بھارت نے ریاست پرچڑھائی کرکے اس پرناجائز قبضہ کیاتھا

نواب جوناگڑھ مہابت خانجی نے 15اگست 1947ء کوپاکستان کیساتھ الحاق کااعلان کیا جوناگڑھ پربھارتی تسلط کے 68سال

بدھ 9 دسمبر 2015

Bharat Nay Rayasat Par Charhai Kar Kay
رابعہ عظمت:
بھارت نے نہ سرف مقبوضہ کشمیر بلکہ جو ناگڑھ، منادراور ریاست حیدرآباد پربھی برور شمشیر قبضہ کررکھا ہے اور کشمیرکوہندوبنیئے کے تسلط ست آزاد کروانے کے لئے مجاہدین گذشتہ برسوں سے برسرپیکار ہیں۔ آزادی کے متوالے کشمیریوں نے بھارتی قابض حکومت کوناکوں چنے چبوارکھے ہیں لیکن ریاست جوناگڑھ کے حوالے سے پاکستان کی نئی نسل بالکل ناآشنا ہے۔

وہ جانتے ہی نہیں کہ جوناگڑھ وہ بدقسمت ریاست ہے جس کاالحاق توپاکستان سے ہوچکاتھا لیکن عین موقع پر بھارتی مکروفریب کاشکارہوگئی۔ اس کاشمار امیرکبیرریاستوں میں ہوتاتھا اور اسکے نواب کی پاکستان میں شمولیت کی خواہش تھی لیکن بھارت نے شب خون مارتے ہوئے یہاں اپنی فوجیوں اتاردیں اور اس پرناجائز قبضہ کرلیا۔

(جاری ہے)


جوناگڑھ کے موجودہ نواب جہانگیرخان جی نے کہاکہ قیام پاکستان کے وقت ریاست کے نواب مہابت خانجی نے 15اگست 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کیاتھاا ور اس ضمن میں معاہدے پر دستخط پربھی کئے گئے تھے۔

اس دستاویز پر قائداعظم کے بھی دستخط ہیں تاہم بھارتی فوج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ بھارتی قبضے کیخلاف سلامتی کونسل میں ایک قرارداد آج بھی اس کے ایجنڈے سے موجود ہے۔ پاکستان کشمیرکی طرح یہ معاملہ بھی عالمی سطح پراٹھائے بلکہ اقوام متحدہ بھارتی تسلط ختم کروائے۔ نواب جہانگیر نے کہا کہ میرے دادا نواب مہابت خانجی نے اس وقت ریاست کے دفاع خارجہ اور مواصلات کے شعبے پاکستان کے حوالے کئے تھے۔

حکومت پاکستان نے نواب مہابت اور میرے والددلاورخانجی کے انتقال کے بعد مجھے اگلانواب تسلیم کیاتھا۔ نواب جہانگیر خانجی نے کہا کہ انہوں نے 2010ء میں پاکستان کی وزارت خارجہ کوخط لکھا جس کے جواب میں اس مقدمے کی حمایت کرتے ہیں۔ 1972ء کے صدارتی آرڈیننس میں قیام کیاگیاتھا۔ لیکن جوناگڑھ کامقدمہ مختلف ہے کیونکہ دیگرریاستوں کی طرح اس کاالحاق پاکستان سے نہ ہوسکا حالانکہ آئینی طور پر اس کاحصہ ہے۔

جوناگڑھ کی پاکستان کے ساتھ الحاق قرارداد منظور کرکے ملکہ الزبتھ اور لارڈماؤنٹ بیٹن کے پاس بھی بھیجی جاچکی تھی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ملکہ کے جوابی خطوط کی نقول بھی موجودہ نواب جہانگیر خانجی کے پاس موجود ہے مگرہوا اس کے برعکس بھارت نے کئی مسلم اکثریتی علاقوں کوغاصبانہ طورپر اپنے ساتھ شامل کرلیا جس کی دوبڑی مثالیں مقبوضہ کشمیر اور ریاست جوناگڑھ ہیں۔


ریاست جوناگڑھ 4600مربع میل پر مشتمل ہے 1748ء میں ریاست جوناگرھ قائم ہوئی۔ 1807ء میں یہ برطانوی زیرحمایت ریاست بن گئی۔ 1818ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کاکنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشترعلاقہ برطانوی راج کے براہ راست کبھی نہیں آیا۔ اس کے ہمسائے برطانیہ نے اسے ایک سوسے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کردیاتھاجوکہ 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جوکہ انیسویں صدی #کے دوران ترقی پایاسابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔

