اچھا علاج اور تعلیم

پاکستان میں یہ ایک خوب بنتا جارہا ہے۔۔۔۔ یونیسیف اور اقتصادی جائزے کے مطابق پاکستان میں تعلیم اور علاج کی صورتحال پسماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ سنگین ہے

پیر 24 نومبر 2014

Acha Elaaj Or Taleem
ذہرا حسین:
علاج معالجہ کی مناسب اور بروقت سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث بہت سے بچے اپنی پیدائش کے فوراََ بعد ہی جاں بحق ہوجاتے ہیں جبکہ تعلیمی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ان کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے۔ یونیسیف اور اقتصادی جائزے کے مطابق پاکستان میں تعلیم اور علاج کی صورتحال پسماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ صورتحال اس وقت تشویشناک ہوجاتی ہے جب عالمی سطح پر کسی اہم مسئلہ کے حوالے سے ہمارا شمار سرفہرست ممالک میں کیا جاتا ہے۔


گزشتہ دنوں یونیسیف کی رپورٹ میں پاکستان میں بچوں کے علاج اور تعلیم کے متعلق انکشافات نے چونکا کر رکھ دیا کہ پاکستان میں ہر تین منٹ بعد ایک بچہ مرجاتا ہے جبکہ ساڑھے تین لاکھ بچے اپنی عمر کے پانچ سال پورے ہونے سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے 20فیصداموات نمونیا کے باعث ہوتی ہیں۔
بچوں کی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کی بڑی وجہ پاکستان میں کمسنی کی شادی کا بڑھتا ہوا رواج ہے۔

ملک کے دہی علاقوں میں خصوصاََ 18سال سے بھی کم عمر میں شادیاں کی جاتی ہیں جس کے باعث زچہ و بچہ کی صحت کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں جو گھر گھر جاکر خواتین اور بچوں کو طبی سہولتیں فراہم کرتی ہیں لیکن ملک میں 1000نوزائیدہ بچوں میں 66فیصد بچے اپنی پیدائش کے فوراَ بعد مرجاتے ہیں۔

پاکسان میں صرف 52فیصد بچے تربیت یافتہ بطی عملے کی نگرانی میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ ملینیم ڈویلپمنٹ کے اہداف کے مطابق یہ شرح 90فیصد سے زیادہ ہونی چاہئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 67ہزار سات سو اُنہتر ہے لیکن ایک ہزار 99ہزار کے علاج معالجے کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں اس قدر محدود وسائل ہیں کہ 1647افراد کے علاج کیلئے ایک بستر ہے۔


اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان پولیو جیسے مہلک مرض میں سرفہرست ہے یعنی ہر دس میں سے نو بچے پاکستانی ہیں۔ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ اور سری لنکا میں اس سلسلہ میں خاصا کام ہوا ہے مگر پاکستان میں حکام کی غفلت اور کچھ دیگر وجوہ کے باعث پولیو پر قابو نہیں پایا جاسکا۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق 1990ء سے اب تک دنیا بھر میں بچوں کی شرح اموات کی تعداد گزشتہ سے آدھی ہوئی ہے مگر پھر بھی گزشتہ سال 5سال سے کم عمر کے 66لاکھ بچے جاں بحق ہوئے۔

یو این چلڈرن ایجنسی کے مطابق کل تعداد میں سے نصف ہلاکتیں صرف پانچ ممالک پاکستان، بھارت، نائجیریا، کانگو اور چین میں ہوئیں۔ یونیسیف کے ایگزیکٹو ڈرائریکٹر کے مطابق حکومتی مضبوط حکمت عملی، ٹھوس اقدامات اور وسائل کے مناسب استعمال سے زچہ بچہ کی شرح اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ورپوٹ کے مطابق معصوم جانوں کا ضیاع کرنے والی بڑی بیماریاں ملیریا، نمونیا اور اسہال ہیں جن سے تقریباََ روزانہ 6ہزار بچے جاں بحق ہورہے ہیں جن میں نصف غذائیت کی کمی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔


اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ اہداف کے تحت پاکستان کو 2015ء تک نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات کم کرنا ہے یعنی ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح 59فیصد سے کم کر کے 40کی سطح پر لانا ہے جبکہ زچگی کے دوران خواتین کی اموات کو کم کرنا بھی اہداف میں شامل ہے۔ اس صورتحال میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان 2015ء تک اقوام متحدہ کے مطلوبہ اہداف پر پورا اتر سکے گا جبکہ ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کی وجہ سے بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر اپنی عمر کے پانچ سال پورے ہونے سے قبل ہی مر جاتے ہیں۔


یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2010ء میں یہ تعداد 43فیصد تھی جبکہ 1990ء میں 55فیصد تھی۔ اقتصادی جائزہ کے مطابق پاکستان کی آبادی ایک اعشاریہ نو کی شرح سے بڑح رہی ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی 18کروڑ 19لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جن میں 51فیصد مرد اور 49فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان میں پانچ کروڑ 72لاکھ افراد کمانے کے قابل ہیں لیکن ان میں سے صرف 5کروڑ 60کو ملازمت کے مواقع میسر ہیں لہٰذا ملک میں بیروزگاری کی شرح چھ اعشاریہ دو فیصد ہے۔


اب حکومت نے غربت کی تعریف تبدیل کردی ہے اور اب یومیہ 8ڈالر سے کم کمانے والے خط غربت سے نیچے شمار ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں صحت کے ساتھ تعلیمی شعبہ میں بھی سہولیات کا فقدان ہے۔ پاکستان کے اقتصادی جائز 2013-14ء کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح 60فیصد ہے لیکن 5سے 9 سال کی عمر کے 67لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کیلئے سکول نہ جانے والوں میں 39فیصد لڑکے اور 46فیصد لڑکیاں ہیں۔


یونیسیف اور یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری کے 67لاکھ سے زائد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر 10میں سے 3بچے کبھی سکول نہیں گئے جبکہ سکول نہ جانے والے لڑکوں سے لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
38.9فیصد لڑکیاں بنیادی تعلیم کیلئے کبھی سکول نہیں گئیں۔ 30.2فیصد بچے پرائمری اور 42.8فیصد بچے بنیادی تعلیم مکمل کئے بغیر ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔

پاکستان کے 27لاکھ بچے ثانوی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور اگر بچوں کی تعلیم کا مسئلہ فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو پاکستان میں غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی خام ملکی پیداوار کا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ حکومت کے مطابق 2018ء تک تعلیم کیلئے مختص فنڈ دوگنا کردیا جائے گا۔ صحت عامہ پر پاکستان خام ملکی پیداوار کا محض چار فیصد ہی خرچ کرتا ہے۔

علاج اور تعلیم کو بجٹ میں اولین ترجیح دینے کے متعلق سوچنا حکومت کا کام ہے۔ ان بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث وہ بچے جن سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، گمنامی کے اندھیروں میں گم ہورہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بنیادی پہلوؤں کو بجٹ میں اولین ترجیح دی جائے تاکہ ہمارے بچے محرومی اور بے بسی سے نکل کر اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Acha Elaaj Or Taleem is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 November 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.