لاہور کے بارہ تاریخ دروازے

قدیم روایات اور ثقافت کا عکاس

جمعہ 2 جون 2017

Lahore Kay 12 Tareekhi Darwazay
فاطمہ دلاور:
والڈ سٹی لاہور جسے پرانا لاہور یا اندرون لاہور بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک بہت قدیم شہر ہے جس کی ثقافت اور تہذیب اسکی پہچان ہیں۔لاہور شہر کو مغلیہ دور عہد میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور لاہور میں موجود بہت سی قدیم عمارتیں بھی مغلیہ دورِ عہد میں تعمیر کی گئیں۔لاہور شہر کو بہت عمدہ انداز میں تعمیر کیا گیا تھا کہ اس کے چاروں اطراف کاروباری مراکز بنائے گئے۔

ہر بازار میں محلے،ہر محلے میں کوچے اور ہر کوچے میں تنگ اور بالکل باریک گلیاں یا گزر گاہیں بنائی گئیں۔حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ یہ تمام کوچے اور محلے ایک دوسرے سے منسلک تھے اور آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔لاہور شہر کے 12 دروزے اور ایک موری ہے جسے اب دروازے کے طور پر ہی سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

چونکہ شہر لاہور کی ایک حد بندی بھی رکھتی تھی اس لیے لاہور کے گرد ایک دیوار بنائی گئی جس میں شہر میں داخل ہونے کے 13 راستے بنائے گئے جن کے نام درج ذیل ہیں۔


مستی گیٹ،کشمیری گیٹ،شیرانوالہ گیٹ،یکی گیٹ،دہلی گیٹ،اکبری گیٹ،موچی گیٹ،شاہ عالم گیٹ، لوہاری گیٹ،موری گیٹ،بھاٹی گیٹ،ٹیکسالی گیٹ،اور روشنائی گیٹ ہیں ان تمام دروازوں کی حیرت انگیز تاریخ ہے اور وہ معلومات ہیں جو عام انسان حتیٰ کے اندرونِ شہر میں رہنے والے افراد کو بھی معلوم نہیں۔مستی گیٹ شاہی قلعہ کے بالکل عقب میں واقع ہے اس دروازے کو خوشی کا دروازہ کہا جاتا تھا اسی لیے اس کا نام مستی گیٹ رکھا گیا۔

اس دروازے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں جوتوں کا وسیع کاروبار ہے جس میں ثقافتی اور غیر ثقافتی جوتوں کی خریدوفروخت کی جاتی ہے۔اس دروازے کے اندر کی جانب شہر کی بہت پرانی مسجد موجود ہے جو مغل بادشاہ جہانگیر کی والدہ مریم زمانی بیگم کے نام سے منسوب ہے۔کشمیری گیٹ کا نام کشمیر کی طرف رُخ ہونے کی وجہ سے ہے۔اس دروازے کے اند ر کی جانب بھی اندرون لاہور کا بہت بڑا بازار کشمیری بازار کے نام سے منسوب ہے۔

اسی دروازے کی حدود میں حویلی آصف جاہ میں خواتین کا کالج بھی موجودہے۔شیرانوالہ گیٹ تیسرا دروازہ ہے اور یہ دروازہ بھی اپنی ایک حیرت انگیز معلومات رکھتا ہے۔اس دروازے پر باغیوں سے حفاظت کے لیے شیروں کو پنجروں میں رکھا جاتا تھا جن کے خوف سے کوئی بیرونی مداخلت نہیں کرتا تھا۔یکی گیٹ صوفی اور نگران زکی پیر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔

زکی پیر مغلیہ حملہ آوروں سے شہر کو محفوظ کرتے وقت شہید ہو گئے۔کہتے ہیں کہ سردھڑ سے الگ ہونے کے بعد بھی ان کا جسم تب تک لڑتا رہا جب تک حملہ آوروں کے سپہ سالار کو قتل کردیاتھا۔اس دورازے کا اصل نام زکی دروزہ تھا جو بگڑ کر یکی دروازہ بن گیا۔
دہلی دروازہ کا نام بھارت میں دہلی کی جانب رُخ ہونے کی بنا پر رکھا گیا تھا اس دروازے سے شاہی وفد لاہور میں داخل ہوتا تھا۔

