والدین دیوانہ وار تعلیمی اداروں کی جانب دوڑ پڑے

جون 2014 میں شمالی وزیرستان ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبرون اور آپریشن خیبر ٹو کے نتیجہ میں پورے ملک اور خصوصاََ خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورت حال میں نمایاں بہتر دیکھنے میں آئی ہے

منگل 19 جنوری 2016

Waaldain Deewana War Taleemi Idaron Ki Janib Dorr Paray
ایم ریاض:
جون 2014 میں شمالی وزیرستان ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبرون اور آپریشن خیبر ٹو کے نتیجہ میں پورے ملک اور خصوصاََ خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورت حال میں نمایاں بہتر دیکھنے میں آئی ہے۔ بدامنی کے اکادکا اور انفرادی واقعات سے قطع نظر مجموعی طور پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ بازاروں ،کاروباری مراکز ار عوامی مقامات کی گہماگہمی اور رونقیں لوٹ آرہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں فرسٹ گورنر فاٹا یوتھ فیسٹول کے نام سے بیک وقت پشاور ،خیبر ، مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں قبائلی نوجوانوں کے ایک بڑے میلہ کا کامیابی سے انعقاد کیا گیا۔

(جاری ہے)

جس میں 30 مختلف کھیلوں میں فاٹا کے 1785 مردو خواتین کھلاڑیوں نے حصہ لیا جبکہ اس موقت پر مختلف ثقافتی تقریب کابھی انعقاد کیا گیا۔

امن کی منزل کی جانب سفر کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا اور خصوصا اس کے دارالحکومت پشاور کے عوام کے اذہان سے بدامنی اور شورش کی تباہ کاریوں کے ہولناک واقعات اور سانحات کی وہ تلخ اور اذیت ناک یادیں شائد کبھی نکل نہیں پائیں گی۔ یہی وجہ تھی کہ ہفتہ کی دوپہر جب اچانک والدین کو یہ ہنگامی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ وہ سکول آکر اپنے بچوں کو لے جائیں تو کم وبیش 40 لاکھ آبادی کے اس شہر کے ہر گھر کے مکینوں کو وسوسوں، پریشانی اور فکرمندی نے آگھیرا کیونکہ ابھی اسی شہر کے ایک سکول میں رونما ہونے والے تاریخ کے ایک بدترین سانحہ کو بمشکل ایک سال پورا ہوا۔

بہت سارے والدین ایسے تھے جو معمول کے مطابق کرایہ کی وین یا دیگر ٹرانسپورٹ میں اپنے بچوں کو سکول بھجوانے کے بعد روزگار اور کاموں کے لیے دیگر مقامات پر چلے گے تھے اور اب وہاں سے فوری طور پر اپنے بچوں کو لینے کے لیے ان کی سکول آمد ممکن نہ تھی۔ اس طرح صوبہ کے مخصوص قدامت پرست حالات میں زیادہ تر خاندانوں کی خواتین کو اپنے بچوں کے سکولوں اور تعلیمی اداروں کا پتہ تک نہیں ،صورت حال اس وقت گھمبیر ہوئی جب مختلف ٹی وی چینلز سے بریکنگ نیوز کی صورت میں سکولوں کی ہنگامی بندش کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئیں۔

ان سکولوں کے باہر پولیس کی نفری بھی پہنچ گئی تھی لیکن حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آرہا تھا اور صورت حال اس وقت زیادہ تشویشناک ہوئی جب زیادہ تر والدین کو سکولوں کی انتظامیہ کی بجائے دوسرے ذرائع سے سکولوں کی بندش کی اطلاعات ملنا شروع ہوئی اور غیر ذمہ دار ذرائع سے والدین کو پہنچنے والی معلومات اور اطلاعات میں پشاور کے بعض مقامات پر بدامنی کے واقعات کی افواہوں اور مبالغہ آرائی کی بے دریغ آمیزش نے سکول جانے والے بچوں کے والدین اورخاندان وسوسوں، پریشانی اور تشویش کی سولی پر لٹکتے رہے۔

شہر میں اچانک ہوکاعالم ہوا اور لوگ دیوانہ وار سکولوں کا رخ کرنے لگے جس کی وجہ سے مختلف سڑکوں پر بد ترین ٹریفک جام دیکھنے میں آئے۔ جس کی وجہ سے بہت سارے بچے یا تو سکولوں میں پھنس کررہ گے یا پھر اپنے کلاس فیلوز وغیرہ کے ساتھ دیگر گاڑیوں میں گھروں کے لیے روانہ ہوئے اور یوں انہیں لینے سکول آنے والے ان کے والدین اور دیگر عزیز پریشانی، اضطراب اور بے چینی کے عالم میں سکولوں کے باہر ان کی راہ تکتے رہے۔

واضح رہے کہ پشاور کے بعد مردان، چارسدہ اور نوشہرہ کے اضلاع میں بھی تمام سکول ہنگامی صورت حال میں خالی کرالئے گے۔ افراتفری کے اس عالم میں سکولوں میں اس نصف دن کی غیر معمولی اور ہنگامی چھٹی پر رہنمائی اور معلومات کے لیے انتظامیہ کے حکام سے رابطہ ممکن نہ تھا تاہم جب پشاور کے ضلع ناظم عاصم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس صورت حال اور اس کی وجوہات سے لاعلمی اور اس پر اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس معاملہ پر پشاور کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر سے پیر کے روز جواب طلب کیا ہے تاہم ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر پشاور نے اس معاملہ پر اپنے موقف کا اظہار کچھ یوں کیا کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ڈپٹی کمشنر پشاور کی جانب سے چھاوٴنی سے متصل حساس علاقوں میں قائم پانچ چھ سرکاری سکول بند کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

تاہم شہر اور پھر دوسرے اضلاع کے سکولوں کویہ پیغام کیسے پہنچا اس کی تفصیلات معلوم کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ وضاحتی بیان صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیراعلیٰ کے مشیر مشتاق غنی کی جانب سے سامنے آیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سکولوں کی سیکورٹی کا جائزہ لینے کے لیے یہ اقدام اٹھای گیا تھا کیونکہ حکومت تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا رہی ۔ہے ہفتہ کے روز شدید کرب اور اذیت سے گذرنے والے خاندانوں کا ان حکومتی بیانات پر چنداں اعتماد نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بیشتر والدین نے اپنے بچے پیر کو بھی سکول نہ بھجوائے اور سکولوں میں طلبہ کی حاضری معمول سے کہیں کم رہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Waaldain Deewana War Taleemi Idaron Ki Janib Dorr Paray is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 January 2016 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.