بیت المقدس کا تاریخی پس منظر اورحمیت

بہت سے پاکستانی مسلمانوں کوحقیقت میں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس کی عزت وحرمت عالم اسلام میں کس قدراہمیت رکھتی ہے ،بیت المقدس کے بہت سے جانثاران (قبتہ )گنبدالصخرا کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہی مسجد اقصیٰ ہے۔

بدھ 13 دسمبر 2017

Bait ul Muqadas Ka Tareekhi Pas Manzar
بہت سے پاکستانی مسلمانوں کوحقیقت میں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس کی عزت وحرمت عالم اسلام میں کس قدراہمیت رکھتی ہے ،بیت المقدس کے بہت سے جانثاران (قبتہ )گنبدالصخرا کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہی مسجد اقصیٰ ہے۔ مسجد اقصیٰ کا احاطہ اس قدر بڑا ہے کہ اس میں پانچ ہزار سے زائد نمازیوں کے لیے گنجاش ہے یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے اسی کے احاطے میں گنبد الصخرا موجود ہے اس وقت کے سلطنت اسلامیہ کے خلیفہ عبدالمالک کے عہد میں یہاں مسجد اقصیٰ کی تعمیر عمل میں آئی تو صخرا معراج کے مقام پرگنبدالصخرا بنایاگیا،یعنی گنبدالصخرا کے اسی احاطے میں حرم القدسی کے جنوبی حصے میں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔

یہ ہی حال پاکستانی مسلمانوں کا ہے کہ وہ جذ بانی طور پر بیت المقدس کے معاملے میں اپنے اندر بہت بے چینی رکھتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذ رانہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں مگر اس مقدس مقام کی بہت سی تاریخی خصوصیات سے نابلد ہیں۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں ایک واقعہ مثال دینے کے لیے پیش کرتاچلو ں کہ تحریک آزادی کے دنوں میں مولانا حسرت موہانی لندن گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ہندوستان سے کراچی تشریف لارہے تھے طے یہ پایا تھا کہ قائداعظم سمیت تمام رہنماؤں کو ایک جگہ جمع ہوکر جانا تھا سر عبداللہ ہارون کا گھر اسٹیشن کے قریب ہونے کے باعث سب کے اکٹھے ہونے کا مقام ٹھہر ا۔

اس سلسلے میں مولانا حسرت موہانی بھی ہندوستان سے کراچی آنے کے لیے ٹرین میں سوار تھے۔میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے سر عبداللہ ہارون نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ انڈیا سے مولانا حسرت موہانی صاحب تشریف لارہے ہیں ان کو عزت کے ساتھ گھر پر لے آؤ لہٰذا انہوں نے اپنے آدمیوں کو اسٹیشن پر بھیج دیامولانا صاحب اس دور کی مناسبت سے کچھ زیادہ ہی سادہ طبیعت آدمی تھے۔

انہوں نے اپنے سامان یعنی گٹھڑ ی جس میں ان کی لنگی ،شیر وانی اور ایک آدھ سوٹ موجود تھا وہ ان کے پاس موجود تھی گاڑی ریلوئے اسٹیشن پر پہنچی تو مولانا صاحب لوگوں سے پتہ معلوم کرتے ہوئے عبداللہ ہارون کے گھر جاپہنچے اور باہر کھڑے چوکیدار کو کہا کہ میرا نام حسرت موہانی ہے اور میں عبداللہ ہارون سے ملنے آیاہوں ۔اس پر چوکیدار نے مولانا صاحب کپڑوں اور ہاتھ میں پکڑے سامان کو معمولی سمجھتے ہوئے کہاکہ اس وقت بڑے صاحب کے کچھ خاص مہمانوں نے آناہے اس لیے آپ ان ملاقاتوں کے بعد ان سے مل لیجئے گا ،لہٰذا مولانا صاحب نے چوکیدار کو اچھا کہا اور ایک جانب سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔

کافی دیر بعد جب گاڑی اسٹیشن سے چھوٹی توعبداللہ ہارون کے تما م آدمی واپس گھر آگئے اور انہیں بتایا کہ اس گاڑی سے مولانا حسرت موہانی صاحب آئے ہی نہیں ہیں ،عبداللہ ہارون یہ سن کر بہت حیران ہوئے کہ مولانا صاحب نے توخود گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے مجھے تار بھیجا تھا بھلا ایسا کیسے ہوسکتاہے ؟۔اس ساری گفتگو کو چوکیدار بھی خاموشی سے سن رہاتھا۔