اور شاہی قلعہ کی جانب شاہی گزرگاہ سے جایا کرتا تھا۔اس دروازے کے عقب میں شاہی حمام اور وزیر خان مسجد بھی موجود ہے۔جن کی مکمل بحالی کے لیے آغا خان کلچرل سروسز پاکستان کنررویٹوٹیم کام کر رہی ہے اور بہت حد تک کام کو مکمل کر چکی ہے۔اکبری دروازہ تمام دروازوں میں سب سے خوبصورت دروازہ تصور کیا جاتا تھا آج اس دروازے کا کوئی وجود باقی نہیں ہے مگر آج بھی اس دروازے کو مغل بادشاہ جلال الدین محمداکبر کے نام سے یاد رکھا گیا ہے اور اس دروازے کے اند کی جانب ایک منڈی بھی ہے جسے اکبری منڈی کہا جاتا ہے۔

موچی دروازے کا بھی وجود نہیں ہے مگر اس دروازے کے نام میں تضاد پایا جاتا ہے کوئی کہتا ہے اس دروازے کے پاس موچی بیٹھا کرتے تھے جو جوتا بنانے اور ٹھیک کرنے کاکام کرتے تھے اس لیے اس کا نام موچی دروازہ رکھا گیا جبکہ کوئی کہتا ہے کہ اس دروازے کے محافظ کا نام موتی تھا جس سے اس دروازے کا نام موتی دروازہ رکھ دیا گیا تھا۔
شاہ عالمی دروازہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے شاہ عالم کے نام سے منسوب ہے۔

اس دروازے کانام بھروالا دروازہ تھا مگر شاہ عالم کی وفات کے بعد اس کا نام شاہ عالم دروازہ رکھ دیا گیا۔اس دروزے کے اند لاہور کا سب سے بڑا کمرشل/تجارتی علاقہ اور بہت بڑی مارکیٹ شالمی/شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے۔لوہاری دروازہ بھی لاہور کے قدیم دروازوں میں سے ایک ہے۔بہت سے افرادجوتاریخ میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں،کہتے ہیں کہ لاہور شہر پہلے اچھرہ کے پاس تھا حتیٰ کہ لوہاری دروازے کا رُخ بھی اچھرہ کی جانب ہے اس دروازہ کا نام لوہار سے منسوب کیا گیا ہے۔

کہتے ہیں کہ یہاں لوہاروں کا بازار تھا۔شمالی ایشیا کی سب سے پرانی منڈی جسے لوہاری منڈی کہتے ہیں اس دروازے کے عقب میں موجود ہے۔موری دروازہ لاہور شہر کے تمام دروازوں میں سب سے چھوٹا دروازہ ہے اور یہ لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان میں واقع ہے۔اس دروازے کو شہر سے ضائع شدہ سامان باہر لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔بھاٹی گیٹ شہر کے مغرب میں واقع ہے اور یہ دروازہ ان آکری چھ دروازوں میں سے ہے جو ابھی تک سلامت ہیں۔

بھاٹی گیٹ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس کے اندر کی جانب بہت لذیذ پکوان ملتے ہیں۔بھاٹی گیٹ سے باہر حضرت داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔اس دروازے کے قریب ہی حکیموں والا بازار بھی ہے۔ٹیکسالی دروازہ بھی مغل دور عہد میں تعمیر کیا گیاتھا۔یہاں ایک بہت بڑا جوتوں کا بازار بھی ہے جو شیخوپورہ بازار کے نام سے مشہور ہے ۔اس دروازے کے اندر کی جانب بھی لذیذ پکوان کی بہت سی اقسام ملتی ہیں۔

یہاں پر پھجا سری پائے،فضل دین اور مٹھائی کے لئے تاج محل اور شہاب الدین حلوائی مشہور ہیں۔
روشنائی دروازہ اپنے نام سے ہی ثابت کرتا ہے کہ یہ روشنیوں کا دروازہ ہے۔اس دروازے کو حکمرانوں اور دوسرے شاہی افراد کے لیے مغلیہ دور عہد میں اور سکھ دور عہد میں گزرگاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ایک وقت تھا جب دریائے راوی شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے قریب سے گزرتا تھا ۔اس دروازے کو راہگیروں کا راستہ دکھانے کے لیے روشن کیا جاتا تھا۔لاہور کے ان تمام دروازوں میں لاہور کی ایک منفرد ثقافت موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Lahore Kay 12 Tareekhi Darwazay is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 June 2017 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.