دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اہم معاشی مسئلہ

حال ہی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے متواتر اور مسلسل معاشی ترقی کے عمل کیلئے جن بنیادی مقاصد کے حصول کیلئے اقوام متحدہ کے ممبرز ممالک پر زور دیا ہے ان میں سے ایک لوگوں کی آمدنیوں میں عدم مساوات کو ختم کرنا ہے۔ اگرچہ 2030ء تک دنیا کے بیشتر ممالک کسی حد تک کثیر الجہتی غربت کو ختم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے قابل ہونگے بشرطیکہ وہ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی عام عوام تک رسائی کیساتھ ساتھ معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بھی ختم کریں

بدھ 5 اکتوبر 2016

Dolat Ki Gair Munsifana Taqseem
نعیم قاسم:
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے متواتر اور مسلسل معاشی ترقی کے عمل کیلئے جن بنیادی مقاصد کے حصول کیلئے اقوام متحدہ کے ممبرز ممالک پر زور دیا ہے ان میں سے ایک لوگوں کی آمدنیوں میں عدم مساوات کو ختم کرنا ہے۔ اگرچہ 2030ء تک دنیا کے بیشتر ممالک کسی حد تک کثیر الجہتی غربت کو ختم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے قابل ہونگے بشرطیکہ وہ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی عام عوام تک رسائی کیساتھ ساتھ معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بھی ختم کریں ۔

ماہرین معیشت کے مطابق اگر کسی ملک کی خام ملکی پیداوار میں ایک فیصد اضافہ ہوتا ہے تو اس ریاست میں غربت 36 فیصد کم ہوتی ہے جبکہ انسانوں کی آمدنیوں میں ایک فیصد عدم تفاوت سے معاشرے میں 8.5 فیصد غربت کم ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

سرمایہ دارانہ معاشرے میں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں اس لئے چلا جاتا ہے کہ چونکہ وسائل کی ملکیت طبقہ اشرافیہ کے پاس ہوتی ہے اور وہ جب ان وسائل کو سرمایہ کاری میں سستی محنت کو کم اجرتوں پر خرید کر استعمال میں لاتے ہیں تو انکے منافع جات میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے لہٰذا آجر اورجاگیر دار حضرات اپنی کمیابی اور بے تحاشا دولت کی وجہ سے طاقتور طبقے بن کر ریاستی اقتدار میں بھی حصہ دار بن جاتے ہیں اور امیر سے امیر تر ہوتے چلے ہیں جبکہ ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے کارخانوں اور کھیتوں میں کام کرنیوالے محنت کش طلب کی نسبت رسد زیادہ ہونے کی بناء پر کم معاوضے حاصل کرتے ہیں اور جب ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے تو ان کی قوت خرید بھی کم ہو جاتی ہے اور وہ دن بدن غریب ہوتے چلے جاتے ہیں اسکے علاوہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان امراء کی سماجی اور سیاسی حیثیت بھی اپنی دولت اور سٹیٹس کی وجہ سے بلند ہو جاتی ہے تو پھر وہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو رشوت دھونس اور دباوٴ سے اپنے جائز اور ناجائز کاروباروں کو وسعت دیتے چلے جاتے ہیں۔


پاکستان میں ایوب خاں کے وقت میں دولت کا ارتکاز 22 صنعتکار خاندانوں میں تھا مگر آج رئیل سٹیٹ، سٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے منسلک ساہوکار بھی اربوں روپوں کے مالک بن چکے ہیں اسکے ساتھ ساتھ کرپٹ بیورو کریسی بھی امراء کے ساتھ اپنی کرپشن کی کمائی کے ذریعے پارٹنر شپ قائم کر لیتی ہے اور پھر اسکے بعد ناجائز ذرائع سے کمائی کی دولت کو منی ایکسچینج ڈیلرز کے ذریعے بیرون ملک بھجوا دیتے ہیں لہٰذا پاکستان کی معیشت کے عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی وجہ سے اس کی گردش معاشرے کے نچلے طبقے تک سرایت نہیں کر پا رہی ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کے خیال میں پاکستان کا متوسط طبقہ ختم ہو چکا ہے حالانکہ کسی بھی ریاست کی معاشی اور سماجی ترقی میں یہ طبقہ ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر آج ایک طرف انتہائی امیر ترین طبقہ یعنی اشرافیہ ہے اور دوسری طرف غریب ترین طبقہ یعنی عوام ہیں۔

