یہ قتل تھا یا محض حادثہ؟

مودی کی بدنامی کا سبب بننےوالا وزیر حادثے میں مرگیا،منڈے بی جے پی کے سینئر رہنما مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس لئے سمراتی کی تعلیمی قابلیت کی نسبت گوپی ناتھ منڈے کی ڈگری پر زیادہ تنقید ہونے لگی

منگل 24 جون 2014

Yeh Qatal Tha Ya Mehez Hadsa
ارونا کماری:
نریندر مودی کے وزیراعظم بنتے ہی بی جے پی کو اپنے امیدواروں کے حوالے سے بدنامی کا سامنا کرناپڑا اور چند دن میں ہی بھارتی حکو مت سے متعدد سکینڈلز پر جواب طلب کیا جانے لگا۔ بھارت کی اس نوزائیدہ مرکزی حکومت کو اسمرتی ایرانی کے معاملے میں الیکشن کمیشن کو غلط معلومات دینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اسمرتی کو سزادی جاتی التا راز فاش کرنے پر دہلی یونیوریسٹی کے اہلکاوں کو برطرف کردیا گیا۔

اسمرتی مودی حکومت میں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل تھیں۔ نریندر مودی ابھی اپنی مرکزی وزیراسمرتی ایرانی کے سکینڈل سے ہی باہر نہیں آئے تھے کہ ایک اور وزیر کے بارے میں بھی انکشاف ہوا کہ انہوں نے بھی الیکشن کمیشن سے جھوٹ بولا تھا اور اپنی تعلیمی قابلیت کے بارے میں غلط بیانی کی تھی۔

(جاری ہے)


نریندرمودی کے وزیربرائے دیہی ترقی گوپی ناتھ منڈے پر الزا عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے جو حلف نامہ جمع کرایا، اس میں درج ہے کہ انہوں نے اپنی بی جے ایل کی ڈگری نیو لاء کالج پونے سے 1976ء میں حاصل کی تھی۔

یہ حلف نامہ ہندوستانی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔ دوسری جانب نیو لاء کالج کی ویب سائٹ کے مطاق یہ کالج 1978ء میں قائم ہوا تھا۔اس پر سوال اٹھے کہ منڈے نے کالج بننے سے دوسال قبل ہی ڈگری کیسے لے لی تھی؟ یہ باتیں عام ہوگئیں اور سوچل میڈیا پر تیزی سے مودی حکومت کے خلاف فضا قائم ہونے لگی۔ منڈے بی جے پی کے سینئر رہنما تھے اور مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔

اس لئے سمراتی کی تعلیمی قابلیت کی نسبت گوپی ناتھ منڈے کی ڈگری پر زیادہ تنقید ہونے لگی۔ ابھی منڈے کی وجہ سے نریندر مودی کی بدنامی کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وہ پراسرار طور پر ایک ٹریفک حادثے میں منڈے جاں بحق ہوگئے۔
گوپی ناتھ کی کار کو ٹکر مانے والی کار کے ڈرائیور گرویندر سنگھ کو پولیس گرفتار کر چکی ہے۔ کار کا تعلق ہوٹل امپیریکل سے ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیقاتی اداروں نے ہوٹل سے رابطہ کیا تو ہوٹل انتظامیہ نے کہا: ان کا اس کار اور ڈرائیور سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ ڈرائیور کا ذاتی فعل ہے۔ ہوٹل انتظامیہ کے بیانات کے بعد اس کسی سے وابستہ پولیس افسر نے کہا: ڈرائیور گرویندر سنگھ نے اپی ذاتی کار سے وزیر کو ٹکر ماری تھی۔ بھارتی وزیر جس طرف بیٹھے تھے کار کی ٹکر بھی اسی طرف لگی تھی۔

