بے ہنگم ٹریفک کے گھمبیر مسائل

تین لائن کی سڑک پر چھ لائنز بنا کر گھنٹوں کھڑے رہنا بھی ایک خوبی ہے ٹریفک کا نسٹیبل کے بغیر چوک کا مشاہدہ کرکے قوم کے شعور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے

بدھ 28 فروری 2018

behungem trafic ke gambir masail
ڈاکٹر احسن نعمان
بہت عرصہ سے لکھنا چاہتا تھا مگر اپنے ادارے کو عملی جامعہ نہ پہنا سکا میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی تھی کہ اتنے عرصے سے اتنا کچھ لکھا جارہا ہے مگر آج تک کیوں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آسکا تحقیق کی تو بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھا جبکہ کچھ رازوں پر پردہ پڑگیا دنیا میں انسانوں کی بہت سی اقسام ہیں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا تو پتہ چلا کہ انسان تو انسان ہی پیدا ہوتا ہے بعد میں اسکی خصوصیات کی بناپر اسے مختلف اقسام میں داخل کیا جاتا ہے مثال کے طور پر پڑھا لکھا جاہل ان پڑھ گونگا بہرہ اندھا وغیرہ وغیرہ یہ مجھے ہمیشہ سے وہم رہا ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی مقام پر کبھی ہم پڑھے لکھے ہوتے ہیں کبھی جاہل ان پڑھ کبھی اندھے گونگے بہرے کہ سامنے لکھی ہوئی چیز پڑھی نہیں جاتی کسی کی اچھی بات سنائی نہیں دیتی اور کسی کو نصیحت بھی نہیں کی جاتی،،،،یہ تو میرے مالک کا کرم ہے کہ بات اینک بنی ہوئی ہے اور ہم اس دنیا میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم سب کو جیسے معاشرتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے اسی طرح ٹریفک کے مسائل بھی ہوتے ہیں جن کا آج کل ہمیں سامنا ہے ہم لوگ بہت زندہ دل قوم ہیں روزانہ حادثات دیکھتے ہیں مگر امن سے کچھ سنق سیکھتے نہیں جیسے لگتا ہو کہ ہم کو نظر نہیں آتا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہلے ہیں مثال کے طور پر جہاں پارکنگ ممنوع ہو وہاں گاڑی پارک کرنا یکطرفہ ٹریفک پرالٹی طرف سے آنا اور پوچھنے پر لڑائی کرنا اشاروں کی پابندی نہ کرنا اپنا ایک منٹ بچانے کے لیے ون وے کی خلاف ورزی کرنا اور دوسروں کا نقصان کردینا وغیرہ وغیرہ اکثر لوگ اس کو جہالت سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ یہی قوم جب بہرون ملک جاتی ہے تو ہر طرح کے بورڈ اس کو نظر آجاتے ہیں صرف اپنے ملک میں ان کو نظر نہیں آتا دوسرے ملک کے ملک میں تھوک بھی منہ میں لیکر پھرتے ہیں کہ مخصوص جگہ پر تھوکیں ورنہ جرمانہ ہوگاکچھ کام حکومت کے ہوتے ہیں اور کچھ ہماری انفرادی ذمہ داریاں ہیں خود قانون توڑتے ہیں اور حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں میں نے ایک بابا جی سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہر بندہ اپنا فرض ادا کرے اور اپنی نظر کا علاج کرائیں یقین کریں ہمارا ملک دنیا کا سب سے پیارا ملک ہیں ہمیں اس کو اپنا انفرادی فرض ادا کرکے اس کو مزید خوبصورت بنانا ہے بات شروع ہوئی تھی ٹریفک کے اوپر اور پتہ نہیں کہاں چلی گئی بہر حال بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے پھر اسکول اور اسکے بعد حالات و واقعات انسان کو سکھاتے ہیں بچے ہمیشہ سے معصوم ہوتے ہیں وہ جو دیکھتے سنتے اور محسوس کرتے ہیں اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کردیتے ہیں آجکل انٹرنیٹ کے دور میں آئندہ آنے والی مائیں اپنے بچوںکو کہا کریں گی کہ تم کو اندازہ نہیں کہ میں نے کتنی مشکلوں سے تم کو پالا ہے اور میں نے کتنے کتنے گھنٹے آف لائن رہ کر تم کو بڑا کیا ہے بچے جب گاڑی میں ماں باپ کے ساتھ جارہے ہوں گے تو جو ان کے بڑے کریں گے وہ اس پر پکے ہوتے جائیں گے اوروہ بڑے ہوکر غلط قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کریں گے بچوں کو دوسری تربیت اسکول میں ہوتی ہے جوکہ ظلم و ضبط تربیت سکھاتی ہے ان کو ایک مثبت روشن پر چلاتی ہے لیکن عجب بات ہے کہ جتنی ٹریفک کی بد انتظامی اسکول کے آگے ہوتی ہے وہی بچہ دیکھتا ہے اور اس کو ایک نارمل سا عمل سمجھتا ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بڑا ہوکر ٹریفک کے مسائل میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور اس کے بعد کے حالات و واقعات سے آپ لوگ بخوبی واقف ہیں حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کے لیے اچھا سوچے مگر بحیثیت انسان ہم ان تمام کاوشوں کو فراموش کردیتے ہیں جو ہماری بھلائی کے لئے کی جاتی ہے اور وہ جو تھوڑی بہت کم رہ جاتی ہے اس پر تنقید برائے تنقید شروع کردیتے ہیں اور حکومت کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر چالان سے بچنے کے لئے رشوت دینے سے بچ جانے سے تو خوش ہوتے ہیں مگر ساتھ ساتھ پولیس کو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں کہ سب چور ہے جب کہ ہم خود چور ہوتے ہیں اکثر سنتے آئے ہیں کہ کسی قسم کے شعور کا اندازہ لگانا ہو تو کسی چوک میں جاکر مشاہدہ کریں ٹریفک کا جہاں پر پولیس والا نہ ہو مگر خیر اس کا عملی مظاہرہ ہم روزانہ لاہور کی ٹریفک کا حال دیکھتے ہوئے کرتے ہیں ہم لاہور یوں میں ان گنت خوبیاں ہیں یہ ایسی خصوصیات کے حامل ہیں کہ بغیر کسی مسئلہ کے گھنٹوں ٹریفک بند کرسکتے ہیں تین لائن کی سڑک پر چھ لائنز بناکر گھنٹوں چوکوں پر کھڑے رہنا ہمارا قومی فریضہ ہے اور ہارن بجانے کو اہم ایک ملکی خدمت سمجھتے ہیں باتیں تو بے شمار ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیں گی اب کچھ باتیں ان مسائل کے حل کے لئے کرلی جائیں ہر چوک پر ٹائر برسٹ کرنے والی راڈز لگادی جائیں تاکہ لوگ تین لائن میں ہی رہ سکیں اور ٹریفک کے اصول نرسری کی کلاسز سے پڑھانے میں شروع کردئیے جائیں اور بچوں کو یہ باور کرایا جائے کہ جو صحیح ہے اسی پر عمل کرنا چاہیے لاہور اور دوسرے شہروں میں وہ لوگ جن کی اچھی ریپوٹیشن ہو ان کی گاڑیوں پرکیمرے لگادئیے جائیںجو ان لوگوں کی نشاہدی کرسکیں جوعمومی طور پر پولیس کی نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں ہم سب مل کر یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے خود کو ٹھیک کرنا ہے اور ایک دوسرے سے پیارو محبت سے رہنا ہے تو ملک خود ہی ٹھیک ہوجائے گا آئیں ہم سب ملکر وعدہ کریں کہ اس پیارے ملک کا خیال رکھیں گے اور ایک باشعور قوم بنیں گے آمین۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

behungem trafic ke gambir masail is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 February 2018 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.