ہمارا طبقہ اشرافیہ غریب عوام کی حالت زار کے متعلق سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ قارئین آج پاکستان میں اشرافیہ جزیروں میں رہتی ہے ان کی شاندار لگڑری کالونیوں میں اعلیٰ درجے کی سوک سہولتیں دستیاب ہیں آج امیر اور غریب طبقے کی آمدنیوں میں خلیج دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
آج اگر ملکی آمدنی میں ایک روپے کا اضافہ ہوتا ہے تو اس میں سے 36 پیسے امراء کی جیب میں چلے جاتے ہیں جبکہ محض 3 پیسے غریبوں کو ملتے ہیں جبکہ ہمارے تنزیلی ٹیکس سسٹم ہے یعنی اگر آپ کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو آپ اس اضافے کی نسبت کم شرح سے ریاست کو ٹیکس دیتے ہیں جبکہ اگر آپ کی آمدنی میں کمی واقع ہوتی ہے تو آپ کو اسکی نسبت زیادہ شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے ہمارے ملک میں 80 فیصد ریاست کے محاصل بالواسطہ ٹیکسوں سے اکٹھے ہوتے ہیں اگر بالائی 10 فیصد امراء اور 10 فیصد غریبوں کے معاشی حالات کا موازانہ کریں SPDC کے مطابق 10 فیصد امراء اپنی آمدنی سے 10 فیصد بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ 10 فیصد غریب افراد 16 فیصد بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ریاست کی طرف سے بہتر رہائشی سہولتوں امراء کی بستیوں اور علاقوں کو ملتی ہیں 1987-88ء سے آج تک کا تجزیہ کریں تو 20 فیصد امراء کی آمدنیوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 20 فیصد غرباء کی آمدنیوں میں 21 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔


دولت میں غیر منصفانہ تقسیم سے دولت نچلے طبقے تک تطہیر یعنی Trikle Downنہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے اس طبقے میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے جو انہیں انتہاء پسندی اور جرائم کی دنیا میں دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم کسی حکومتی پالیسی کے نفاذ سے نہیں ختم ہو سکتی۔ یہ وراثتی اورنسل در نسل دولت اور اثاثوں کی عدم مساوات کا معاملہ ہے۔

مثلاً ہمارے ہاں کے جاگیر داروں کو انگریزوں نے انکی خدمات کے عوض جاگیریں عطا کیں جس کی وجہ سے وہ آج تک سماجی، ریاستی اور معاشی حیثیت کے لحاظ سے نسل در نسل مضبوط ہیں۔ 1980ء کے بعد سے ہماری معیشت کی یہ حالت ہے کہ یہ صنعتی اشیاء کی پیداوار میں اضافے کی بجائے سٹاک ایکسچینج اور رئیل سٹیٹ میں سٹہ بازی کی مرہون منت مصنوعی گروٴتھ کے انڈیکٹرز کے سہارے قائم دکھائی دے رہی ہے اور آج اسی وجہ سے ہمارا تجارتی خسارہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔

ہماری صنعتیں برآمدی اشیاء پیدا نہیں کر رہی ہیں۔ بیروزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارا طبقہ اشرافیہ لگڑری اشیاء کو درآمد کر رہا ہے۔ انہیں بیچ کر منافع کما رہا ہے اور اس سے متاثر ہو کر متوسط طبقہ بھی غیر ملکی امپورٹڈ اشیاء، اعلیٰ غیر ملکی فوڈ چینز اور برانڈڈ موبائل فونز اور دوسری فیشن ایبل اشیاء پر دھڑا دھڑ خرچ کر رہا ہے ہمارا ادائیگیوں کا توازن بِْری طرح بگڑ چکا ہے۔

مارکیٹنگ اور برانڈنگ نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بھی کمرشلائز کر دیا ہے۔ آج امراء کی اکثریت اپنے بچوں کو ان اداروں میں بڑھانے کیلئے بھیجتی ہیں جہاں مغربی طرز تعلیم اور ثقافت کو فروغ دیا جاتا ہے اور متوسط طبقہ جو اگرچہ ناپید ہو رہا ہے۔ وہ اپنی جائیدادیں فروخت کرکے یا ادھار اٹھا کر زیادہ فیسوں والے سکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوا رہا ہے۔

آج سرمایہ دارانہ معیشت کا لبرل مارکیٹ ماڈل ہمارے ملک کے اندر بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کو آنیوالے عشرے میں کیا رخ دیتا ہے اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ یہ تاریخ کے جولیاتی عمل کی ناگزیت ہے کہ معاشرے میں انتشار اور ٹکراوٴ مزید بڑھے گا کیونکہ پاکستان میں اس وقت تبدیلی نہیں آ سکتی ہے جب تک اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات کیلئے قربان نہیں کیا جائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Dolat Ki Gair Munsifana Taqseem is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 October 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.