تشکیل جدید اوروقت کے فکری و جذباتی رجحان کو روحانی، اخلاقی اور سیاسی حیثیتوں سے تبدیل کرنے اور اصلاح و ترقی کی راہ پر مسلمانانِ برصغیر کو گامزن کرنے میںان کا بڑا حصہ تھا۔

انہوں نے اسلامی فکر کی تشکیل جدید کی اور اسلامی قومیت کے ساتھ ہی اسلامی بین الاقوامی سیاست کے تصور کو بھی اجاگر کیا ہے۔ علامہ اقبال کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے محض شاعرانہ خواب دیکھنے اور روشن مستقبل کے گیتوں کی بجائے عملیت کا پیغام دیا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ملت اسلامیہ کو کون کون سی مشکلات درپیش ہیں اور ان کا علاج کیا ہے؟ کس طرح ان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا جاسکتا ہے؟ انہوں نے ایسے عہد میں آنکھ کھولی جب مسلمانوں میں آزادی کیلئے انہیں بیدار کرنا ضروری تھا۔

ایک طرف انہوں نے 1930ءمیں مسلمانانِ برصغیر کے جداگانہ وطن کا تصور پیش کیا اور دوسری طرف اس مقصد کے حصول کیلئے اپنے خطبات اور کلام کے ذریعے ہماری خودداری کو بیدار کیا اور ہمیں ایک عالمگیر انقلاب برپا کرنے پر آمادہ کیا۔ جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کی کایا پلٹ گئی اور مسلم قوم کا تشخص پوری دنیا میں ابھرنے لگا پھر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کے بعد دوسری اسلامی نظریاتی ریاست کی بنیاد رکھی۔

الگ وطن کیلئے علامہ اقبال کے خواب کا ماخذ قرآن ہے جس کا ہرفیصلہ اٹل اور ناقابل تبدل و تغیر ہے۔ برصغیر کے غیر مسلم اور فرنگی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اللہ رب العزت نے علامہ اقبال کو ایک خاص مقصد کیلئے چنا۔ اقبال صرف خالقِ پاکستان ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ بھی تھے۔ اقبال کی شاعری صرف برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کا سبب ہی نہ تھی بلکہ ان کی شاعری کو مشعلِ راہ بنا کر بہت سے ملکوں میں آزادی کی تحریک چلی۔

قائد اعظم جو کہ مسلمانوں کی نااتفاقی سے مایوس ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے ،علامہ اقبال ہی کے مشورے پر ہندوستان واپس آئے اور ان کیساتھ مل کر مسلمانوں کیلئے آزاد و خود مختار ملک کی جدوجہد میں ان کی رہنمائی کی۔ لیکن اس قوم کی بدقسمتی کہ پاکستان کے خواب کی تعبیر ہونے سے 9 سال پہلے ہی وہ جہان سے فا نی سے کوچ کر گئے۔علامہ اقبال کی شاعری نے مسلمانوں کے اندر حریت پسندی کا وہ جذبہ بیدار کردیا کہ بالآخر قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے لئے علیحدہ ریاست پاکستان کے وجود کو عملی شکل دینے کیلئے تحریک کی بنیاد رکھ دی۔

ایک ترک سکالر نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ اقبال کی شخصیت صرف ان کے ہم وطنوں کیلئے باعث فخر نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے مایہ ناز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے افکار عالیہ سے نوعِ انسان کیلئے متعدد مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے 21 اپریل 1938ءکو لاہور میں رحلت فرمائی اور شاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں دفن ہوئے۔

عام دنوں میں بھی لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتے ہیں مگر خاص مواقع مثلاً یوم اقبال پر بہت زیادہ لوگ حاضری دیتے ہیں اور اسی دن وہاں پر مسلح افواج کی تبدیلی ہوتی ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک کے سربراہان کی طرف سے بھی ان کے مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور بے شمار علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بھی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست سہی مگر اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اور پاکستانی قوم علامہ اقبالؒ کے پیغام اور افکار کو سمجھے اور اپنی انفرادی و قومی زندگی میں ان پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہ پر گامزن ہو۔!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Allama Iqbal Azeem Siyasi Rehnuma is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 November 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.