آئین سٹائن کا تصور زماں

جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتا دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنی فطری رفتار جو کہ روشنی کی رفتار ہے، کا کچھ حصہ سپیس میں شیئر کر دیتا ہے اور اس وجہ سے ٹائم میں اس کا شیئر پہلے سے کم ہو جاتا ہے

Idrees Azad ادریس آزاد بدھ 25 اکتوبر 2017

Einstein ka tasawwur e zamaaN

آئن سٹائن کا تصورِ زماں یہ ہے کہ ’’وقت‘‘ مکان کی بُعدِ رابع یعنی چوتھی ڈائمینشن ہے۔ وقت، مکان کی تین ابعاد میں سے ہر ایک کے ساتھ اس طرح جُڑا ہوا ہے جیسے کسی جولاہے نے اِن دھاگوں کی بُنائی کرکے ایک جال بنا دیا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ مکان کے تین ابعاد ہیں، جنہیں ہم ’’ایکس، وائی، زیڈ‘‘ سے ظاہر کرنے کے عادی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خط اردو میں ’’محور‘‘ اور انگریزی میں ’’ایکسز‘‘ کہلاتا ہے۔ اِن تین خطوط سے چھ جہات کا ظہور ہوتا ہے، جنہیں فارسی میں ’’شش جہات‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ چھ جہات ایسے ہیں،
دائیں بائیں
اُوپر نیچے
آگے پیچھے
ان میں سے ہر لائن کے ساتھ ’’ٹائم‘‘ کا خط جوڑا بلکہ بُنا جا سکتا ہے۔ فرض کریں ایک نقطہ (گیند نما) دائیں بائیں یعنی صرف ایک لائن پر حرکت کر رہا ہے، جیسے چیونٹی کسی دھاگے پر چلتی ہے تو ہم کہیں گے، ’’ ایک خط، ایکس ایکسز (محور) کا اور ایک خط ٹائم کا مل کر جال کی ایک تہہ کو بُن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ حرکت سپیس کی سنگل ڈائمنشن اور ٹائم کی سنگل ڈائمینشن میں ممکن ہوئی ہے۔ بعینہ اسی طرح سپیس کی تینوں ڈائمینشنز کے ساتھ ٹائم کا رشتہ جُڑا ہوا ہے۔ چنانچہ آئن سٹائن کا بُنا ہوا جال بہت گھنا ہے۔
یہ جال فورتھ ڈائمینشنل ہے۔ اس میں تین ڈائمنشنز مکان کی اور چوتھی ڈائمنشن زمانے کی شامل ہے۔ اِسی بُنائی کی وجہ سے آئن سٹائن نے زمان و مکان کے نئے رشتے کو ’’سپیس ٹائم فیبرک‘‘ کا نام دیا۔ اور یوں گویا زمانہ، مکان سے الگ نہیں۔ آئن سٹائن کے جدید ’’زمانے‘‘ کے مطابق ’’کب‘‘ اور ’’کہاں‘‘ دو الگ الگ الفاظ نہیں۔ بلکہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ پکے جُڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں شعرا اور ادیبوں کے پاس خالقِ کائنات کے لیے ایک ہی استعارہ ہوا کرتا تھا یعنی ’’کُوزہ گر‘‘، جسے ہم زیادہ سادہ زبان میں ’’کمہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے سپیس ٹائم فیبرک نے شاعروں کے لیے ایک اور استعارہ ایجاد کر دیا، یعنی اب اردو کے شعرا اور ادیب چاہیں تو خدا کے لیے جولاہے کا استعارہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اب سپیس ٹائم ایک فیبرک ہے۔ آئن سٹائن نے زمانے کو مکان کی بُعدِ رابع کہا تو ’’زمانے کے عاشق‘‘ علامہ اقبال نے اپنے خطبات ’’دی ریکنسٹرکشن آف ریلجس تھاٹ اِن اسلام‘‘ میں اِس خیال کی مخالفت کی۔ اقبال نے لکھا،
’’لیکن اِس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم سہ بُعدی ہستیاں جس چیز کو زمانے سے تعبیر کرتی ہیں وہ دراصل مکان ہی کا ایک بُعد ہے۔ جسے ہم کماحقہُ محسوس نہیں کر سکتے۔ لیکن جو فی الحقیقت اقلیدسی مکان کے ابعادِ ثلاثہ سے، جن کو ہم ٹھیک ٹھیک محسوس کر لیتے ہیں، قطعاً مختلف نہیں۔ بالفاظِ دگر زمانہ کوئی تخلیقی حرکت نہیں، نہ مستقبل کے حوادث تازہ حوادث، بلکہ شروع ہی سے متعین اور کسی نامعلوم مکان میں موجود‘‘۔(تشکیلِ جدید)
