تاریخ میں پہلی بار پاک بھارت جنگی مشقیں

شنگھائی تعاون تنظیم جنگی مشقوں کا انتظام ہر دو سال بعد کرتی ہے امن 2018ء ان مشقوں کا پانچواں ایڈیشن

پیر 11 جون 2018

tareekh mein pehli baar pak Bharat jungi mashqen
محمد قاسم حمدان
پہلے پاکستان اور بھارت دونوں اپنے لاوٴ لشکر میدانوں میں جھونک کر تباہ کن جنگیں لڑتے تھے لیکن حیرت کی بات ہے کہ دونوں ملک اب جنگ لڑنے سے پہلے با ہم اس کی مشق کریں گے اور ان مشقوں کا موقع دونوں ممالک کو شنگھائی تعاون تنظیم مہیا کر رہی ہے ۔اپریل کے آخری ہفتے میں چین کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم سے وابستہ رکن ممالک کے وزراء دفاع کا اجلاس ہوا۔

بھارت اور پاکستان کے وزراء دفاع تنظیم کی رکنیت ملنے کے بعد پہلی دفعہ اس اجلاس میں شریک ہوئے اور امن2018ء کے نام سے ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت کا اعلان کیا تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ آگ اور پانی ملنے جارہے ہیں ان مشقوں کا مقصد دہشت گردوں کے خاتمے، دہشت گردی کو بے اثر اور جنگ کی تیاری کو جانچنے کے علاوہ ممکنہ حملوں کو روکنے کے لئے کام کرنا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان روس اور چین سمیت تمام رکن ممالک ان مشقوں کا حصہ ہوں گے۔ یورال پہاڑ قازقستان سے شروع ہو کر بحرمنجمد شمالی پر ختم ہوتا ہے 2500 کلومیٹر طویل سلسلہ ایشیا اور یورپ کے درمیان سرحد بناتا ہے۔ ان مشقوں کا انتظام ہر دو سال بعد کیا جاتا ہے۔ امن مشن 2018ء ان مشقوں کا پانچواں ایڈیشن ہوگا۔ بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتا رامن کے مطابق بھارت کے200 فوجی ان مشقوں میں حصہ لیں گے۔

شنگھائی تعاون تنظیم 2001ء میں روس چین، قازقستان اور تاجکستان نے قائم کی تھی۔یہ ایک یور وایشنین تنظیم ہے۔ پاکستان اور بھارت کور کنیت ملنے سے اب رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ اس وقت پیلا روس سمیت چار مبصر اور چھ ڈائیلاگ ممالک کے طور پر اس میں شامل ہیں۔2017ء میں شنگھائی تعاون تنظیم میں توسیع کے بعد وزراء دفاع کا یہ پہلا اجلاس تھا جس میں پاکستان کے وفد کی قیادت وزیر دفاع خرم دستگیرنے کی۔

انہوں نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں شورش اور بدامنی سمیت داعش کی موجودگی ہمسائیوں اور خطہ بھر کے لئے عدم تحفظ کا با عث ہے اس وقت خط کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں تشدد ، شدت پسندی ، غربت ، واٹر مینجمنٹ ، پناہ گزینوں کا مسئلہ، انسانوں کی سمگلنگ اور بارڈر کنٹرول شامل ہیں نیز پاکستان نے اپنے شہریوں اور فوجیوں کے خون کی قربانیوں کی قیمت پر اپنی زمین سے دہشت گردی کو ختم کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کے سوا تمام ممالک سے پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں چین سے اس کی دوستی ایک ضرب المثل بن چکی ہے جو شہد سے زیادہ میٹھی، سمندر سے زیادہ گہری اورہمالیہ سے زیادہ بلند ہے۔ پاکستان نے تائیوان ، تبت اور دیگر مسائل پر ہمیشہ چین کے اصولی موقف کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح چین نے کشمیر پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور کشمیر کے لئے بھارتی پاسپورٹ کی بجاے علیحدہ سے ویزہ جاری کیا۔

چین نے پاکستان کے ساتھ دفاعی شعبہ میں بھر پور معاونت کی، پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس ، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا ، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز ، پاکستان نیوی کے دفاعی منصوبے اور میزائل فیکٹریاں بھی چین کے تعاون سے چل رہی ہیں
2014ء میں چین اور پاکستان کے درمیان انیس معاہدوں پر دستخط ہوئے جس میں سی پیک، گوادر پورٹ اور توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے چین نے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا دوسرا ہم ملک روس ہے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر دونوں ملکوں سے دوستی کے نئے عہد و پیمان کئے ہیں۔ دونوں ممالک میں منفی انجماد سے برف پگھلانے میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے 2014ء میں پاکستان اور روس نے باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے تھے اور دوستی 2016 ، جنگی مشقیں بھی اس معاہدے کا نتیجہ تھیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورہ روس سے بھی دونوں ممالک کی دوستی میں گرم جوشی آئی ہے۔

دنیا اس وقت روس ، چین اور پاکستان میں ایک نیا بلاک بنتا دیکھ رہی ہے جس کی دو اہم وجوہات ہیں ایک تو بحر ہند اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی اور دوسرے روس کی وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے واخان بارڈر کے ذریعے افغانستان تک رسائی ہے۔ اس کے علاوہ گرروس کواکنامک کوریڈور سے منسلک کر دیا جائے تو پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک اور روسی منڈیوں تک براہ راست رسائی ملنا ممکن ہے۔

