یکساں سول کو ڈ یا ہندو کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں

مسلم پرسنل لاء میں مداخلت جاری، بھارتی سیکولر آئین کی دفعہ 25 کے تحت ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے

جمعرات 6 جولائی 2017

Yaksan Civil Code Ya Hindu Code K Nafaz Ki Tayarian
رابعہ عظمت:
آج ہندوستان کو ہندو راشٹر یہ بنانے کیلئے یکساں سول کوڈ یا یکساں شہری قانون کے نفاذ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔یکساں سول کوڈ سے مراد وہ قوانین ہیں جو کسی بھی مخصوص خطہ میں آباد لوگوں کی سماجی اور عائلی زندگی کیلئے بنائے گئے ہوں۔ان قوانین کے تحت ہر فرد کی شخصی اور خاندانی زندگی کے معاملات آتے ہیں۔

نکاح اور طلاق،ہبہ،وصیت اور وراثت جیسے امور انہی قوانین کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں۔ بھارت میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اسلامی وشرعی قوانین کے برخلاف امور انجام دینے ہوں گے۔شادہ بیاہ،وصیت،وراثت کے معاملات میں اسلامی قوانین کے بجائے حکومت کی طرف لاگو کردہ قانون پر عمل کرنا ہوگا بی جے پی کا ”یکساں سول کوڈ“واضح طور پرمسلم پرسنل لاء کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

(جاری ہے)

یہ حقیقت ہے کہ سرکاری یا نیم سرکاری سطح سے مختلف قسم کے اجتماعات کے ذریعے ”یکساں سول کوڈ“کی راہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔ہندو فرقہ پرست جدوجہد کر رہی ہے اور ایسے گروہ بھی تشکیل دیئے جا چکے ہیں جن کا بنیادی موضوع یہی مسئلہ ہے ۔اس کے نفاذ کیلئے ذہن سازی کی کوشش جاری ہے۔کچھ لوگ انتہا پسندی کی شکل میں قوت کے سہارے یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کچھ لوگ اصلاح کے نام پر اس کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے”مسلم شرعی قوانین کا خاتمہ“۔

بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے معاملے میں آر ایس ایس کے تمام لیڈروں کی ایک ہی رائے ہے،سنگھ پریورا کے سربراہ موہن بھاگوت ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو ہندو راشٹر قراردے چکے ہیں۔ اتر پردیش کے کٹر فرقہ پرست وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے مطابق ہندو راشٹر کا تصور غلط نہیں ہے‘اس میں کوئی برائی نہیں،کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔چنانچہ اب مسلمانوں کی یہ بات سمجھ لینا ہو گی کہ طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو یا رام مندر کی تعمیر کا ،سب سیاسی کھیل کا حصہ ہیں۔

بھگوا حکومت کا مقصد 2019ء کے عام انتخابات سے قبل ہندو اکثریتی طبقے کو یہ پیغام دینا ہے کہ حکومت ہندو راشٹر بنانے کے لئے سرگرم ہے اور اگر اس میں کامیابی مل گئی تو ہندو راشٹر یہ کا اعلان کرنا مشکل نہیں رہے گا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ”ہندو توا“کو مذہب نہیں ایک تہذیب قرار دیا ہے اور ایک اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں بھگوا قیادت ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتی رہتی ہے۔

چلاق ثلاثہ کے نام پریکساں سول کوڈ،رام مندر کی تعمیر،اس کے بعد بی جے پی کے سامنے آرٹیکل 370 کا مسئلہ رہ جائے گا جس کے تحت کشمیر کی بطور الگ ریاستی حیثیت قائم ہے۔اگر یہ ختم ہوگئی تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی 30 ویں ریاست بناناتھی بھی آسان ہوجائیگا۔سچر کمیٹی کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس راجندر سچر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ 2019ء میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کرنے کی آر ایس ایس پوری کوشش کرے گی۔

بقول سابق جسٹس یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہوگا کیونکہ بہت سے ہندو بھی اس کی مخالفت کریں گے۔نہ صرف مسلمان بلکہ سکھ اور عیسائی بھی نہیں چاہتے کہ بھارت ہندو راشٹر میں بدل جائے۔اس لئے آر ایس ایس کی راہ کافی مشکل ہو گی۔ غیر جانبدرانہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی نظر میں قومی اتحاد اور یکجہتی کیلئے یونیفارم یکساں سول کوڈ لازمی ہے تو پھر ملک کی ریاستوں میں مختلف قوانین کیوں نافذ العمل ہیں ؟1954ء میں ہندو کو ڈبل نافذ کیا گیا، اس کے باوجود ہندوؤں میں شادی بیاہ اور طلاق اور تفریق ازواج کے الگ الگ رسوم ورواج ہیں․․․․دراصل صرف ہندو راشٹر بنانے کیلئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور رام مندر کی تعمیر کے ساتھ آرٹیکل 370 کے خاتمہ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔

اور اُن کے پیچھے پوشیدہ ”ہندو راشٹر کا اصل مقصد“ ہے۔ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشواہند و پریشد کے جنرل اشوک سنگھل نے کہا تھا کہ”ہندوستان میں800 سال بعد ہندوؤں کا راج قائم ہوا ہے اور اس عرصے میں پہلی بار ہندوؤں کے لئے فخر کی علامت ایک سوئم سیوک کو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔“ وشواہند و پریشد کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان اس ملک میں عزت چاہتے ہیں تو انہیں ہندوبن کر رہنا ہوگا۔

