ترک حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش ناکام

مارشل لا لگانے کی کوشش کرنیوالوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری۔۔۔ تختہ الٹنے کی سازش میں بہت کم تعداد میں فوجی شریک ہوئے

جمعہ 28 جولائی 2017

Turk Hakoomat K Khilaf Baghawat Ki Koshish Nakam
رمضان اصغر:
اقتدار پر قبضے کی کوشش کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ترک فوج کے قائم مقام سربراہ کے مطابق ہلاک شدگان میں 104 سے زائد باغی فوجی،41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری شامل ہیں۔حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کردیے گئے اور کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کردیں۔

اس کے بعد فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگادیا گیا ہے،اقتداران کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘اب ملک کا نظام چلائے گی۔ عوام کی جانب سے فوجیوں پر غلبہ پانے کی تصاویر عالمی میڈیا پر نشر ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

جب یہ واقعات پیش آئے تو اس وقت رجب طیب اردگان ملک سے باہر تھے۔ اب ترک حکام کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کا ناکام بنادیا گیا ہے تاہم صورتحال تاحال واضح نہیں ہے۔

فوج گروپ کے اعلان کے بعد انقرہ اور استنبول میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی تھیں۔ ترک فوج کے 1563 ارکان کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 26 کرنل اور پانچ جنرل بھی برطرف کردیے گئے ہیں۔ باغیوں کی جانب سے حراست میں لیے جانے والی فوج کے سربراہ جنرل بلوزی اکار کو بھی بازیاب کروالیا گیا ہے ۔ وطن واپسی سے قبل رجب طیب اردگان نے فیس ٹائم کے ذریعے بھیجے گئے پیغام میں عوام سے باہر نکلنے اور فوجی بغاوت کا ناکام بنانے کی اپیل کی تھی جس کے بعد انقرہ اور استنبول میں عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی اور وہاں تعینات فوجیوں سے ان کا تصادم بھی ہوا تھا۔

عوام کی جانب سے فوجیوں پر غلبہ پانے کی تصاویر عالمی میڈیا پر نشر ہوئی ہیں جن میں باسفورس کے پل پر ہاتھ اٹھائے فوجیوں کو ٹینکوں سے دور جاتے دیکھا جاسکتاہے۔ ترکی کی ریاستی خبر رساں ایجنسی انوطولو کے مطابق ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں 200 ء غیر مسلح فوجیوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف 16 طیاروں نے انقرہ میں صدارتی محل کے باہر تعینات باغیوں کے ٹینکوں پر بمباری بھی کی ہے جبکہ ملک کی پارلیمان کی عمارت کو بھی دھماکوں سے نقصان پہنچا ہے۔

ترکی واپسی کے بعد استنبول کے ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس سے خطاب میں طیب اردگان نے تختہ الٹنے کی اس کوشش کو غداری قراردیا اور بتایا تھا کہ جن افسران نے ملک میں مارشل لا لگانے کی کوشش کی ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے این ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے صورتحال بہت حد تک کنٹرول میں ہے اور انقرہ کو نو فلائی زون قراردے دیا گیا ہے۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ بغاوت کی کوشش کس کی ایما پر کی گئی تاہم حکام نے اس کا الزام امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے رہنما فتح اللہ گولن پر عائد کیا ہے۔ اناطولو ایجنسی نے بغاوت کرنے والے اس گروہ کا نام فیتو بتایا ہے۔ ترک حکومت اسے ہزمینت موومنٹ کہتی ہے جس کے سربراہ فتح اللہ گولین ہیں۔ تاہم فتح اللہ گولین نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش ان کی ایما پر ہوئی ہے۔

ترک عوام نے فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادی ،عام طور پر عوام کو فوج کا خوف ہوتا ہے لیکن ترکی میں عوام نے فوجی اہلکاروں کے دلوں میں اپنا ڈر بٹھادیا ۔ واضح رہے کہ رات گئے ترک فوج کے ایک باغی گروپ نے ملک میں مارشل لاء کا اعلان کیا تھا،تاہم صدر رجب طیب اردگان کی کال کے بعد عوام سڑکوں پر آئے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام بنادی گئی۔

فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد جب فوجی اہلکار تقسیم اسکوائر پر تعیناتی کے لئے جارہے تھے تو ان کے دل میں یہ خوف تھا کہ وہاں موجود عوام ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ 2013ء میں یہی تقسیم اسکوائر تھا جہاں ہزاروں لوگ اُس وقت وزیراعظم کے عہدے پر فائز رجب طیب اردگان کے خلاف جمع ہوئے تھے لیکن اب حالات مختلف ہیں۔آج شہری حکومت کے حق میں اور فوج کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور تقسیم اسکوائر ،ملٹری گیٹ آؤٹ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لوگ فوجی حکومت سے ڈرتے ہیں ،وہ جانتے ہیں کہ آمر کی حکومت میں کیا ہوتا ہے۔ فوج کے خلاف سڑکوں پر آنے والے لوگ فوجی ہیلی کاپٹرز کو دیکھ کر نعرے لگا رہے تھے،جب فوجی اہلکاروں نے فائرنگ شروع کی تو اُس وقت مناظر انتہائی خوفناک تھے۔ متعدد افراد زخمی ہوئے،ایمبولینسوں کی روشنی میں مشتعل شہریوں کے چہرے نمایاں ہورہے تھے، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے،فوج نے ایسا کیا وہ قاتل ہیں۔

فوجی اہلکاروں نے اُن افراد پر بھی فائرنگ کی جو پیدل ہی فتح سلطان محمد پل عبو ر کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی خبریں سامنے آتے ہی دکانیں بند ہونا شروع ہوگئیں،اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کا رش لگ گیا ،لوگ پریشان تھے کہ پتہ نہیں کل کیا ہوگا۔ استنبول میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار شہری پانی خرید کراپنے گھروں کو جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور گھروں سے ٹی وی پر چلنے والی بریکنگ نیوز کی آوازیں آرہی تھیں۔

فوجی بغاوت کی خبریں آتے ہی استنبول کے کچھ علاقے سناٹے میں ڈوب گئے،ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد عوام جمہوریت کو بچانے کے لئے سڑکوں پر آگئے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ یورپ اورایشیاء کو ملانے والے دونوں پلوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آرہی تھیں تاہم ایک بیئر بار میں کچھ نوجوان کسی بھی صورت میں اپنے ویک اینڈ کو برباد نہیں کرنا چاہتے تھے اور باع یں ہی موجود رہے۔

ایک شہری میڈیا والوں کو بتا رہا تھا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر ملک پر فوج کا قبضہ ہو جائے، ترکی میں کئی بار فوجی بغاوت ہوئی ہے، میں اس کے خلاف ہوں۔ اس شخص نے اپنے بازو پر بنا کمال اتاترک کا ٹیٹو دکھاتے ہوئے کہا کہ فوجی حکومت ترکی میں نہیں چل سکتی۔ ایک اور شخص نے کہا کہ دیکھیں فوج کے آنے کی وجہ سے جگہ بالکل خالی ہے حالانکہ عام طور پر یہاں ہزاروں لوگ ہوتے ہیں، آمرانہ حکومت اچھی نہیں ہوتی اس سے ملک 20 سال پیچھے چلا جائے گا، بھائی کو بھائی کا خون نہیں بہانا چاہیے۔

اچانک بیئربار کے مالک نے آواز لگائی، سرکاری ٹی وی پر فوجی بغاوت کا اعلان ہوگیا،مارشل لا ء لگ گیا، یہ سننا تھا کہ بار میں موجود لوگ سیکنڈ میں غائب ہوگئے، کرسیاں اٹھالی گئیں اور جیسے تیسے با ر بند کردیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بغاوت کو مکمل طور پر نہیں کچلا جاسکا۔ قائم مقام آرمی چیف نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی فوجیوں نے کئی کمانڈرز کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

نئی بغاوت کسی وقت بھی ہوسکتی ہے ، ترک صدر طیب اردگان کے دفتر نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شام کو سڑکوں پر نکلیں۔ صدر کے دفتر سے کئے گئے ٹویٹ میں کہا گیا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ بغاوت کس مرحلے پر ہے ہمیں آج شام کو سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ نئی بغاوت کسی وقت بھی ہوسکتی ہے۔ ترکی کے حکام ملک کو جلد از جلد معمول پر لانے کے لیے کوششیں کررہے ہیں ۔