اس کے ریاست کے نواب کو13توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ ریاست کاکراچی سے سمندری فاصلہ 480کلومیٹر ہے۔ یعنی ساحل کراچی سے صرف 44میل کے فاصلے پرہے۔
جوناگڑھ کی کئی سوسالہ تاریخ ہے اور اس طویل تاریخ پر نظرڈالی جائے تو ریاست کی خوشحالی اور امن وامان کامنظر نمایاں ہوجاتاہے۔ ریاست جوناگڑھ پہلے نواب بہادرخان ہیں جنہیں اس وقت کے ہندوستان کے بادشاہ محمدنے شیرخان کے خطاب سے نوازا تھا۔

1748ء سے 2015ء تک نوابین کی کئی نسلیں جوناگڑھ ریاست کی حکمران رہیں۔ 9نومبر 1947ء میں بھارتی قبضے کے بعد کادوربھی نوابین کی تین نسلوں پرمحیط ہے۔ مگر یہ ریاست ابھی تک آزاد نہیں ہوسکی۔ ان سالوں میں کسی بھی حکومت نے ریاست کاپاکستان سے الحاق کی زیادہ سنجیدہ کوشش نہیں کی اورنہ اس مسئلے کوعالمی سطح پر اجاگرکیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ریاست جوناگڑھ کے20لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔

وہ اس امیدپر ہیں کہ کبھی ریاست سے بھارت کاغاصبانہ قبضہ ختم ہوکررہے گااور جونا گڑھ پاکستان کاحصہ بن جائے گا جوان کادیرینہ مطالبہ ہے اور ان کاحق بھی۔
بھارت قبضے کے بعد ریاست کی اراضٰ اور نواب کے حملایت پر قبضہ کرکے انہیں سیل کردیاگیا تھا جن کے باعث قلات کی تباہی اور بربادی کی منہ بولتی داستان دنیا کے سامنے ہے۔ اس ضمن میں نواب ریاست آف جوناگڑھ نے اپنا مقدمہ اقوام متحدہ میں دائرکیاتھا مگر اس مقدمے کافیصلہ نہیں ہوسکا۔


1947ء میں آزادی کے وقت ریاست جوناگڑھ کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل جس کی بنیاد پر ریاست پاکستان سے الحاق کی متمنی تھی جوکہ فطرت کے بھی عین مطابق تھاکیونکہ پاکستان دو قومی نظریے کی بناء پر ہی وجود میں آیاتھا اور اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ جومسلم اکثریت والے علاقے ہونگے وہ تمام کے تمام پاکستان میں شامل کئے جائیں گے اور ہندو اکثریتی علاقے ہونگے انہیں بھارت میں ختم کیا جائے گا۔

اب جوہندواکثریتی علاقے ہونگے انہیں بھارت نے اپنے ساتھ الحاق کردیا لیکن مسلم اکثریتی ریاستیں مقبوضہ کشمیر، جونا گڑھ، حیدرآباد اور منادرکی آزادی کوسلب کرکے انہیں خودمیں جبراََ شامل کرلیا۔ برطانوی قانون دان سرریڈکلف نے انتہائی جانب داری سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بدیانتی کامظاہرہ کیاتودوسری طرف بھارت نے بھی ریاستوں کے الحاق میں نت نئے مسائل کوجنم دیا۔

جنوبی ہندکی دوبڑی ریاستوں ٹراؤ نکور اور حیدرآبادکن نے مختار رہنے کافیصلہ کیاتھا لیکن بھارت نے قانون آزادی پسندکی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان پر فوج کے ذریعے قبضہ کیا۔
نواب مہابت خانجی کے پوتے نواب جہانگیر خانجی اب بھی جونا گڑھ کی آزادی کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے یوم الحاق جوناگڑھ پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں ریاست پربجارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرتارہوں گا۔


1948ء سے اب تک جوانوبین گزرے ہیں وہ یہ ہیں۔ نواب محمد بہادرخان نواب محمد مہابت خان نواب محمد حامد خان‘ نواب محمد بہادر خان دوئم‘ نواب محمد حامدخان دوئم‘ نواب سرمحمدمہابت خان دوئم نواب محمد بہادر خان سوئم‘ نواب محمد رسول خان جابی‘ مسٹرایچ ڈی رینڈل ایڈمنسٹریٹرآف جوناگڑھ کرنل نواب محمدمہابت خانجی‘ کرنل نواب محمد ولاور اور خان جی سابق گورنرسندھ نواب محمد جہانگیر خانجی اب تک اور ولی عہدنواب زادہ علی مرتضیٰ خانجی۔