امریکہ کی جانب سے آئے روز پاکستان کی عسکری امداد روک دی جاتی ہے یا کبھی عسکری تجارتی معاہدے معطل کر دیئے جاتے ہیں تو اس صورت میں روس کوعسکری ٹیکنالوجی کے حوالے سے مغرب کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی امن2018ء فوجی مشقوں کا بنیادی مقصد دہشت گردوں سے اس خطے کو پاک کرنا ہے لیکن بھارت تو پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کو ایکسپورٹ کرنے میں کافی زیاد خودکفیل ہے۔

اس نے افغانستان اور ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جہاں داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو پالا جاتا ہے۔ ہندوستان کے اندر بھگوا دہشت گردی بھی ایک اصطلاح بن چکی ہے۔ ہیمنت کرکرے نے اپنی فرض شادی کا ثبوت دیتے ہوئے حاضر سروس کرنل پروہت اور اسیمانند جیسے بھگوا دہشت گردوں کو گرفتارکیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔

حیدرآباد کی مکہ مسجد ،اجمیر کی درگاہ مالیگاوٴں اور سمجھوتا ایکسپریس میں ہونے والے دھماکوں میں بھگوا دہشت گرد لوث تھے۔ ملزمان نے اپنے حلفیہ بیان یہ قبول کیا تھا کہ تمام کارروائیاں مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے کی گئیں۔ بھگوا دہشت گردی کے خلاف تمام ثبوتوں اور اقبالیہ بیانات کے باوجود انہیں جس طرح ر ہائی مل رہی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ملزمان کے ساتھ دہرے معیار اپنائے جا رہے ہیں۔

پیرس کے ایک تحقیقاتی ادارے کے رکن کرسٹون جیفرے لاٹ نے بھگوا دہشت گردی پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جسے انڈین ایکسپریس نے بھی شائع کیا ہے۔ اس تحقیقی دستاویز میں یہ بتایا گیا ہے کہ مالی گاؤں کے واقعہ کے بعد ہندو دہشت گردی کا جو انکشاف ہواوہ نئی بات نہیں بلکہ ہندو دہشت گردی کی تاریخ کم از کم سو سال پرانی ہے۔ باقاعدہ ملٹری سکول قائم کر کے نوجوانوں کو بم تیار کرنے دھماکے کرنے ،اسلحہ چلانے کی تربیت کا نظام بہت پرانا ہے۔

بھارت ایک طرف دنیا کی بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے اور دوسری طرف کشمیر میں وہ سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارت میں ایک ایسا شخص وزیر اعظم مودی کی شکل میں موجود ہے جسے ساری دنیا دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ اس نے گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر مسلمانوں کی ایک پوری ٹرین جلا کر بھسم کردی اور تین ہزار مسلمانوں کو کوئلہ بنا دیا تھا اس پر یورپ اور امریکہ نے اس کے ویزہ کو منسوخ کر دیا تھا مگر ہندوستان نے اسے اپنا وزیراعظیم بنا کرعظیم جمہور کا پول کھول دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ ایک دہشت گرد ملک کا وزیر اعظم ایک مہا دہشت گرد ہی ہو سکتا ہے۔


بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے ستر سال سے یو این او قرار دادوں کو پاؤں تلے روند کر ان سے کھلواڑ کر رہا ہے کشمیری مسلمان اپنی تحریک آزادی بر پا کئے ہوئے ہیں۔ بھارت نے ان کی جائز آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے آٹھ لاکھ فوج کشمیر یوں کے سروں پر مسلط کر رکھی ہے ان پر پیلٹ گنوں سے چھروں کی بارش برسا کر ان کے چہروں کو مسخ کیا جارہا ہے بلکہ ان کی بینائی تک چھینی جا رہی ہے۔

بھارتی فوج اور بھگوا دہشت گردوں نے عصمت ریزی کو بھی دہشت گردی کا ہتھیار بنالیا ہے۔ ہر وہ شخص جس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے آصفہ کی کہانی سن کر سکتے میں آ جاتا ہے کہ انسانی آبادیوں میں ایسے وحشی درندے بھی بسیرا کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو پاکستانی لیڈروں اور فلاحی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے سے فرصت نہیں ملتی اور بھارت کی ننگی اورکھلی دہشت گردی سے یہ عالمی ادارہ آنکھیں بند کر لیتا ہے اسیمانند کا بری ہونا اور پھرجج کا چند گھنٹوں بعد استعفی دینا اپنے آپ میں شکوک وشبہات کے بادل مزید گہر ے کر دیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب مذہب کے نام پر سیاست اور غنڈہ گردی عام ہو، ذات پات کے نام پر لوگوں کے ساتھ زیادتی کو فروغ دیا جارہا ہو ، بولنے لکھنے پر بندشیں ہورہی ہوں ،زانیوں کے لئے ترنگا یاترائیں نکالی جارہی ہوں شمبھو ناتھ جیسے سفاک قاتلوں کے لئے عدالتوں کا گھیراوٴ کر کے بھگوا جھنڈا لہرایا جا رہا ہو، ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خاص نظر یہ اور فکر رکھنے والے شدت پسندوں کو بچانے کے لئے کوئی کسر چھوڑی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

tareekh mein pehli baar pak Bharat jungi mashqen is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 June 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.