وہ ہوائی اڈوں ،پُلوں اور سڑکوں کو دوبارہ کھولنے میں مصروف ہیں۔ ٹینک کے لوگوں سے پارلیمنٹ کی عمارت کو شدید نقصان ہونے کے باوجود ممبران غیر معمولی اجلاس کے لئے جمع ہورہے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ 1500 سے زیادہ باغیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے 16 رہنماؤں کو ملٹری ہاڈ کوارٹرز میں جھڑپوں کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔

ترکی کے ریسرچر مائیکل روبن کا کہنا ہے ، کیا بغاوت ناگزیر تھی؟ نہیں۔ لیکن جنھوں نے بغاوت کی ان کا سوچنا یہ تھا کہ وہ ترکی کو عوام سے دور اور نظریاتی لیڈر شپ سے بچا رہے ہیں۔ اردوگان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترک عوام کے لئے حکومت کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے معیشت کر بہتر کرنے کا وعدہ کیا لیکن بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے، کرنسی غیر مستحکم ہے۔

انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں امن لائیں گے لیکن ان کی جارحانہ پالیسیوں نے ترکی کو مشرق وسطیٰ میں تنہا کردیا اور مغرب سے تعلقات خراب کیے۔ ترکی میں موجود صحافی ایلوسکوٹ نے ایک پیغام ٹویٹ کیا ہے جو ان کے بقول صدر طیب اردوگان نے لوگوں کو بھیجا تھا۔ اس پیغام میں صدر نے عوام سے حکومت کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔ انقرہ کے فوٹو گرافر پیرو کسٹیلانونے بی بی سی کو بتایا کہ عوام سے حکومت کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔

لوگ مرکزی اسکوائر کی جانب روانہ ہوگئے اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے سامنے آئے اور پھر خونریزی ہوئی۔ اس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ عوام اور فوج کے درمیان گہرے روابط ہیں یا کم از کم رات تک تھے۔ اسی لیے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب فون نے لوگوں پر فائرنگ کی۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان باغی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بال بال بچ گئے۔

مرماریس شہر میں باغیوں نے ہوٹل سے صدر طیب اردگان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم وہ اس پہلے ہی نکل چکے تھے، جھڑپ میں دو اہلکار ہلاک اور نو زخمی ہو گئے۔ فوجی بغاوت کا اعلان کرنے کے بعد باغیوں نے مرماریس میں موجود ترک صدر طیب اردگان کوبھی گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ فوجی اہلکاروں نے مرماریس میں اس ہوٹل پر دھاوا بولا جہاں طیب اردگان چھٹی منانے کے لئے موجود تھے۔

اس دوران پولیس اہلکاروں اور باغیوں کے دوران شدید جھڑپ ہوئی جس میں پولیس کے 2 جوان ہلاک اور 9 زخمی ہوگئے۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ طیب اردوان باغی فوجیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی ہوٹل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ترکی میں ایک فوجی گروپ کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی گئی جس کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا ساتھ دیں۔

وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں ترکی کی سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مزاحمت کریں اور تشدد اور خونریزی سے بچیں۔ ادھر روس کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ترکی کے وزیر خارجہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ترکی کی منتخب حکومت اور جمہوری اداروں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

روس کے وزیرِ خارجہ سرگے لاروف کا کہنا ہے کہ ترکی کے مسائل کو اس کے آئین کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان کے مطابق بان کی مون ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں ایک فوجی گروپ کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کے بارے میں علم ہے۔ جرمن چانسلرانجیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی میں جمہوری عمل کی تکریم کی جانی چاہیے۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے ترکی میں ہونے والی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ ترک سفارتخانے نے برطانوی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر جانے سے گریزکرے۔ادھر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے ترکی میں رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے خلاف مزاحمت کرنے کو کہا ہے۔ خلیجی ممالک میں ترکی کے اہم اتحادی ملک قطر کی جانب سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے۔ ایران کی جانب سے بھی ترکی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ترکی کا استحکام ،جمہوری اور ترک عوام کاتحفظ بہت اہم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Turk Hakoomat K Khilaf Baghawat Ki Koshish Nakam is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.