ریاست جوناگڑھ بھارت کی پہلی ریاست تھی جس نے پاکستان کیساتھ الحاق کااعلان کیاتھا۔ لیکن بھارتی قبضے نے ریاست کے نواب کی پاکستان میں شامل ہونے کاجواب ادھوارہ گیا۔ جوناگڑھ پر قبضے کے بعدپاکستان کے وزیرخارجہ ظفراللہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں18فروری 1948ء میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ سلامتی کونسل کے اراکین دستاویز نمبر(2) سیکشن (B) کی طرف توجہ فرمائین تومسئلہ جوناگڑھ کامختصر احوال ملے گا۔

اس دستاویز کے چوتھے حصے کے حتمی پیرگراف (C۔2اور D) میں سلامتی کونسل سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ کمیشن (یاکمیشنوں) کے ذریعے Cاور جونا گڑھ، منا دوداور دیگر کاٹھیا داردار ریاستیں جوکہ پاکستان سے الحاق کرچکی ہیں وہاں سے ہندوستانی افواج اور انڈین سول بیورکرٹیس کوہٹا کہ یہ ریاستیں قانونی حکمرانوں کے حوالے کی جائیں۔ ’D“ یہ ریاستیں جن کاتذکرہ Cمیں کیاگیاہے ان کے باشندوں کی جوان ریاستوں سے جبراََ نکال دیئے گئے ہیں یاگھر بارچھوڑنے پرمجبور ہوتے ہیں، دوبارہ ان کے مکانات، زمین اور جائیداد واپس دلوائی جائیں، امداد پہنچائی جائے۔

نیزہندوستان کے فوجیوں ، سول حکام اور مداخلت کاروں کی غیرقانونی کارروائیوں کی وجہ سے جونقصان ہوئے ہیں ان کامعاوضہ دلایاجائے۔ جس طرح تشکیل پاکستان ایک تاریخی واقعہ ہے عین اسی طرح الحاق جوناگڑھ بھی اپنے اندرکئی تاریخی پہلو لئے ہوئے ہے لیکن بدقسمتی سے اس اہم واقعے کوبھی نہایت بے حسی کے ساتھ بھلادیاگیا ہے۔ الحاق جوناگڑھ کافیصلہ بھارتی حکمرانوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔

ہندوستان کے حکمرانوں نے نواب صہابت خانجی کولالچ، دھمکیوں اور حیلوں سے ورغلانے اور دھماکے کی کوشش کی لیکن نواب کے قدم نہ ڈگمگا سکے۔ افسوس جوناگڑج کاکیس اقوام متحدہ میں فائل ہونے کے بعد آج تک اسے مسئلے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاسکیں۔ مسئلہ جوناگڑھ پراقوام متحدہ کی خاموی مضحکہ خیز ہے۔ حالانکہ جوناگڑھ پاکستان کاآئینی وقانونی حصہ ہے۔


ریاست جوناگڑھ کے الحاق کے خلاف بھارت کایہ استدال تھاکہ جوناگڑھ اور منادر کے پاکستان میں شامل ہونے سے بھارت کی سلامتی کاخطرہ لاحق ہوگا۔ جوناگڑھ نواب کورائے شماری کروانا چاہیے تاکہ عوام کی رائے معلوم ہوسکے اور یہ رائے شماری ہندوستان اور جونا گڑھ اور ریاست نے کشمیر میں رائے شماری ٹھکرا کروہاں کے ہندوراجہ کے الحاق کی خواہش کی رٹ لگارہاتھا لیکن جونا گڑھ کے معاملے میں حکمران کی خواہش کے برعکس کی صوابدیدکاپرچارکرنے لگا۔

یہ نظریاتی قضاددرحقیقت ہندوستان کی جارحانہ حکمت عملی کاایک حصہ تھا۔بہرحال ریاست میں رائے شمارمحض ایک دکھاوا تھا۔ دراصل وہ جونا گڑھ توہڑپ کے منصوبے پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ہندوستان نے اپنی فوجیں ریاست میں داخل کردیں۔ ریاست کے رسل ورسائل کے ذرائع تومنقطع کردیا۔ریلوے اور سڑکوں کوکاٹ دیاگیا۔س کے نتیجے میں ریاست کا نظم ونسق ہی تباہ کردیا۔پھر اس نے بین الاقوامی رائے عامہ کودھوکہ دینے کے لئے گفت وشنید کااعلان کردیا۔پاکستان حکومت نے رائے شماری کوتجویز پیش کی لیکن بھارت ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ادھر ریاست میں اندورنی حالات ابترین کاشکار ہورہے تھے۔بھارت نے جوناگڑھ کوبزور شمشیر ناجائز تسلط جمالیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Nay Rayasat Par Charhai Kar Kay is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 December 2015 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.