علامہ اقبال نے اِس خدشے کا اظہار کیا کہ آئن سٹائن کے نظریہ سے زمانے کی خلاقیت ختم ہو جاتی ہے۔ اپنے وقت میں علامہ اقبال نے بالکل ٹھیک خدشے کا اظہار کیا لیکن بعد کی فزکس نے ’’لامتناہی ٹائم لائنز‘‘ کا نظریہ پیش کرکے گویا زمانے کے جبر کو ایک طرح سے دوبارہ توڑ دیا۔ تاہم یہ مضمون ’’لامتناہی ٹائم لائنز‘‘ کے بیان کا متحمل نہیں ہے۔
بیسویں صدی کا علمی آغاز آئن سٹائن کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی سے ہوتا ہے۔ 1905ء میں آئن سٹائن نے اپنا خصوصی نظریۂ اضافیت، جسے انگریزی میں سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کہتے ہیں، پیش کیا تو شروع شروع میں کسی نے اِس خصوصی نظریے کی خصوصیت کو نہ سمجھا اور آئن سٹائن کا زمان و مکاں وقتی طورپر نظرانداز کردیا گیا۔ لیکن فزکس اور ریاضی کے خاص خاص لوگوں کو پھر بھی آئن سٹائن کے اکتشافات میں کچھ عجیب و غریب سی کشش محسوس ہورہی تھی۔ آئن سٹائن کا خصوصی نظریۂ اضافیت ایک سو دس سالہ جدید فزکس میں سب سے پہلے وارد ہوا اور تاحال سب سے مشکل تصور تسلیم کیا جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نظریہ میں زمان و مکاں کو موضوع بنایا گیا ہے اور زمان و مکاں کا کوئی بھی تصور ہو اُسے عقل کی گرفت میں لانا ہمیشہ مشکل رہا ہے کجا کہ آئن سٹائن کا نہایت منفرد ’’تصورِ زمان و مکاں‘‘ جس کی حقیقت ناظر تک محدود ہو کر پیچیدہ تر صورت اختیار کر گئی ہے۔ زمان ومکاں میں دو چیزیں ہیں ایک زماں یعنی ٹائم اور دوسرا مکان یعنی سپیس۔ ہم اِس مضمون میں صرف زمانے پر بات کریں گے۔
زمان (ٹائم) کیا ہے؟:
جب ’’زمان‘‘ کی بات آتی ہے تو سینٹ آگسٹین (Saint Augustine) کا ذکر کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔ انہوں نے کہا تھا،
“What then time is? If no one asks me, I know, if I wish to explain it to him who asks, I know not”
ترجمہ: ــ’’پھر وقت کیا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے نہ پوچھے تو مجھے پتہ ہے کہ وقت کیا ہے۔ اور اگر کسی کے پوچھنے پر مجھے سمجھانا پڑ جائے تو میں نہیں جانتاـ کہ یہ کیا ہے‘‘
آئیے وقت کی بات کو نہایت سادہ سطح سے چھیڑتے ہیں۔ ہم سب گھڑیوں سے واقف ہیں۔ آج تو ہم اہل زمین ایک مشترکہ گھڑی کو معیار مان کر وقت کا حساب کتاب رکھتے ہیں لیکن ابھی ڈیڑھ صدی پہلے تک ہر ملک کا اپنا الگ ٹائم ہوا کرتا تھا۔ شروع شروع میں جب ٹرین ایجاد ہوئی تو بڑے حادثات ہوئے اور بڑے مسائل پیدا ہو گئے۔ مثال کے طور پر پیرس سے لندن جانے والی ٹرین پیرس کے وقت کو معیار مان کر چلتی لیکن لندن کے وقت کو معیار مان کر رُکتی۔ پیرس اور لندن کے اوقات کے درمیان کوئی باہمی سمجھوتا نہ ہونے کی وجہ سے حادثات پیش آتے اور مسافروں کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ پیرس اور لندن فقط مثال کے طور پر لیے گئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ دور دراز ممالک کے درمیان ٹرین کا سفر شروع ہوا تو اہلِ زمین کا مشترکہ ’’ٹائم‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا مسئلہ سامنے آیا جسے حل کرنا وقت کے سائنسدانوں کی ذمہ داری بن گئی۔ یوں ایک ’’معیاری وقت ‘‘(Standard Time) ایجاد کیا گیا جو سورج کی ایک مکمل گردش سے پیدا ہونے والے دن کو پینڈولم کے برابر وقفوں کے درمیان تقسیم کرکے ایک سائنٹفک معیار پر مرتب کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’’وقت‘‘ کو زیادہ سے زیادہ معیاری بنانے کے لیے باریک سے باریک وقفوں کی تقسیم ہوتی رہی اور آج سیزیم کے ایٹم کے ارتعاش کو باریک سے باریک وقفۂ زمان شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی پہلی درست ترین گھڑی ہے۔ سیزیم ایٹامک کلاک ایک سیکنڈ کا نو ارب انیس کروڑ چھبیس لاکھ اکتیس ہزار سات سو سترواں (9292631770th)حصہ بتاتا ہے۔ وقت کے اتنے مختصر وقفے میں کیا کچھ ممکن ہے۔ شاید ہم انسانوں کے لیے یہ بہت چھوٹا ہے لیکن اگر ہم ایک الیکٹران ہوں تو یہ ہمیں ایک بہت بڑا وقفہ محسوس ہوگا۔
وقت کے بارے میں عموماً کہا جاتا ہے کہ ’’وقت گزر رہا ہے‘‘۔ آئن سٹائن کی فزکس کے اعتبار سے یہ درست خبر نہیں ہے۔ وقت نہیں گزرتا، بلکہ اشیا وقت میں سے گزرتی ہیں۔ چونکہ اشیا وقت میں سے گزرتی ہیں چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اشیا آگے کی طرف جانے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کریں۔ کیا ہم ماضی میں بھی سفر کر سکتے ہیں؟ کوئی آبجیکٹ وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے وہ ماضی میں بھی سفر کر رہا ہوتا ہے۔ وقت میں آبجیکٹس کا سفر سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے منطقی فہم کو قدرے ترقی دینا ہوگی۔ ہمارے سامنے میز پر رکھی ہوئی کتاب بظاہر ساکت ہے۔ لیکن یہ وقت میں سے گزر رہی ہے، ماضی اور مستقبل دونوں میں سے۔ ہاں یہاں پہلے ایک اور بات سمجھ لی جائے تو مزید آسانی ہو جائے گی۔
ایک ہوتا ہے آبجیکٹس (اشیا) پر سے وقت کا گزرنا
ایک ہوتا ہے آبجیکٹس (اشیا) کا وقت میں سے گزرنا
یہ دونوں الگ الگ اور مختلف باتیں ہیں۔ پہلا خیال کہ وقت اشیا پر سے گزر کرتا ہے کلاسیکی ٹائم تھیوری ہے۔ دوسرا خیال کہ اشیا وقت میں سے گزرتی ہیں ماڈرن تھیوری ہے۔ پہلی تھیوری کے مطابق اشیا مکانِ مطلق میں معلق ہیں اور وقت ان پر سے ایسے گزرتا ہے جیسے ندی کی تہہ میں پڑے کسی پتھر پر سے ندی کا پانی گزرتا ہے۔ یعنی وقت ایک دریا یا ندی کی طرح سے بہتا ہے۔ لیکن آئن سٹائن کے نظریۂ وقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ وقت میں سے اشیا گزر کرتی ہیں۔ جیسے کسی راہداری میں سے کسی راہی کا گزرنا۔ وقت کی ایک ٹائم لائن، ایک راہداری ہے۔ آئن سٹائن کے بعد کی فزکس کو دیکھا جائے تو ٹائم لائنز کی کوئی انتہا نہیں۔ ہر ٹائم لائن شروع سے آخر تک ماضی اور مستقبل کے درمیان بچھی ہوئی سڑک کی طرح سے ہے۔ کوئی آبجیکٹ وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے اور اسی لمحے میں وہ ماضی میں بھی سفر کر رہا ہوتا ہے۔ میز پر رکھی کتاب، جو ہر لمحہ، ہر سیکنڈ کے ساتھ مستقبل میں داخل ہو رہی ہے، یہ ہر لمحہ اور ہر سیکنڈ کے ساتھ ماضی میں بھی اسی رفتار کے ساتھ داخل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے سامنے موجود ہر آبجیکٹ لمحۂ موجود یعنی پریزینٹ میں محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ لمحۂ موجود یا پریزنٹ وہ مقام ہے جو ماضی اور مستقبل کے عین درمیان واقع ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی حرکت کرتی ہوئی چیز ہمیں محض اس وقت دکھائی دیتی ہے جب وہ ہمارے نکتۂ نگاہ سے سپیس میں حرکت کرتی ہے۔ کھلی آنکھوں سے ہم حرکت کا صرف ایک حصہ دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی آبجیکٹ دو طرح کی حرکت کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ ٹائم میں سے گزرتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ سپیس میں سفر کرتا ہے۔ کسی آبجیکٹ کے، ٹائم میں سے گزرنے کی حرکت کو حواسِ خمسہ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا جبکہ اُس کے سپیس میں حرکت کرنے کو ننگی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہم سب زمین پر رہتے ہیں اور یہ گویا ایک بس(Bus) ہے جس میں ہم سب سوار ہیں۔ یعنی جب ایک ہی بس میں سب لوگ بیٹھے ہوں تو ہماری رفتار ایک دوسرے کے لیے زیرو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زمین پر ایک دوسرے کے لیے ٹائم کی رفتار نہیں دیکھ پاتے۔ جب بس میں کوئی شخص اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس میں چلنے لگے تو سب مسافر اس کی حرکت دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم زمین پر حرکت کرتی چیزوں کی سپیس میں حرکت تو دیکھ سکتے ہیں لیکن ٹائم میں حرکت کے اعتبار سے ہم سب ایک بس میں سوار ہیں۔
دراصل رفتار کسی آبجیکٹ کی لازمی صفت ہے۔ دنیا کا کوئی آبجیکٹ ایسا نہیں جو حرکت نہ کر رہا ہو۔ چونکہ عام اشیا کی رفتاریں ایک دوسرے کے لیے اضافی ہیں اور یہ صرف روشنی ہے جو ہر طرح کے آبجیکٹس سے ایک مستقل رفتار کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ چنانچہ فرض کیا جاتا ہے کہ ہر شے روشنی کی رفتار سے وقت میں سفر کر رہی ہے۔ ایسی اشیا بھی جو ہمیں اپنے آس پاس رُکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں روشنی کی رفتار سے سفر کررہی ہیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن چونکہ اشیا کی رفتاریں ناظر مقرر کرتا ہے اس لیے ہم ایسا فرض کرتے ہیں جس سے ریاضی کی مساواتوں میں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
مثلاً آپ کے سامنے میز پر جو اشیا پڑی ہیں۔ یہ آپ کے نکتۂ نگاہ سے سپیس میں رُکی ہوئی ہیں۔ اب چونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہر شے روشنی کی رفتار پر ہے تو پھر ایسی اشیا جو ہمارے نکتۂ نگاہ سے رُکی ہوئی ہیں اُن کی روشنی کی رفتار کہاں گئی؟ دراصل وہ اشیا وقت میں روشنی کی رفتار سے محوِ سفر ہیں۔ چنانچہ جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتا ہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ وقت میں روشنی کی رفتار سے کچھ کم رفتار میں حرکت کر رہا ہے کیونکہ اُس نے اپنی رفتار کا کچھ حصہ سپیس میں صرف کر دیا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک ایسی کار فرض کریں جو ’’صرف سپیس میں، یعنی ایکس ایکسز پر‘‘ روشنی کی رفتار یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ سے حرکت کر رہی ہے۔ ایسی کار کے لیے ٹائم بالکل بھی نہ گزرے گا۔ ٹائم کے گراف پر وہ زیرو ہوگی۔
ایک رکی ہوئی کار جو ہمارے نکتۂ نگاہ سے بالکل بھی حرکت نہیں کر رہی وہ اپنی پوری رفتار ٹائم کے گراف پر خرچ کر دیتی ہے۔ اور اپنی رفتار کا ذرا سا حصہ بھی سپیس میں صرف نہیں کرتی۔ چنانچہ سپیس کے خط پر اُس کی حرکت زیرو جبکہ ٹائم کے خط پر روشنی کی پوری رفتار کے ساتھ جاری رہتی ہے۔
لیکن اگر وہی آبجیکٹ کھلی آنکھوں سے حرکت کرتا ہوا دکھائی دینے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ ٹائم کے ساتھ ساتھ سپیس کے خط پر بھی متحرک ہو گیا۔ اور سپیس ٹائم کے گراف پر درمیان میں کہیں نظر آتا ہے۔ یوں وہ اپنی لازمی رفتار یعنی روشنی کی رفتار کا کچھ حصہ سپیس کے ساتھ شیئر کرنے لگتا ہے۔ اور وقت میں اس کے گزرنے کا عمل اُسی تناسب سے سست پڑ جاتا ہے۔
