ناسا وائجر 1 اور وائجر 2 کی رفتار اور فاصلہ کیسے معلوم کرتا ہے؟

وائجر اور اس قسم کے دوسرے خلائی جہازوں کو ریڈیو نیویگیشن (radio navigation) کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے

قدیر قریشی منگل 16 جنوری 2018

How does NASA acquire with precision and accuracy the recession speeds of Voyagers 1 and 2?

تحریر: Viktor T. Toth,
ترجمہ اور تلخیص: قدیر قریشی
وائجر اور اس قسم کے دوسرے خلائی جہازوں کو ریڈیو نیویگیشن (radio navigation) کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے – جن ریڈیو سگنلز کے ذریعے ہم خلائی جہازوں کو احکامات بھیجتے ہیں انہی سگنلز کو استعمال کر کے ہم خلائی جہازوں کی پوزیشن اور زمین کے ریفرنس سے ان کی رفتار بھی معلوم کرتے ہیں
جہاز کی پوزیشن دریافت کرنے کے لیے Doppler navigation کا استعمال ہوتا ہے – زمین سے اس خلائی جہاز کی طرف ایک برقی مقناطیسی سگنل بھیجا جاتا ہے جس کی فریکونسی انتہائی precisely کنٹرول کی جاتی ہے - خلائی جہاز اس سگنل کو بنا کسی تبدیلی کے واپس زمینی اسٹیشن کی طرف نشر کرتا ہے – زمین پر وصول ہونے والے اس سگنل کی فریکونسی کو بہت احتیاط کے ساتھ ناپا جاتا ہے – Doppler effect کی وجہ سے اس موصول شدہ سگنل کی فریکونسی میں کچھ کمی آ جاتی ہے – یہ کمی خلائی جہاز کی رفتار پر منحصر ہوتی ہے جس سے جہاز کی رفتار بہت accuracy کے ساتھ معلوم کی جا سکتی ہے
خلائی جہاز کی پوزیشن ناپنے کا ایک اور طریقہ ranging کہلاتا ہے – اس طریقے میں جہاز کی طرف بھیجے گئے برقی مقناطیسی سگنل کو ایک خاص طریقے سے modulate کیا جاتا ہے یعنی اسے گھٹایا اور بڑھایا جاتا ہے – خلائی جہاز اس سگنل کو بنا کسی تبدیلی کے واپس زمین کی طرف نشر کرتا ہے – اس modulation کی وجہ سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ زمین پر موصول ہونے والا سگنل کتنی دیر پہلے زمین سے خلائی جہاز کی طرف بھیجا گیا تھا – چونکہ خلا میں روشنی کی رفتار ہمیں معلوم ہے اس لیے اس سگنل سے ہم جہاز کا زمین سے فاصلہ معلوم کر سکتے ہیں
اگرچہ جہاز سے موصول ہونے والے سگنل کی فریکونسی اور سگنل کے واپس زمین پر پہنچنے کے وقت پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں لیکن ان میں سب سے نمایاں اثر جہاز کی رفتار اور اس کے زمین سے فاصلے کا ہوتا ہے – جہاز کی حرکات بنیادی طور پر حرکت کے میکانی اصولوں کے تابع ہوتی ہیں - اس جہاز پر راکٹ کی تھرسٹ کے علاوہ سورج اور زمین کی کششِ ثقل، سورج کے شمسی جھکڑ یعنی سولر ونڈ، جہاز سے حادثاتی طور پر خارج ہونے والے ایندھن اور سمت کنٹرول کرنے والے steering rockets کی فائرنگ بھی اثر انداز ہوتی ہے – زمین بھی ساکن نہیں ہے اور سورج کے گرد مداری حرکت میں ہے اور اپنے محور کے گرد بھی گھوم رہی ہے – اس کے علاوہ زمین میں اور بھی کئی قسم کی حرکات پائی جاتی ہیں – برقی مقناطیسی سگنل اپنے سفر کے دوران زمین کے کرہِ ہوائی یا شمسی جھکڑوں میں موجود چارجڈ پارٹیکلز اور ہوا میں موجود پانی کے مالیکیولز سے ٹکراتا ہے جس سے اس سگنل میں کچھ تبدیلی آ جاتی ہے – اس کے علاوہ اس سگنل کو زمین اور سورج کی کششِ ثقل بھی متاثر کرتی ہے
اس تمام ڈیٹا اور انفارمیشن کو کمپیوٹرز میں فیڈ کیا جاتا ہے جہاں پیچیدہ الگورتھم اس ڈیٹا کو پراسس کرتے ہیں اور خلائی جہاز کی سہ جہتی حرکات کو ماڈل کرتے ہیں – اس ماڈل میں مختلف اجسام کی کششِ ثقل کے اثر سمیت ان تمام عوامل کا اثر بھی شامل ہوتا ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا – یہ سافٹ ویئر برقی مقناطیس سگنل کی رفتار اور مختلف عوامل سے اس میں ہونی والی تبدیلیوں کو بھی مدِنظر رکھتی ہے –