چوکیدار نے سرعبداللہ ہارون کے آگے پریشانی کے عالم میں زبان کھولی اور کہاکہ ایک بڑے میاں دروازے کے باہر سیڑھیو ں پر بیٹھیے ہیں اور اپنا نام حسرت موہانی بتاتے ہیں،سر عبداللہ ہارون نے اسی وقت ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا کہ" اوہ یہ کیا کیا تم نے "وہ فوراً ہی دروازے کی جانب لپکے اور سیڑھیوں پر بیٹھے مولانا صاحب کو عزت کے ساتھ گھر میں لے آئے۔

مولانا صاحب اپنے ہی استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کے درمیان سے گزر گئے اور کسی نے نہ پہچانا حتیٰ کہ گھر کے چوکیدار نے بھی ٹھیک طرح سے معلوم نہ ہونے کی بناپر مولانا صاحب کو گھر کے باہر ہی بٹھادیا ۔جبکہ گھر میں چہل پہل اور ساری بھاگ دوڑ بھی انہیں کے استقبال کے لیے ہورہی تھی اس میں شریک توسبھی لوگ تھے مگر مولانا صاحب سے واقف کوئی ایک بھی نہ تھابس کچھ یہ ہی حال بیت المقدس کے معاملے میں ہمارے بہت سے مسلمان بھائیوں کا ہے جو جذ بات کی رو میں اس قدر بہہ چکے ہیں کہ جس کی واپسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے مگر وہ پوری طرح سے اس عظمت کے مقام سے واقف نہیں ہیں کہ اصل میں بیت المقدس کا مقام مسلمانوں کے لیے کیوں اس قدر اہمیت کا حامل کہلاتاہے۔

اس سلسلے میں بہت سی اہم باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔اب ذر ا ہم یروشلم یعنی بیت المقدس کی کچھ انتہائی ضروری تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں یوں توبیت المقدس کی تاریخ اس قدر قدیم اور جنگوں سے بھری پڑی ہے کہ اس پر دنیا کی مختلف زبانوں میں موجود بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم چند ایک اہم تاریخی واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔

، مذہبی اہمیت کے اعتبار سے یہاں مسجد اقصیٰ موجود ہے جسے اسلامی اعتبار سے بیت المقدس کہا جاتاہے ،مسلمانوں کا قبلہ اول بھی یہ ہی ہے ،مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300کلومیٹر ہے۔جبکہ مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین کی عقیدت کی بڑی وجہ عیسائیوں اور یہودیوں سے زیادہ اس لیے بھی ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی پیغمبران اسلام اس دنیا میں تشریف لاچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی پیدائش اور تبلیغ کا مرکززیادہ تر بیت المقدس ہی رہاہے۔

عیسائیوں کا مقدس چرچ آف ہولی حضرت عیسیٰ کا جائے پیدائش "بیت اللحم "بھی یہاں ہی واقع ہے ،جبکہ یہودیوں کے لیے وہ مغربی دیوار ،"دیوار گریہ "موجود ہے یعنی یہودیوں کا مقدس مقام "وال آف دی ماؤنٹ " دیوار گریہ کا کچھ حصہ ہے ۔جو ان کے کے لیے کسی نہ کسی لحاظ سے عقیدت کاباعث کہلاتاہے۔مگرمسلمانوں کے لیے یہ مقام سب سے زیادہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم جب جبرائیل امین کے ہمراہ معراج پر تشریف لیجانے کے لیے مختلف مقامات مقدسہ سے ہوتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے پر پہنچے تووہاں ان کے استقبال کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر جمع تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم نے تمام انبیاء علیہ السلام سے مصافحہ کیااور وہاں سب انبیاء السلام کو نماز پڑھائی۔ جبکہ تاریخی اعتبار سے ،2000قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر(ار)جودریائے فرات کے کنارے آباد تھاہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں جبکہ دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کومکہ میں آباد کیا حضرت اسحاق علیہ السلا م کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا لہٰذا ان کی نسل بنی اسرائیل کہلائی ۔

جبکہ حضرت یعقوب ،حضرت یوسف ،حضرت داؤد ،حضرت سلیمان ،حضرت یحییٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت اور بہت سے پیغمبران اسلا م نے اسی سرزمین پر تبلیغ کا کام شروع کیا۔یہ ہی وجہ ہے بیت المقدس کو پیغمبروں کی سرزمین بھی کہاجاتاہے ۔ آج ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرانے کے اعلان کے بعدپوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ہلچل سے مچی ہوئی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ امریکا نے یہ قدم اٹھاکر خود کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرلیاہے، ٹرمپ نے امریکا کے اندر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے انتہائی دائیں بازوں کے لوگوں اور اسرائیل کے رہنماؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے لیکن انہیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے اس فیصلے سے امریکا کے طویل المیعادمفادات کو مشرقی وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے سامنے کس قدر نقصان اٹھانا پڑیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bait ul Muqadas Ka Tareekhi Pas Manzar is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 December 2017 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.