لہٰذا کار کی فطری رفتار یعنی روشنی کی رفتار اب ٹائم کے خط پر پہلے سے قدرے کم صرف ہو رہی ہے نہ کہ پہلے کی طرح پوری کی پوری کیونکہ اس میں سے کچھ رفتار اب سپیس کے خط پر استعمال ہو رہی ہے۔ اگر کوئی آبجیکٹ کھلی آنکھ کو بہت زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سپیس کے خط پر اپنی فطری رفتار کا قدرے زیادہ حصہ خرچ کر رہا ہے۔ اگر کوئی آبجیکٹ سپیس کے خط پر اپنی فطری رفتار یعنی روشنی کی تمام تر رفتار خرچ کردے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اب وہ ٹائم کے خط پر زیرو رفتار کے ساتھ حرکت کررہا ہے۔ یعنی اُس نے اپنی تمام تر فطری رفتار سپیس میں استعمال کر دی ہے اور ٹائم میں اب اس کی رفتار باقی نہیں رہی۔ یعنی اس کا وقت رک گیا ہے۔
اس پورے خیال میں سب سے اہم فطری رفتار ہے۔ کائنات کا ہر آبجیکٹ رفتار کا حامل ہے۔ کوئی آبجیکٹ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار کا حامل نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر رُکا ہوا آبجیکٹ دراصل روشنی کی رفتار سے وقت میں سفر کر رہا ہے تو بعض لوگوں کا خیال اُس اصول کی طرف چلا جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار سے کائنات میں کوئی شے سفر نہیں کرسکتی اور یہ کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ ہم جان لیں کہ ہماری اشیا کو صرف ’’خلا یعنی سپیس میں ‘‘روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، وقت میں سفر کرنے کے لیے نہیں۔ وقت میں تو بوسیدہ عمارتیں بھی سفر کر رہی ہوتی ہیں جو کہ بظاہر رکی ہوئی ہیں۔ اور فزکس کے ماہرین اپنی ریاضی درست کرنے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ ہر رکی ہوئی شے وقت میں روشنی کی رفتار سے محوِ سفر ہے۔
ایک سوال کہ ہم کسی رکے ہوئے آبجیکٹ کو جب روشنی کی رفتار سے حرکت کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تو یہ دعویٰ کہ ہر رکا ہوا آبجیکٹ روشنی کی رفتار پر ہے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کے معانی یہ ہیں کہ وہ آبجیکٹ صرف وقت (ٹائم) میں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ اگر ہم یوں ذہن بنا لیں کہ یہ رفتار آبجیکٹس کی فطری رفتار ہے جو اشیا کے اندر ہوتی ہے، اور یہ کہ اس رفتار کے بغیر دنیا میں کوئی آبجیکٹ نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ یہ محض فرض کی گئی ہے، کیونکہ فی الحقیقت تو ایسے آبجیکٹ کا وجود نہیں ہو سکتا جو عین روشنی کی رفتار پر چل رہا ہو۔ دراصل ہر آبجیکٹ دوسرے آبجیکٹس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اُن کی آپس کی، ریلیٹو موشن کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ تمام کے تمام آبجیکٹس حرکت کررہے ہیں تو کوئی کم اور کوئی زیادہ رفتار پر ہو سکتا ہے۔ فطری رفتار محض فرض کی گئی رفتار ہے۔