حادثے کے بعد گرویندر سنگھ کی کار کا ریڈی ایٹر خراب ہوگیا جس کی وجہ سے وہ بند ہوگئی اور وہ فرار ہونے میں ناکام رہا۔ حادثے کے روز گوپی ناتھ منڈے اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ائیرپورٹ جانے کیلئے سفید مارووتی میں بیٹھے اس وقت 6بج کر 15منٹ ہوئے تھے۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد ان کی کار کو ٹکر ماری گئی اور دس منٹ بعد منڈے کو ایمس ٹراما سینٹر لے جایا گیا۔

لگ بھگ 45منٹ بعد ڈاکٹروں نے منڈے کو باضابطہ طور پر مردہ قرار دے دیا تھا۔ اسی دوران ان کی گاڑی کو ٹکر مارنے والا شخص بھی گرفتار ہوچکا تھا۔ جائے وقوعہ کو ہائی سکیورٹی زون سمجھا جاتا ہے۔ اس راستے سے وی وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے۔ اسی علاقے میں زیادہ تر وزراء اور ممبران پارلیمنٹ رہتے ہیں جبکہ بھارتی وزیر اعظم بھی اس سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔


بھارتی وزیر کے قتل میں کچھ باتیں صورتحال کو مشکوک بنارہی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس حادثے یا قتل کا کوئی عینی شاہد موجود نہیں، پھر منڈے کی گاڑی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ منڈے کے جسم پر بھی کوئی بیرونی زخم نہیں آیا۔ ان کی موت اندرونی چوٹ کی وجہ سے ہوئی۔ بھارت کے مرکزی وزیر صحت ڈکاتر ہرشن وردھن کا کہنا ہے کہ حادثہ کے وقت منڈے پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے، انہوں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی۔

اگر سیٹ بیلٹ باندھ لیتے تو ان کی جان بچ سکتی تھی۔ان کی کار کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن ٹکر سے منڈے کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں کافی چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ مرگئے۔
بظاہر گوپی ناتھ منڈے کی موت ٹریفک حادثے میں ہوئی ہے لیکن اس کہانی میں کئی ایسے خلا موجود ہیں جنہوں نے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے۔ دہلی پولیس کی سپیشل برانچ اور انٹیلی جنس بیوروں کی ٹیم اس حادثے کے دوسرے پہلوؤں پر بھی تحقیق کررہی ہے۔

پولیس کو شک ہے کہ یہ حادثہ ایک منصوبے کے تحت ہوا تھا۔ منڈے کے ڈرئیور سے پوچھ گچھ ہورہی ہے جبکہ ٹکر مارنے والے سے بھی تفتیش جاری ہے۔ ڈرائیور پر تیز رفتاری اور لاپروائی کا مقدرمہ درج کیا گیا ہے۔ حادثہ سے پہلے منڈے سے رابطے میں رہنے ولاے افرد سے بھی تحقیقات جاری ہیں۔
بھارتی سرکار کی بدنامی کا باعث بننے والے رہنما کی ائیرپورٹ جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں موت شاید اتفاق ہو لیکن اس سے اگلے ہی روز بھارت کی انتہا پسند تنظیم راشٹر یہ سوئم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت تنظیم کے دفتر سے ائیرپورٹ جارہے تھے تو ان کی گاڑی کو بھی ٹکر ماری گئی۔

یہ ٹکر اس قدر شدید تھی کہ محافظوں کی گاری موہن بھاگوت کی گاڑی سے ٹکرا گئی۔ موہن بھاگوت اس حادثے میں محفوظ رہے لیکن سال یہ ہے کہ کیا ان کی گاڑی کو لگنے والی شدید ٹکر بھی محض اتفاق تھا یا پھر انہیں کوئی پیغام پہنچایا گیا تھا۔ یاد رہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا تعلق بھی اسی انتہا پسند تنظیم سے ہے اور وہ اسی کی مدد سے سیاست میں آئے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Yeh Qatal Tha Ya Mehez Hadsa is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 June 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.