آبادی میں کمی بیشی سے حق تلفی کا اندیشہ

حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی تقریباً پونے اکیس کروڑ ہے۔ 1971ءمیں مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ تھی اس حساب سے اب 2017ءمیں ہماری چار گنا بڑھ گئی ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ دنیا میں بلند ترین شرح شمار ہوتاہے۔

منگل 10 اکتوبر 2017

Aabadi Main Kami Beshi Sy Haq Talfi Ka Andeshah
رانا زاہد اقبال:
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی تقریباً پونے اکیس کروڑ ہے۔ 1971ءمیں مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ تھی اس حساب سے اب 2017ءمیں ہماری چار گنا بڑھ گئی ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ دنیا میں بلند ترین شرح شمار ہوتاہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ان دونوں اکائیوں کی آبادی بھی اگر شامل کر لی جائے تو ہماری مجموعی آبادی اکیس کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

گزشتہ ادوار میں آبادی کے سائز کو اثاثہ سمجھا جاتا تھا، غریب والدین کا خیال تھا کہ بچے بڑے ہو کر اضافی آمدنی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن آج تیزی سے بڑھتی آبادی کے مقابلے میں اگر وسائل میں بھی اس شرح سے اضافہ نہ ہو تو غربت میں اضافہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

جوں جوں آبادی بڑھتی ہے رہائشی ضروریات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ جس سے قابلِ کاشت رقبے کو رہائشی ضروریات کے لئے استعمال کرنا پڑ جاتا ہے اور قابلِ کاشت رقبے میں کمی ہونے سے غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زمین بھی کم ہوتی جاتی ہے۔

اس وقت پاکستان کے 40 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ تقریباً 50فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ عمومی طور پر آبادی میں تیز رفتار اضافہ غریب معاشروں میں پایا جاتا ہے جہاں ایک طرف محنت کشوں اور غریبوں کو روزی روٹی کے لئے زیادہ ہاتھ درکار ہوتے ہیں وہاں سماجی گھٹن بھی اس تیز اضافے کا باعث بنتی ہے۔ غریب ممالک میں جہاں آبادی بہت زیادہ ہے معاشرے کی پسماندگی کے سبب سب سے بڑے معاشی اثاثے مین پاور کو انسانی سماج کی ترقی کے لئے بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔

معاشرے کی منصوبہ بندی کے لئے آبادی کی رفتار کا تعین کرنا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں مردم شماری کا مقصد منصوبہ بندی کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل اور ان کی فلاح بہبود ہے۔کسی ملک و معاشرے میںمضبوط، منظم سیاسی ڈھانچے اور جامع بنیادوں پر سماجی و معاشرتی خدمات کی فراہمی یہ جانے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اس میں کل کتنے افراد ہیں۔

اسی لئے ہر صوبہ اور شہر اپنی آبادی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، جس کا مقصد ملکی وسائل میں زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ اپنے علاقے کے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل اکٹھے کئے جا سکیں۔ اسی لئے مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد سے سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور نتائج کو بدلنے کی کوشش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے جس سے معاشرے کے سلگتے ہوئے قومی فرقہ ورانہ تضادات کو مزید تقویت ملی ہے۔

خاص طور پر مختلف قوم پرست پارٹیوں نے اس مردم شماری پر زیادہ اعتراضات کئے ہیں۔ کیونکہ ان پارٹیوں کی سیاست زیادہ تر لسانی اور قومی بنیادوں پر ہے۔ اس صوبائی مخاصمت کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ سات دہائیوں کا طویل سفر طے کرنے کے باوجود بھی ایک جدید قومی ریاست اور یکجا پاکستانیت پر مبنی سماجی و اقتصادی اور تاریخی کردار تشکیل نہیں پا سکا ۔

حکمران اس طبقاتی اور قومیتی تفریق و ناہمواری کو دور کرنے کی بجائے اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کے اربابِ اختیار اور مرکزی ادارے اس محرومی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو دوسری طرف موجودہ استحصالی نظام میں قوم پرست بھی چھوٹی اکائیوں کے استحصال کا کوئی حقیقی حل دینے میں ناکام رہے ہیں۔سندھ حکومت نے مردم شماری میں سندھ کی آبادی کم ظاہر کرنے پر وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