خیر! تو ہم جان چکے کہ جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنی فطری رفتار جو کہ روشنی کی رفتار ہے، کا کچھ حصہ سپیس میں شیئر کر دیتا ہے اور اس وجہ سے ٹائم میں اس کا شیئر پہلے سے کم ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ وقت میں سے کم گزرتا ہے۔ بالفاظِ دگر حرکت کرتے ہوئے اجسام کا وقت رکے ہوئے اجسام کی نسبت آہستہ گزرتا ہے۔اور یوں حرکت کرنے سے اشیا کی عمر میں برکت پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی راز کی بات یہی فلسفیانہ نکتہ ہے کہ ’’روشنی کی رفتار اشیا کی صفت ہے جو ان میں لازمی موجود ہوتی ہے‘‘ ۔ جب کوئی شے سپیس میں تیز ہو جاتی ہے تو اس کے وقت گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ فزکس کی زبان میں اِسے ٹائم ڈائیلیشن کہتے ہیں۔
ٹائم ڈائیلیشن سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے تین بڑے مظاہر میں سے ایک ہے،
1۔ ٹائم ڈائیلیشن (وقت کی لچک)
2۔ لینتھ کنٹریکشن (فاصلوں کا سُکڑنا)
3۔ ماس انکریمنٹ (ماس کا بڑھ جانا)
لینتھ کٹریکشن اور ماس اِنکریمنٹ یعنی فاصلوں کا سکڑنا یا مقدارِ مادہ کا بڑھ جانا اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم فی الحال صرف ’’آئن سٹائن کے ٹائم‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹائم ڈائیلیشن آئن سٹائن کے تصورِ زماں کا خاصہ ہے۔ ٹائم ڈائیلیشن اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں روشنی کی رفتار کے قریب ترین رفتار سے سفر کرتا ہے۔ تب اُس آبجیکٹ کا وقت آہستہ گزرتا ہے اور زمین پر موجود اشیا کا وقت جلدی سے گزر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً،
فرض کریں ایک باپ ہے جس کی عمر بائیس سال ہے اور ایک بیٹا ہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ اب اگر باپ کو ہم خلا کے سفر پر روانہ کر دیں یا زمین پر ہی کسی طرح اس کی حرکت کی رفتار بڑھا دینے کا بندوبست کر لیں اور وہ روشنی کی رفتار کے قریب قریب سفر کرے۔ تو ایک سال بعد جب وہ واپس آئے گا تو اس کی عمر بائیس سال سے تیئس سال ہو چکی ہوگی جبکہ اس کے بیٹے کی عمر ہو سکتا ہے اسّی سال ہو چکی ہو۔ اس طرح گویا آئن سٹائن کے تصورِ زماں نے کئی بڑے بڑے استخراجی نتائج پر گہری چوٹ کی۔ باپ ہمیشہ عمر میں بیٹے سے بڑا ہوتا ہے، یہ ایک استخراج تھا۔ استخراج کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا لیکن آئن سٹائن کے تصورِ زماں نے اِس سمیت بے شمار دیگر استخراجی نتائج (ڈیڈکٹو کانکلیوژنز) کو اضافیت کی شمشیر سے شہید کر دیا۔
زیادہ رفتار پر واقعی ٹائم ڈائلیشن وقوع پذیر ہوتا ہے، اس حقیقت کو متعدد تجربوں سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلا بازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے ذرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فی الواقعہ اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتا ہے۔ ایک خاص تجربہ جو اِسی مظہر کو دیکھنے کے لیے پرفارم کیا گیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک تیز رفتار جیٹ طیّارے نے کرۂ زمین کے گرد برق رفتاری سے چکر کاٹا۔ اس طیارے میں بھی ایک سیزیم کلاک نصب تھی اور ایک سیزیم کلاک زمین پر بھی نصب تھی۔ جب طیارہ چکر لگا کر لوٹا تو دونوں گھڑیوں میں فرق تھا۔ طیّارے کے کلاک نے آہستہ رفتار کے ساتھ ٹِک ٹِک کی تھی یعنی طیارے میں موجود پائلٹ کا وقت اہلِ زمین کی نسبت کم گزرا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Einstein ka tasawwur e zamaaN is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 October 2017 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.