آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال

19 جولائی 1947ء کو سری نگر سے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم و مغفور کے دولت کدہ پر کشمیر کے الحاق پاکستان کی قراردا منظور ہوئی مولانا محمد یوسف سرداربراہیم خان اور غلام نبی گلکار نے زمام صدارت و اقتدار تھوڑی مدت کیلئے تھامی اور طوفان سے کشتی کو ساحل مراد تک پہنچایا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے نامزد چیف سیکرٹری ہی اصل حکمران رہا

پیر 4 جولائی 2016

Azad Kashmir Ki Siasi Sorat e Hall
پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری
19 جولائی 1947ء کو سری نگر سے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم و مغفور کے دولت کدہ پر کشمیر کے الحاق پاکستان کی قراردا منظور ہوئی مولانا محمد یوسف سرداربراہیم خان اور غلام نبی گلکار نے زمام صدارت و اقتدار تھوڑی مدت کیلئے تھامی اور طوفان سے کشتی کو ساحل مراد تک پہنچایا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے نامزد چیف سیکرٹری ہی اصل حکمران رہا اور وزارت امور کشمیر نگہبان رہی۔

لیکن کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے قیام اور آئین کے بعد آزادکشمیر کے عوام کو جمہوری حقوق ملے۔ مسلم کانفرنس کے صدر قائد کشمیراور قائداعظم کے دست راست چوہدری غلام عباس نے اپنی خداداد صلاحیت اور دیانت و فطانت سے آزادکشمیر کے انتظامی اور سیاسی معاملات کو سنبھالا۔

(جاری ہے)

آغاز میں آزادکشمیر میں صرف آل جموں و کشمیر کے انتظامی اور سیاسی معاملات کو سنبھالا۔

آغاز میں آزاد کشمیر میں صرف آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس ہی مقبول سیاسی جماعت تھی چھوٹی چھوٹی مذہبی اور سیاسی گروہ بندیاں تھیں لیکن قائداعظم نے مسلم کانفرنس کو ہی برقرار رکھا اور اسے مسلم لیگ ہی کا حصہ اور نمائندہ قرار دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آزادکشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور وہاں حکومت سازی کی۔ آج آزادکشمیر میں ریاستی اور غیر ریاستی جماعتیں ہیں پاکستان مسلم لیگ ن نے حال ہی میں آزادکشمیر میں پارٹی کا قیام کیا۔

جماعت اسلامی پہلے سے موجود ہے تحریک انصاف نے بھی پارٹی کی وہاں تنظیم سازی کردی ہے ریاستی جماعتوں میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس آزاد جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور کشمیر لبریشن لیگ سرگرم سیاست ہیں آغاز میں آزادکشمیر میں صدارتی طرز حکومت تھا جو بعد میں پارلیمانی طرز حکومت میں تبدیل ہو گیا۔ 1991ء سے 1995ء تک مجھے سردار عبدالقیوم خان وزیراعظم آزادکشمیر کا مشیر ہونے کے ناطے آزادکشمیر کے شہروں اور قصبہ جات کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔

اکثر کالجوں اور وکلاء تنظیموں کے اجلاس میں خطاب کیا۔ آزادکشمیر میں غربت‘ جہالت اور قبیلہ پرستی کا دور ہے۔ دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ سیاسی جماعت بناوٴں اور آزاد کشمیر میں معاشی سیاسی اور معاشرتی انقلاب کی راہ ہموار کروں۔ کشمیر جسٹس پارٹی 1997ء میں بنائی۔ آزادکشمیر کے شہروں کا دورہ کیا۔ عوام‘ علماء اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں سال بھر دربد رہا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ آزادکشمیر میں صرف اور صرف برادری ازم کی سیاست ہے۔ دانشوروں کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید میں قبائل کو ذریعہ تعارف کہا گیا۔ پیغمبر اسلام نے ذات پات کی نفی کی مگر ہم ذاتوں اور قبیلوں کے اسیر ہیں۔21 جولائی 2016ء کو آزادکشمیر میں الیکشن کا انعقاد ہو رہا ہے۔ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی متوقع ہی نہیں بلکہ یقینی ہے۔