پیپلز ہارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کے مطابق ایک منصوبہ بندی کے تحت مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے تاکہ سندھ کی آبادی کم ظاہر کرنے سے سندھ کے قابلِ تقسیم پول میں حصہ نہ بڑھ سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو مردم شماری کے دوران ہی خدشات تھے اور وفاقی حکومت نے سندھ کے اس وقت خدشات ختم نہیں کئے اور مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے اجراءمیں سندھ کی آبادی کم ظاہر کرنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ سندھ کے تمام خدشات درست تھے ۔

نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے دوران مطالبہ کیا گیا تھا کہ گھر شماری کے دوران ہی ہر گھر کے فرد کو فارم کی فوٹو کاپی فراہم کی جائے تا کہ کوئی گھر بھی شماری سے رہ نہ جائے مگر وفاقی حکومت نے سندھ کے خدشات پر کان نہ دھرا اور لمبے عرصے تک مردم شماری کے نتائج راز میں رکھے۔ بظاہر یہ اعتراض بادی النظر میں کافی معقول دکھائی دیتا ہے اور اس پر تحفظات دور کرنا کچھ مشکل بھی نہیں۔

اگر اتنا سا کرلینے سے معاشرے میں مطابقت پیدا ہونے کی امید ہو تو ایسا ضرور کرنا چاہئے۔سیاست کا دوسرا نام معاشرے میں موجود مختلف طبقات اور اداروں کے درمیان وسائل کی تقسیم ہے۔ پاکستان میں اس مقصد کے لئے قائم کردہ میکانزم کا نام نیشنل فنانس کمشن ایوارڈ ہے جو عام طور پر بجٹ سے پہلے مرکز اور صوبوں کے مابین اور پھر صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا اعلان کرتا ہے ۔

جس فارمولے کے تحت وسائل تقسیم کئے جاتے ہیں چونکہ اس میں آبادی کا عنصر سب سے بڑا ہے اس لئے لسانی بنیادوں پر منظم اکائیوں کے لئے مرد م شماری کے نتائج بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سے انہیں عددی قوت کا پتہ چلتا ہے اور اگر ان نتائج کی روشنی میں انہیں اپنی تعداد کم ہونے کا اشارہ ملتا ہے تو وہ نتائج کو مشکوک سمجھتی ہیں یا ان کے مطابق اپنی سیاسی حکمتِ عملی کی تشکیل کرتی ہیں۔

مردم شماری کے نتائج کا ایک دلچسپ پہلو شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے ابتدائی نتائج کے مطابق پنجاب میں شہری آبادی صوبے کی کل آبادی کا 36.71فیصد ہے یعنی پنجاب میں اب بھی 63فیصد سے زیادہ لوگ دیہات میں رہتے ہیں لیکن سندھ میں دیہی اور شہری آبادی میں توازن شہری آبادی کے حق میں ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق اگر شہری آبادی میں اضافے کی شرح کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پنجاب میں اس کی شرح زیادہ ہے لیکن سندھ میںشہری آبادی کا تناسب آبادی کا 52.02فیصد شہروں میں رہائش پزیر ہے۔

یہ صورتحال مستقبل کی صوبائی سیاست کے لئے اہم مضمرات کی حامل ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کو دیہی علاقوں سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ جب کہ ایم کیو ایم کو شہر سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم لسانی بنیاد پر ہے چنانچہ دیہی اور شہری آبادی کے توازن میں تبدیلی لسانی بنیادوں پر سیاست پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کو کو سندھ میں دیہی آبادی کے مقابلے میں شہری آبادی میں اضافے پر تشویش ہے لیکن ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا ہے اور دونوں ہی اسے سازش قرار دے رہے ہیں۔

حقائق کچھ بھی ہوں لیکن 2017ءکی مردم شماری کے نتائج سے صوبہ سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام حصوں میں آبادی کی کمی بیشی پر فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا کیونکہ اس کا تعلق صرف وسائل اور محاصل کی تقسیم سے نہیں بلکہ اس سے قومی تشخص بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپریل 2018ءمیں حتمی نتائج کے اعلان سے قبل تمام صوبوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Aabadi Main Kami Beshi Sy Haq Talfi Ka Andeshah is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 October 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.