․․․․بی جے پی کے وزیر سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ ”مسلمان تسلیم کرلیں کہ وہ ہندو آباؤ اجداد کی اولاد ہیں۔ہندوستان میں رہنے والا ہر مسلمان صرف ہندوستانی ہے جسے کوئی نمایاں مقام نہیں دیا جا سکتا“۔ گزشتہ انتخابات میں چند نشستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کا ووٹ تقریباََ متحد رہا ہے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا بھارت میں سیاسی مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے۔

مسلم قیادت کشمکش کا شکار ہے۔ملی تنظیموں کی زبانیں خاموش ہیں کیونکہ جس کا کانگریس سے مسلمانوں نے اپنا مستقبل وابستہ کیا تھا اب اس کا وجو د نیست و نابود ہونے کے قریب ہے۔ مسلمانوں کی اپنی کوئی سیاسی قیادت نہیں ہے اور بی جے پی کا اصل مشن آر ایس ایس کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہندو راشٹر کا قیام ہے۔فرقہ پرست طاقتیں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہیں کہ مسلمانوں نے تم پر صدیوں حکمرانی کی اور تم کو غلام بنا کر رکھا۔

اب تم آزاد مودی راج میں ہوئے ہو اور مودی تمھارامسیحا ہے۔ برسراقتدار آنے کے بعد پارلیمنٹ میں مودی نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ملک بارہ سوسال کی غلامی کے بعد آزاد ہوا ہے جس کا جرات مندانہ جواب مسلم لیڈر اسدالدین اویسی نے اسی پارلیمنٹ میں ہی دیا تھا۔آر ایس ایس جس اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے اور ہندو فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کیلئے سیکولر ازم اس لئے کمزور پڑگیا ہے کہ سیکولر جماعتوں میں بھی انتہا پسند سیکولر ازم کے لبادے موجود رہیں‘ اسے”نرم ہندو توا“ کہا جاتا ہے۔

مہاتما گاندھی کا قتل ‘سردار پٹیل کے مقابلے میں پنڈت نہرو کی کمزرویاں ‘سیکولر ازم کیخلاف ہندو فرقہ پرستوں کی مضبوطی کا پختہ اور ناقابل یقین ثبوت ہے۔ دونوں کی قدر مشترک ہندو تو اہی رہی ہے۔مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈ سے کوبے شک پھانسی دیدی گئی لیکن آر ایس ایس پر مختصر پابندی کے بعد سردار پٹیل نے بڑی ہوشیاری ومکاری سے تمام پابندیوں سے آزاد کردیا تھا۔

ہندو مہا سبھا کو بھی پروپیگنڈہ کرتے رہنے کی مکمل آزادی رہی۔کانگریس میں بھی ہمیشہ ہندو فرقہ پرستوں کا غلبہ حاصل رہا۔بابری مسجد کی شہادت ہو یا گجرات میں 2002ء کے فسادات کے موقع پر ہندو انتہا پسندی چھائی رہی۔بابری مسجد کے اصل مجرموں‘گجرات2002ء فسادات کے اصل مجرموں کو سزا دلانے میں کانگریسی حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتیں تو آج فرقہ پرستی کو عروج نہ ملتا۔

ہندو فرقہ پرستوں کی کانگریس سے مسلمانوں کو دور کردیا۔اب جبکہ بی جے پی کی فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ حدتو یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ ہویا گاؤ کشی کا ‘کا نگریس بی جے پی کی بی ٹیم نظر آتی ہے۔حال ہی میں مویشیوں کی خرید فروخت کے سلسلے میں جو نیا قانون آیا ہے اس پر کئی ریاستوں میں احتجاج ہو رہا ہے۔ چنانچہ کرناٹک میں وہاں کا نگریسی حکومت کے باوجود بیف فیسٹیول میں حصہ لینے والوں کو کانگریس نے معطل کردیا۔

کرناٹک کی کانگریسی حکومت بی جے پی کی حلیف نظر آتی ہے جبکہ کیرالا بنگال میں اور شمال مشرقی ریاستوں میں مرکزی حکومت کے قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔دریں اثنا چند سال قبل شاہ بانو مقدمہ کے فیصلہ میں عدالت نے مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی جسارت کی تھی۔لیکن اسے شریعت میں مداخلت سے تعبیر کرکے مسلمانوں نے نہ صرف تحریک چلائی بلکہ قانون کو تبدیل کروا کے ہی دم لیاتھا۔

اس لئے ضروری ہے کہ اس کا لحاظ رکھا جائے اور کوئی قانون زبردستی تھوپنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک سال حکومت کی اس دوران کسی ہندو کو مسلم پرسنل لاء یا سول کوڈ کا پابند نہیں بنایا گیا بلکہ ہندو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرتے تھے۔ اس طرح انگریزوں میں بھی مسلمانوں کو اپنے شرعی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی رہی مگر بھارت میں مسلمانوں کے پرسنل لاء میں باربار مداخلت کی کوشش کی جاتی رہی۔

1931ء میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کی تھی۔کہ بھارت میں پرسنل لاء کو خصوصی تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا۔جبکہ بھارتی آئین کی دفعہ (25) کی روشنی میں ہر مذہب والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔آئین ہند کی دفعہ(44)میں یوں لکھا گیا ہے کہ ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ہندوستان میں یکساں شہری قانون ہو۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 70 سالوں سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ بنائی جارہی ہے جودفعہ(25) کے مخالف ہے۔کامن یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی اصل وجہ مسلمانوں کو ہندو بنانے کا ہے۔آر ایس ایس کے ہولناک منصوبے کے مطابق 2020 تک ملک ہندرریاست میں بدل دیا جائے گا جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو باقاعدہ حکم دے دیا ہے ۔کہ وہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ عمل میں لائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Yaksan Civil Code Ya Hindu Code K Nafaz Ki Tayarian is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.