اسکی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ آزادکشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت جسکے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ہیں انکی حکومت پر عوام میں بدعنوانی اور نااہلی کا تصور عام ہے۔ یہ عوامی آواز نقارہ خدا ہے آزادکشمیر کے عوام نے سردار محمد ابراہیم خان سردارمحمدعبدالقیوم خان‘ کے ایچ خورشید‘ سردار سکندرحیات خان جنرل عبدالرحمان‘ جنرل محمد حیات خان اور جنرل انور خان جیسے دیانتدار‘ باوقار اور صاحب اعتبار حکمران بھی دیکھے ارو شومی قسمت کہ فی زمانہ چوہدری عبدالمجید کو بقول شاعر ”دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں“ صورتحال یہ ہے۔

کہ 24 جون کو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے اپنی کابینہ کے دو وزیروں پر مالی بدعنوانی کا الزام لگا کر انہیں کابینہ سے فارغ کردیا۔ گزشتہ ماہ 5 وزیروں کو فارغ کر دیا گیا تھا۔ گویا مختصر مدت میں سات وزیروں پرمالی کرپشن کا الزام خودویراعظم نے لگایا۔ واقفان حال اور راز درون میخانہ سے آگاہ لوگوں کاکہنا ہے کہ یہ وزیر بدعنوان نہیں بلکہ یہ بدعنوان وزیراعظم سے نالاں تھے اور طرز حکومت کے ناقدین تھے۔

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ وزیر بدعنوان تھے لیکن وہ پیپلز پارٹی کی عوام میں مقبولیت کھونے پر پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت کیلئے رابطے کر رہے تھے اس لئے انتقامی کارروائی کے طورپر انہیں سیاسی عیارانہ وار کر کے وزیراعظم نے بدنام کر دیا۔ اگر یہ لوگ کسی دوسری جماعت میں شامل ہوں تو ”بدعنوان“ کا تمغہ انکے سینوں پر سجاہو لیکن بقول غالب
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آزاد جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن سے انتخابی اتحاد برقراررکھنے کا اعلان کیا۔

میری رائے میں یہ نہایت ہی احسن اقدام ہے۔ تنہا پرواز کا زمانہ گزر گیا۔ انتخابی اتحاد سیاسی بصیرت ہے۔ سردار خالد ابراہیم غازی ملت سردارمحمد ابراہیم خان کے نور نظر ہیں میرے دوست ہیں ایمان دار‘ باوقار اور صاحب اعتبار شخصیت ہیں۔ جب میں وزیراعظم سردارمحمد عبدالقیوم خان کامشیرتھا سردار خالد ابراہیم نے حکومت سے شدید اختلافات پر اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔

احباب کی کوشش کے باوجودانہوں نے استعفیٰ واپس لینے سے انکار کردیا۔ میرے ان سے دوستانہ مراسم کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے مجھے کہاکہ سردار خالد ابراہیم سے ملاقات کریں اور انہیں استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کریں۔ میں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ سردار خالد ابراہیم ایک تعلیم یافتہ اور باصلاحیت سیاست دان ہونے کے علاوہ بااصول اور ایمان دار شخصیت ہیں۔


آزادکشمیر کے سابق سیکرٹری ممتاز شاعر اور دانشور اکرم سہیل اور میرے پیارے دوست اشفاق ہاشمی مرحوم کی تالیف شدہ کتاب ”قانون کی حکمرانی“ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اکرم سہیل نے بطور تحفہ مظفر آباد سے یہ کتاب مجھے بھیجی۔ اس کتاب میں سابق صدر و وزیراعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات خان کے دور حکومت سرکاری احکامات کے اقتباسات شائع کئے گئے ہیں جواس حقیقت کے غماز ہیں کہ سردار سکندر حیات خان نے ہر فیصلہ میرٹ پر کیا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو برقرار رکھ کر آئندہ نسلوں کیلئے منصفانہ اور عادلانہ حکمرانی کی مثال قائم کردی ہے اے کاش آزادکشمیر کو دیانت دار اور ایماندار حکمران نصیب ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Azad Kashmir Ki Siasi Sorat e Hall is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 July 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.