اس سافٹ ویئر میں بہت سے پیرامیٹرز ہوتے ہیں جن میں سے کچھ ہمیں پہلے سے معلوم ہوتے ہیں جبکہ کچھ پیرامیٹرز یہ سافٹ ویئر موصول ہونے والے ڈیٹا سے کیلکولیٹ کرتی ہے – ان پیرامیٹرز کی ابتدائی قیمتوں کو اندازے سے فرض کر لیا جاتا ہے اور ان اندازوں سے مختلف کیلکولیشنز کر کے نتائج نکالے جاتے ہیں – ان نتائج کا موازنہ پیمائش شدہ ڈیٹا سے کیا جاتا ہے – اس طرح کیلکولیٹ شدہ اور پیمائش شدہ ڈیٹا میں فرق کو غلطی یا error کہا جاتا ہے اور اس error کی مقدار سے ان پیرامیٹرز کا اندازہ بہتر کیا جاتا ہے – اس طرح کی کیلکولیکشنز کو بار بار کرنے سے اس error کو کم سے کم کر کے ان پیرامیٹرز کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے – اگرچہ اس error کو کبھی صفر نہیں کیا جا سکتا لیکن بار بار کیلکولیشنز سے ہم ان پیرامیٹرز کی وہ قیمتیں دریافت کر سکتے ہیں جن کو استعمال کرنے سے یہ error کم سے کم ہو جاتی ہے - ان پیرامیٹرز میں خلائی جہاز کی پوزیشن اور رفتار کے علاوہ مختلف فلکی اجسام کے ثقلی اسراع کی مقدار بھی شامل ہے – دوسرے الفاظ میں خلائی جہاز اور اس کی پوزیشن دریافت کرنے والے سگنلز کو استعمال کر کے ہم مختلف سیاروں کی کمیت اور دوسری خصوصیات بھی اخذ کر سکتے ہیں
یہ سافٹ ویئر صرف چند مخصوص حالات میں ہی استعمال نہیں ہوتی بلکہ جب تک خلائی جہاز کام کرتا رہتا ہے تب تک یہ سافٹ ویئر بھی مسلسل کام کرتی رہتی ہے اور ان پیرامیٹرز کا بہتر سے بہتر اندازہ لگانے میں جٹی رہتی ہے – خاص طور پر جب خلائی جہاز کسی سیارے کے پاس پہنچ رہا ہو یا کسی وجہ سے اس کا راستہ تبدیل کرنا مقصود ہو اس وقت اس سافٹ ویئر کے نتائج پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کیونکہ سیارے کے نزدیک ایک معمولی سی غلطی سے بھی خلائی جہاز کی سمت تبدیل ہو سکتی ہے اور جہاز سیارے پر گر کر تباہ ہو سکتا ہے
اس طرح کی نیویگیشن سکیم کی درستگی تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے – نظامِ شمسی سے متعلق ہمارا علم (جس میں کششِ ثقل کے اسراع کی مقدار اور شمسی جھکڑوں میں موجود چارجڈ پارٹیکلز کی مقدار شامل ہیں)، برقی مقناطیس سگنل جنریٹر کی فریکونسی stability (یعنی اس کی مطلوبہ فریکونسی میں زیادہ سے زیادہ کتنی کمی بیشی ہو سکتی ہے) اور ہماری خلا کی خصوصیات کی سمجھ – ہمارا ان عوامل کا علم اب اتنا ہو چکا ہے کہ اس پراسیس سے انتہائی precise پیمائش ممکن ہے – اصولاً ہم کروڑوں میل دور خلائی جہاز کی پوزیشن چند میٹر کی accuracy کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں – یہ الگورتھم اتنی precise پیش گوئیاں کرتے ہیں کہ 64 بٹ فلوٹنگ پوائنٹ ارتھمیٹک floating point arithmetic)) بھی کافی نہیں رہا – مثال کے طور پر سورج کا زمین سے فاصلہ کھربوں میٹر کا ہے جسے فلوٹنگ پوائنٹ میں ظاہر کرنے کے لیے اگر 64 بٹ ارتھمیٹک استعمال کیا جائے تو اس کی ایکوریسی اتنی کم ہو جاتی ہے کہ ایسی کیلکولیشنز سے ہم محض فاصلوں کے اندازے ہی لگا سکتے ہیں - خلائی جہاز کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ایکوریسی ناکافی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

How does NASA acquire with precision and accuracy the recession speeds of Voyagers 1 and 2? is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 January 2018 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.